‘پاکستان میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیجوں کا مننظر نامہ’

‘پاکستان میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیجوں کا مننظر نامہ’

جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیجوں کے لیےایک جامع پالیسی فریم ورک بنانے کی فوری ضرورت ہے، زرعئ ماہرین

 GMO-Scene-in-Pakistan

پاکستان میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیجوں کے استعمال کے متفرق مثبت اور منفی پہلووَں کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے زرعِی ماہرین نے ملک میں اس  معاملے سے متعلق کسی جامع پالیسی فریم ورک کی عدم موجودگی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اس کے فوری تیاری پر زور دیا تاکہ اس کی روشنی میں ایسے بیجوں کی درآمد اور استعمال سے متعلق قوانین و صوابط طے کیے جا سکیں۔ 

اس ضرورت کا اظہار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز [آئ پی ایس] میں ۵ مارچ ۲۰۲۰ کو منعقدہ ایک گول میز نشست میں کیا گیا جس کا عنوان تھا ‘پاکستان میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیجوں کا مننظر نامہ’۔ اس نشست کی صدارت آئ پی ایس کے ایگزیگٹیو صدر خالد رحمٰن نے کی جبکہ دیگر مقررین میں سابق وفاقی کیبنیٹ سیکریٹری سیّد ابو احمد عاکف، پاکستان انوائرومنٹ پروٹیکشن ایجنسی کی ڈائریکٹر جنرل فرزانہ الطاف شاہ ، فیڈرل سِیڈ سرٹیفیکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر عبدالروَف بھُٹا، ، اسلامیہ کالج یونیورسٹی، پشاور کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد فہیم ، اور ایگریکلچر ریفارم موومنٹ  کے صدر اعجاز احمد صدیقی شامل تھے۔ 

ڈاکٹر بھُٹا نے اپنی ابتدایہ تقریر میں کہا  کہ پاکستان کے سِیڈ ایکٹ ۱۹۷۶میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیجوں [جی ایم او] کو سرٹیفیکیٹ دینے کے حوالے سے کوئ اجازت موجود نہیں ہے، لیکن پھر بھی پاکستان بائیو سیفٹی رولز ۲۰۰۵ میں ملٹی  نیشنل اداروں کو ایسے بیج درآمد کرنے کی رعایات دی گئ ہیں۔ یہ اور اس قسم کے کچھ دیگر اقدامات پر حکومتی اداروں اور ریگولیٹری اتھارٹیز کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ قومی غذائی تحفظ کسی بھی ملک کی خودمختاری کے لیے ایک ستون کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس قسم کے معاملات کو جانچنے کے لیے پاکستان میں نیشنل بائیو سیفٹی کمیٹی کے علاوہ اور کوئ رِسک اسسمنٹ سیکٹر موجود نہیں ہے۔ 

اعجاز صدیقی کی گفتگو کی توجہ کا مرکز ملک میں زرعئ ترقی اور اس کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی معاونت تھا۔ فصلوں میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیجوں کے  استعمال کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر بیج ماحول اور انسانی صحت کے لیے مضِر نہیں ہیں تو ان کو سسٹم میں داخل کرنے کے لیے غیر قانونی اور بالواسطہ طریقے کیوں استعمال کیے جا رہے ہیں؟ 

جی ایم او کے حوالے سے حکومتی حلقوں کی نا اہلی کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے ایسی بہت سے تضادات اور غلط فیصلوں کی طرف اشارہ کیا جو گزشتہ حکومتیں اس حوالے سے ملک کے مفاد کے خلاف کرتی رہیں ہیں۔ 

انہوں نے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیجوں کے حوالے سے ملک میں کسی ریگولیٹری گائیڈ لائنز کے نہ ہونے پر بھی اعتراض کیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ملک میں اس سلسلے میں بنائ جانے والی کسی بھی ریگولیٹری ہدایات کو بائیو سیفٹی کے کارٹیگنا پروٹوکول سے مطابقت بھی یقینی بنانی ہو گی کیوںکہ پاکستان نے اس کے توثیق پہلے سےکر رکھی ہے۔ 

ڈاکٹر فہیم کا کہنا تھا کہ جن ممالک میں جی ایم او یعنی جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیج استعمال ہو رہے ہیں وہاں چیک اور بیلنس کے بہت اچھے انتظامات موجود ہیں جبکہ پاکستان میں اس مقصد کے لیے لیبارٹریز اور ماہرین دونوں کی کمی ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ وہ جی ایم او کے یکسر مخالف نہیں ہیں لیکن اس کے استعمال سے پہلے اس سے متعلق مقامی قوانین، استعمال کے طریقہ کار اور استعدادِ کار کو بہتر کرنا ضروری ہو گا۔ 

ڈاکٹر فہیم نے اپنی تقریر میں پاکستان میں زرعئ تحقیق کاروں پر بھی شدید اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تحقیق کا واحد مقصد ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے اضافی پوائنٹ لینا ہوتا ہے اور اسی وجہ سے ان کی کی ہو ئ تحقیق عام طور پر نہ تو مقامی ضروریات سے مطابقت رکھتی ہے اور نہ اس کے کسی کام آ سکتی ہے۔ 

ڈاکٹر فرزانہ نے دیگر مقررین سے اس بات پر اتفاق کرتے ہوئے کہ ملک میں جی ایم او سے متعلق کوئ واضح اور جامع پالیسی موجود نہیں ہے، اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ پاکستان انوائرومنٹ پروٹیکشن ایکٹ ۱۹۹۷، نیشنل بائیو سیفٹی گائیڈ لائینز ۲۰۰۵ اور بائیو سیفٹی رولز ۲۰۰۵ ان معاملات کو موضوع بناتے ہیں۔

انہوں نے اس بات سے بھی اختلاف کیا کہ ملک میں کوئ بائیو سیفٹی ٹیسٹنگ لیبارٹری موجود نہیں ہیں اور اس بات کی بھی صاف تردید کی کہ نیشنل بائیو سیفٹی کمیٹی نے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیجوں کے لیے لائسنس دے دیا ہے۔ 

ڈاکٹر فرزانہ نے اس اہم معاملے کو اٹھانے اور زیرِ بحث لانے پر آئ پی ایس کا بھی شکریہ ادا کیا اور اسکی کوششوں کو سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام میں ان معاملات کا شعور اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے اور آئ پی ایس جیسے پلیٹ فارم ایسے موضوعات کی آگہی دینے کے ساتھ ساتھ ان معاملات میں موجود پالیسی کے خلاء اور متعلقہ پالیسی ہدایات ترتیب دلوانے میں میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں تاکہ اس سے متعلق پائےجانے والی کوتاہیوں کا تدارک اور تصحیح کی جا سکے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کی معلوماتی نشستیں جس میں حکومتی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ زمین پر عملی طور پر کام کرنے والے افراد بھی موجود ہوں ، پالیسی سازوں کو ایسی پالیسیاں اور حکمتِ عملی ترتیب دینے میں مدد دے سکتی ہیں جن پر نہ صرف عملدرآمد آسانی سے ممکن ہو بلکہ وہ مقامی ضروریات کے لیے مفید بھی ہوں۔ 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے