امریکی سامراجیت اور مسلمان

امریکی سامراجیت اور مسلمان

جمہوریت اور انفرادی آزادی کو جدید مغربی تہذیب میں وہی مرکزی مقام ہےجو ایک مسلمان کےعقیدے میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےخاتم النبےین ہونےکا ہے۔ جس طرح ایک مسلمان ان دوصداقتوںکےبغیر صاحبِ ایمان نہیں ایسےہی مغربی تہذیب ان دو اکائیوں کےبغیر اپنا وجوداور تشخص کھو بیٹھتی ہے۔اکیسویںصدی میںمغربی تہذیب کےاس عقیدےمیںدعویٰ کی حد تک توکوئی بنیادی تبدیلی واقع نہیںہوئی لیکن عملی طورپر مغرب جدید بلکہ مابعد جدیدیت مغرب (post modern West) کا جو چہرہ ۱۱/۹ کےبعد منظرعام پر آیا ہےوہ اس عقیدہ کی مستند طور پر عملی تردید کرتا ہے۔ چنانچہ ۱۱/۹ کےبعد امریکہ نےجمہوریت اور انفرادی آزادی، دونوںکی دھجیاںاڑادیں۔ امریکی شہریوںکو ملکی سلامتی کےنام پر غیرمعین مدت کےلیےزیرحراست کر لینا،ڈرانا دھمکانا ایک معمول بن گیا اور جمہوریت کی جگہ امریکی سامراجیت اور سلطنت کےفروغ کےلیےقوت کا استعمال نہ صرف مباح بلکہ ضروری قرار دے دیا گیا۔
جدید سامراجیت کےلیےیہ ضروری نہیںکہ وہ جغرافیائی طور پر کسی ملک یا خطےکو اپنےدائرہ اثر میںلےآئے۔ آج عالمگیریت کےزیرعنوان سینکڑوںہزاروںمیل دُور بیٹھ کر بھی امریکی سامراجی طاقت قوت، دھونس اور دھمکی کےبل پر کسی بھی ملک پر سیاسی طورپر قبضہ کرنےاور اس کی معیشت،سیاست،معاشرت اور ثقافت کو اپنےرنگ میںرنگنےکو نہ صرف جائز بلکہ انسانیت کی خدمت قرار دینےمیںشرم محسوس نہیںکرتی۔ نیا سامراجی نظام ’’قبل از قتل قصاص‘‘ کرنےمیںنہ صرف کوئی تکلف محسوس نہیںکرتا بلکہ اسے’’عالمی امن‘‘ ،’’عالمی سلامتی‘‘ اور ’’عالمی حریت‘‘ کےقیام اور بقاء کےلیےاپنےاوپر ایک فرض اور قرض سمجھتا ہے۔ چنانچہ pre-emptive strike کا نظریہ ہو یا کسی ملک پر جبراً اور قہراً جمہوریت کےنام پر اپنےگماشتوںکو مسلط کرنا ہو اپنےلیےذرائع حرارت و قوت کےحصول کی غرض سےعراق کےتیل کےکنوؤںکو ۳۳ سال کےلیےامریکی اور یورپی یونین کی کمپنیوں کو من مانی شرائط پر دےدینا ہو۔ یہ جدید سامراج ان تمام گھناؤنےجرائم کو عراقی عوام کی نجات دہندگی سےتعبیر کرتا ہےاور عراق کے۶لاکھ نہتےشہریوں، بچوں، بوڑھوں اور خواتین کےقتل کو اس مقصد کےلیےمباح بلکہ واجب سمجھتا ہے۔ خرد کا نام جنوںرکھ دینےاور جنوں کو خرد قرار دینےکی اس سےبہتر مثال اکیسویںصدی میںملنی مشکل نظر آتی ہے۔
جدید مغربی سامراج کےاس متضاد، جابرانہ، آمرانہ اور استحصالی طرزعمل کےپہلو بہ پہلو اسی مغرب میں تعلیم وتربیت پانےوالےایسےغیر مسلم دانشور بھی پائےجاتےہیںجو اس نئی سامراجیت کو آئینہ دکھانےمیںکوئی شرم اور مداہنت محسوس نہیںکرتے۔ دوسری جانب بہت سےمسلم ممالک کےسربراہان امریکہ کےجدید سامراجی اقدامات کی حمایت بلکہ امریکی سامراج کےجرائم کی ذمہ داری اپنےسر لینےکو اپنےلیےباعث افتخار سمجھتےہیں۔ باجوڑمیں۸۲ معصوم اور کم عمر طالبانِ علم کےسفاکانہ انداز میںشہید کیےجانےکو اپنےسرلینا جبکہ وہاںکےعینی شاہدوںکےبیان کےمطابق امریکی جنگی ہوائی جہازوںنےاس جرم کا ارتکاب کیا تھا، شکست خوردہ ذہنیت اور طاغوت کےسامنےسربسجود ہونےکا ایک واضح ثبوت کہا جا سکتا ہے۔ یہ بےضمیر افراد طاغوت کےسامنےسجدہ ریز ہونےکو اپنی معراج تصور کرتےہیںاور دوسری جانب ایسےامریکی غیر مسلم دانشور ہیںجو امریکہ کی سامراجیت کو امن عالم کےلیےایک مہلک خطرہ قرار دینےمیںکوئی جھجک محسوس نہیںکرتے۔ James Putzel جس کا تعلق لندن ا سکول آف اکنامکس کےCrisis States Development Research Centre سےہےیہ کہنےمیںباک محسوس نہیںکرتا کہ امریکہ کی حالیہ پالیسی خصوصاً بش کا نظرےۂ پیشگی ضرب (Pre emptive strike) بین الاقوامی قانون کی دھجیاںاڑانےاور شہری آزادیوںکو نیست و نابود کرنےکی ایک آمرانہ کوشش ہے*۔
اس طرزفکر کی نشاندہی بہت سےدیگر مغربی دانشور اور محقق بھی کر رہےہیں۔ مثلاً یونیورسٹی آف نیبرا سکا،کینیڈامیںسیاسیات کےمعروف پروفیسرڈیوڈ پی فورسیتھ (Daivd P. Forsythe) اپنےمقالہ *U.S Policy towards Enemy Detainees in the "War on Terror” میںامریکی مظالم اور جرائم کا مقابلہ فرانس کےسامراجی دور میںالجزائر میںکیےگئےمظالم سےکرتا ہےاور امریکی تشدد اور حقوق انسانی کی خلاف ورزیوںکی شدت سےمذمت کرتا ہے۔
آج جب امریکی سامراج کےبعض نمک خوار دوسروںکےجرائم کو اپنےسر لےکر اپنی وفاداری ثابت کرنےکےدرپےہیں،یونیورسٹی آف ایرینرونا کےپروفیسر Richard M. Eaton کا مضمون جو ۳ اکتوبر ۲۰۰۲ء کےs London Review of Book میںطبع ہوا ہے،عراق پر امریکی جارحیت کےپس منظر کو واقعاتی دلائل کی مد دسےامریکی حکومت کےذمہ دار افراد کےاسماء گرامی کےساتھ ہمیںبتاتا ہےکہ بش کی کابینہ کےافراد اور بعض فکری اداروںسےوابستہ ماہرین نےکس طرح اپنےہاتھ تاپنےکےلیےکےلیےعراق میںآگ بھڑکائی۔ وہ ’’نئی امریکی صدی‘‘ کےمنصوبےکےمصنفین اور کرداروںکی نام بنام نشاندہی کرنےکےبعد امریکہ اور اسرائیل کی سازباز اور عراق پر حملےکےمحرکات وغیرہ پر کھل کر بحث کرتا ہےاور واضح الفاظ میںمشرقِ وسطیٰ میںامریکہ کی خواہش کےمطابق نئےنقشےکےمطابق ممالک کی بندر بانٹ پر روشنی ڈالتا ہے۔ اتنی واضح اور مصدقہ معلومات کےباوجود بعض افراد کا چچا سام کی تسبیح پڑھنا اور پرائےشگون کےلیےبچی کھچی عزتِ سادات کو بھینٹ چڑھانا ان کی عدم بصارت ،عدم بلوغ اور فارغ الذہن ہونےکا ثبوت پیش کرتا ہے۔ بہت عرصہ قبل کسی مستقبل شناس نےصحیح کہا تھا کہ ہوئےتم دوست جس کےدشمن اس کا آسماںکیوںہو؟ جو بذاتِ خود چراغ سےاپنےدامن کو آگ لگانےپر رقص مسرت میںمصروف ہو اس کےآشیانہ کو کسی بیرون پتنگےکی کیا ضرورت !
ایک اور امریکی دانشور John Mueller معروف علمی جریدےForeign Affairs کےاکتوبر۲۰۰۶ء کےشمارےمیںامریکی اور امریکہ کےطفیلیوںکے’’دہشت گردی‘‘ کےنعرےکا پول کھولنےکےساتھ امریکی شہریوںسےوصول کردہ ٹیکس کا دہشت گردی کےنام پر بےدریغ خرچ اور عملاً تمام حفاظتی اقدامات کےغیر موثر ہونےکی طرف اشارہ کرتا ہے۔ گھر میںپروردہ دہشت گردوںسےکیسےنمٹا جائےاور کس طرح امریکی پالیسیوںکےنتیجےمیںمسلسل دہشت گردوںکی پیدائش اور فروغ کو روکا جائے،ایسےسوالات ہیںجن کا جواب وہ اقدامات نہیںدےسکتےجو امریکہ نےاختیار کیےہیں۔ عراق میںخو د امریکی مبصر فرید ذکریا کےبقول ۷۰فیصد سےزائد عراقی آج امریکیوںکو قتل کرنا پسند کرتےہیں۔ حالیہ سانحۂ صدام نےاس امریکہ دشمنی میںکئی گنا اضافہ کر دیا ہےاور آج ان حقائق کا اظہار خود امریکی مفکرین جس کثرت سےکر رہےہیںاس سےتین نکات واضح ہو کر سامنےآتےہیں۔ اولاً،امریکہ کی سامراجی اور شاہانہ (imperialist) پالیسی کےباوجود بہت سےامریکی ضمیر کی آواز کو دبائےبغیر امریکی پالیسی کی مخالفت میںزبان وقلم کا استعمال کر رہےہیںجبکہ امریکہ کےوفادار مسلم حکمران امریکہ کےہر ظلم اور آمرانہ فعل کو حق بجانب سمجھتےہوئےاس کی حمایت ورنہ کم ازکم منقارزیر پر رکھنےمیںاپنی عافیت سمجھتےہیں۔ ثانیاً،دیوار کی تحریر یہ بتا رہی ہےکہ امریکی شہنشاہیت اور سلطنت زوال کےگرداب میںپھنس چکی ہےاور امریکی باشعور آبادی اس کی جارحانہ عالمی سیاست سےبیزار ہو چکی ہے۔ ثالثاً،یہ بات بھی واضح طور پر سامنےآئی ہےکہ امریکہ اور یورپ میںمقیم مسلمانوںکےلیےکم ازکم آئندہ دو عشرےمزید آزمائش اور ابتلاء کےہیں۔ مذہبی منافرت اور تفریق میںاگر اضافہ نہیںتو کمی کےواقع ہونےکےامکانات بھی روشن نظر نہیںآتے۔ ان حالات میںمسلمانوںکا امریکہ اور یورپ کو چھوڑکر واپس اپنےآبائی وطنوںمیںآنےکا خیال اس مسئلہ کو حل نہیںکرسکتا۔
مسئلہ کا اصل حل اسلام کی جامع اور کامل تصویر کا خود مغرب کی زبان واسلوب میںپیش کرنےاور ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر یہ ثابت کرنےمیںہےکہ اسلام ہر ظلم اور زیادتی کےخلاف جہاد اور ظلم کو مٹا کرحقوق ِانسانی کی سربلندی کا قائل ہےاور عالمی انسانی برادری کی بقائےباہمی کی غرض سےعالمگیر اخلاقی اصولوںپر مبنی معاشرہ اور ریاست کا قیام چاہتا ہے۔ مذہبی منافرت،نسلی تعصب اور رنگ کی بنیاد پر تفریق کو رد کرتےہوئےتمام انسانوںکو نسلِ آدم ہونےکےتعلق سےعالمگیر اخلاقی اصولوںکےاحترام کی دعوت دیتا ہے۔ اسلام سامراجیت،آمریت اور شہنشاہیت کو رد کرتےہوئےانسانوںکو حریت،عزت نفس،وقار اور معروف کی طرف بلاتا ہےاور اس سےقطع نظر کہ سامراجیت کا ارتکاب مغرب کر رہا ہو یا مشرق،طاغوتی طرزعمل کسی سیاہ فام فرد نےاختیار کیا ہو یا سیاہ قلب والےسفید نسل کےفرد نے،وہ ہر باطل اور طاغوتی عمل سےاپنی براء ت کا اظہار کرتےہوئےنسل آدم کو اس عہد کی یاد دلاتا ہےجو اس کی تخلیق کےوقت خالق نےلیا تھا کہ تمام انسانوںکا رب صرف اور صرف ایک مالک اور خالق اللہ ربُّ العٰالمین ہے،جو عادل ہےاور چاہتا ہےکہ اس کےبندےبھی عدل کو اختیار کریں۔
یورپ وامریکہ میںمقیم مسلمانوںکو بالخصوص اور دیگر مقامات پر مسلمانوںکو بالعموم اسلام کی تعلیمات پر پورےاعتماد اور بلاکسی معذرت پسندانہ رویہ کےاسلام کےاصلاحی طرزِعمل،ظلم اور فتنہ وفساد کےخلاف جہاد اور غریب کےاستحصال کےخلاف جدوجہد کو مناسب انداز میںاپنےطرزِعمل سےواضح کرنا ہو گا جس کےنتیجہ میںایک طویل عمل کےبعد مسلمانوںاور اسلام کےبارےمیںمغرب کےقائم کردہ تصورات کی اصلاح اور مغرب کےطرزِعمل میںمثبت تبدیلی واقع ہو گی۔ آنےوالےوقت کو اس نقطۂ نظر سےدعوت کی صدی کہا جا سکتا ہے۔
ابلاغِ عامہ کےانقلاب اور عالمگیریت کی موجودگی میںدعوت با الحال اور دعوت با القال کےذریعہ ہی اس ذہنی تصویر کو بدلاجا سکتا ہےجو اسلام کےرنگ آلود تصور کی بنا پر مغرب اور مغرب زدہ ذہنوںمیںجگہ پکڑچکی ہے۔
وقت کےاس موڑپر جب غیر مسلم امریکی اور یورپی دانشور،خود امریکہ کی سامراجیت کےخلاف آواز اٹھا رہےہیں۔ تحریکاتِ اسلامی کی قیادت کا فریضہ ہےکہ وہ عدل وتوازن کےساتھ اسلام کےتعمیری کردار اور مغرب کی روبہ زوال اخلاقی صورت حال کےتناظرمیںایک تہذیبی مکالمہ کےذریعہ صورت حال کو سنبھالنےاور بہتر بنانےکےلیےاپنا کردار ادا کریں۔ اس تہذیبی مکالمےکا مقصد اپنی ثقافت،دین،اور اپنےتصور ِحیات کو اعتماد کےساتھ اور بلاخوف پیش کرنا ہونا چاہیےتاکہ دوسرا فریق اسلام کےپیش کردہ متبادل نظرےۂ حیات پر غور کرسکے،اس کےخدوخال کو سمجھ سکےاور پوری آزادی کےساتھ اگر چاہےتو اسےاختیار کر سکے۔
اس شمارےکےمضامین کےانتخاب میںفضاء فاطمہ اثر نےہمارےساتھ جو تعاون کیا ہےہم اس کےلیےشکرگزار ہیں۔ مغرب اور سلام کےادارتی عملہ میںتین نئےرفقاء کا اضافہ ہوا ہے،ہم فیاض خان،اور پروفیسر اےڈی میکن اور محمد سلیم ظفر کو خوش آمدید کہتےہیںاور سید راشد بخاری جو گزشتہ کئی سال سےہماری معاونت کرتےرہےاور اب ادارہ سےوابستہ نہیںہیں،ان کی سابقہ مساعی پر اللہ تعالیٰ سےبہترین اجر کی دعا کرتےہیں۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے