‘کوویڈ-۱۹: عالمی چیلنج، قومی ردعمل-بین الاقوامی تعلقات اور ڈپلومیسی میں ابھرتے ہوئے رجحانات اور پاکستان’ (چوتھا اجلاس)

‘کوویڈ-۱۹: عالمی چیلنج، قومی ردعمل-بین الاقوامی تعلقات اور ڈپلومیسی میں ابھرتے ہوئے رجحانات اور پاکستان’ (چوتھا اجلاس)

وبائی مرض کے بعد کی دنیا کے چیلنجوں کا جواب دینے کے  لیے ورچوئل ڈپلومیسی وقت کی ضرورت ہے: ماہرین

 amb-abrar-webinar

وبائی مرض کے بعد کی دنیا کے چیلنجوں کا جواب دینے کے  لیے ورچوئل ڈپلومیسی وقت کی ضرورت ہے: ماہرین

کورونا وائرس کےوبائی مرض نے ڈپلومیسی کے انداز کو بدل دیا ہے اور یہ تبدیلی  آن لائن دنیا میں ورچوئل میٹنگوں کے ذریعے عمل پزیر نظر آئے گی۔ یہ رجحان ، جو  مستقبل قریب میں بڑھتا ہوا نظر آتا ہے  اس کے آگے چل کربین الاقوامی تعلقات پر نمایاں اثرات مرتب ہونے کی امید ہے ۔ چنانچہ اس میدان میں سفارت کاروں اور دیگر غیر ملکی سروس کے افسران کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے  کی ضرورت ہو گی تاکہ ان کے معیار اور کارکردگی کو بڑھایا جا سکے۔

 ان خیالات کا تبادلہ ‘بین الاقوامی تعلقات اور ڈپلومیسی میں ابھرتے ہوئے رجحانات اور پاکستان ‘ کے عنوان سے ایک ویبینار میں کیا گیا   جسے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)  اسلام آباد نے اپنی ویبینار  سیریز ‘کوویڈ – ۱۹: عالمی چیلنج ، قومی رد عمل ‘ کے ضمن میں ۲۰ اپریل ۲۰۲۰ء کو ترتیب دیا تھا۔

 اس نشست سےایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) سید ابرار حسین اور ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ)  تجمل الطاف نے بطور مرکزی مقررین خطاب کیا اور سابق سیکرٹری خزانہ اور آئی پی ایس نیشنل اکیڈمک کونسل کے ممبر ڈاکٹر وقار مسعود خان اور ایگزیکٹو صدر آئی پی ایس خالد رحمان نے مشترکہ طور پر صدارت کی۔

مقررین اس بات پر متفق تھے کہ کرونا وائرس کی وبائی بیماری نے دنیا کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے اور اس کا اثر مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف طریقوں سے پہلے ہی محسوس کیا جا رہا ہے۔بین الاقوامی ڈپلومیسی ایک ایسا میدان ہے جو اس غیر معمولی صورت حال کا مرکز بنا ہوا ہےاور جہاں اس عالمی وبائی مرض سے نمٹنے میں اس کا اہم کردار ہے وہاں کوویڈ-۱۹ کے بعد کی دنیا میں اس کی شکل و صورت اور غرض و غایت ہی   تبدیل ہو سکتی ہے۔

ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ)  ابرار  نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ وبائی مرض کے بعد کی دنیا میں سفارتی طرز عمل میں نمایاں تبدیلی آئے گی جہاں آن لائن ملاقاتیں ، گفتگو اور تبادلہ خیال ایک معمول بن جائے گا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ یورپی کونسل پہلی بڑی تنظیم تھی جس نے عالمی لاک ڈاؤن کے بعد اپنا اجلاس آن لائن کرنا شروع کیا تھا، جس کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ، آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور جی ۲۰ جیسے متعدد بین الاقوامی اداروں نے اپنی بہت سی سرگرمیاں آن لائن منعقد کرنا شروع کردیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی پیشرفت سے سفارت کاری کے بہتر اثرات مرتب کرنے کے لیے نئے اور جدید طریقوں  کا تقاضا وقت کی ضرورت ٹھرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ عملی نوعیت کے کاموں کی نوعیت بدل جائے گی  جیسا کہ انتہائی اہم افراد اور معززین کے استقبال کا پہلے والاعمل کچھ حد تک ختم ہو جائے گا۔

بین الاقوامی تعلقات پر وبائی امراض کے اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ابرار حسین نے کہا کہ شدید مندی ہونےکے امکانات بہت زیادہ ہیں  جس کی صورت حال پوری دنیا میں بے روزگاری بڑھ جانے کے باعث  مزید خراب ہوسکتی ہے۔ یہ صورت حال عالمی سطح پرقیادت کی صلاحیتوں اور خاص طور پر بڑی طاقتوں کی آزمائش کی حیثیت رکھتی ہے جنہیں بہترا قدام اٹھانے اور بین الاقوامی کردار ادا کرنے کے لیے آگے آنا ہو گا۔ عام تاثر یہ ہے کہ چین اس منظر نامے میں قائد کے طور پر ابھر رہا ہے جبکہ امریکہ اپنا اثر کھو رہا ہے۔ تاہم اب بھی یہ امکان موجود ہے کہ مغربی ممالک چین کے خلاف متحد ہوجائیں۔ کسی بھی طرح سے نئے بین الاقوامی اتحاد کی کوئی شکل لائی جا سکتی ہے جبکہ بالکل نیا عالمی آرڈر بھی آنے کا امکان ہے۔

اسپیکر نے کہا کہ پاکستان کو موجودہ حالات میں کوویڈ- ۱۹ کے وبائی مرض  سے نبٹنے کے لیے عالمی سطح پر ہونے والی تمام کوششوں کی توثیق جاری رکھنی چاہیے ، او آئی سی اور سارک جیسے علاقائی فورمز کے مابین اجتماعی کاوشوں کو فروغ دینا چاہیے، موثر معاشی ڈپلومیسی  کی مشق جاری رکھنی چاہیے اور ان تارکین وطن کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم رکھنا چاہیے جو عام طور پر ملک میں بڑی تعداد میں رقوم  بھیجتے ہیں لیکن فی الحال خود انہیں مدد کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ صورتحال میں بھی پاکستان کو پوری کوشش جاری رکھنی چاہیے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی حالت زار بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہوتی رہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ عالمی سطح پر اس مسئلے کو اٹھانے کے لیے ہم خیال ممالک کواعتماد میں لے اور اپنے ساتھ لے کر چلے۔

آخر میں ابرار نے پاکستان کی وزارت خارجہ کی کاوشوں کو بھی سراہا اور بتایا کہ وہ کس طرح پاکستانی سفارت خانوں کے ساتھ مل کر دیگر ممالک میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو سہولتیں پہنچانے کے لیے کوشاں رہا ہے۔ انہوں نے بیجنگ میں سفارتخانے کے دو عہدیداروں کا خصوصی طور پر تذکرہ کیا جنہوں نے چینی حکام کے اس انتباہ کے باوجود وبائی مرض کے مرکز ووہان کا سفر کیا کہ انہیں لاک ڈاؤن اور قرنطین کی مدت ختم ہونے پر ہی واپس آنے کی اجازت دی جائے گی۔ تاہم وہ پھر بھی پاکستانی طلباء کی فلاح و بہبود اور دیکھ بھال کے لیے وہاں گئے اور 76 دن تک وہیں قیام کیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ قومی سطح پر اس طرح کے بہادر اور بے لوث افسروں کو نمایاں کیا جائے، ان کی خدمات کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) تجمل الطاف کی بھی رائے تھی کہ عالمی سفارت کاری مستقبل قریب میں زیادہ تر ورچوئل ہوگی اور اس کا زیادہ تر انحصار ٹیکنالوجی پر منحصر ہوگی۔

عالمی امور کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا کچھ بلاکس میں تقسیم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اگرچہ ابھی سے کچھ کہنا جلد بازی ہے کہ بین الاقوامی تعلقات اور عالمی سیاست کے لحاظ سے معاملات کس سمت تشکیل پائیں گے لیکن ابتدائی علامتوں سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ اب عالمی سطح پر اپنی برتری اور قیادت کی پہلے والی پوزیشن سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ عالمگیریت کا عمل جو کچھ عرصہ پہلے تک تیزی سے پھیل رہا تھا، اس کو بھی خاصی ضرب لگ رہی ہے۔ خاص طور پرامریکہ خود یہ کوشش کرتا نظر آ رہا ہے کہ سب سے پہلے اپنے مغربی دوستوں کو قومیت اور تحفظ تجارت کے باعث بچایا جائے اوران کی معیشت کی فکر کی جائے۔ اسی طرح مغربی ممالک اپنی خواہش کے مطابق عالمی معیشتوں، ٹیکنالوجیز اور صنتکاری پر اجارہ داری رکھتے ہوئے سخت کنٹرول چاہتے ہیں۔

الطاف نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ دوسری طرف چین ضرورت مند ممالک کو مدد فراہم کرکے اپنے لیے بین الاقوامی سطح پر مزید جگہ پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔ معاشی طور پرغریب ممالک پہلے ہی اس بحران کا سامنا کرنے یا اس وبائی مرض کے بعد کی صورتحال پر قابو پانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اس وجہ سے اس بات کا امکان موجود ہے کہ دنیا میں طاقت کا مرکز مغرب سے مشرق کی طرف بڑھتا نظر آئے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے تجزیہ کار ایسا ماحول بنانے کی ضرورت پر تقریبا متفق ہیں جس میں توجہ عام آدمی کی زیادہ سے زیادہ بھلائی پر مرکوز ہوگی۔ ژی جنپنگ کے ‘سلک ہیلتھ روڈ’ جیسے اقدامات کے ذریعے چین پہلے ہی ضرورت کے وقت دوسرے ممالک کی مدد کا اندیہ دے چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس دوڑ میں جو بھی ملک بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا وہ سبقت لے جائے گا۔

ورچوئل ڈپلومیسی کے رجحان پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اسپیکر نے سفارتی اداروں کے ساتھ ساتھ پیشہ ور افراد کے لیے بھی اسے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کاایک ایسا موقع قرار دیا جو بوجھل پن میں کم سے کم اور نتائج میں بہت بہتر ہو گا۔ چنانچہ جو وسائل پہلے دوسری چیزوں پر استعمال ہورہے ہیں اب وہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیے جا سکیں گے۔

الطاف نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج کی دنیا کوجس عالمی چیلنج کا سامنا ہے صرف ایک عالمی نقطہ نظر ہی اس صورحال سے نکلنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی صلاحیتوں کو اس طرح استوار کرنے کی ضرورت ہوگی کہ جہاں ہم اپنے روابط کو مستحکم کر رہے ہوں تو بنی نوع انسان کی عظیم تر بھلائی کے لیے مل کر کام کرنے کا بہترین طریقہ بھی اپنائے ہوئے ہوں۔

مقررین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ این ڈی ایم اے ، وزارت صحت ، وزارت خارجہ امور اور وزارت تجارت جیسے اداروں کو مربوط ہو کر کام کرنا چاہیے۔  وینٹیلیٹرز، نیبولائزرز۔ پی پی ایز اور دیگر مطلوبہ سامان کی خریداری کے لیے ان مقامات کی نشاندہی کرنی چاہیے جہاں سے خریداری کی جا سکے اور اس کے لیے بہترین طریقہ کار اور جلد از جلد حصول کو ممکن بنایا جانا چاہیے۔  

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے