امریکی مسلمان: حال اور مستقبل

امریکی مسلمان: حال اور مستقبل

نئی دنیا امریکہ میںمسلمانوںکی آمد،ان کی تاریخ اور امریکہ کےمختلف خطوں میںمسلمان برادریوں(communities) کےفروغ کا تاریخی جائزہ اور ان کی تعداد کےمتعلق اندازے، عرصےسےاکثر امریکی مصنفین کی توجہ کا مرکز بنےرہےہیں۔ یہ معلومات بلاشبہ اہمیت رکھتی ہیںاور مسلمانوں کے معاشی،سیاسی اور معاشرتی کردار کےسمجھنےمیںمدد دیتی ہیں۔ لیکن ہماری اس گفتگو کا محور شمالی امریکہ کےمسلمانوںکےماضی کی جگہ ان کا مستقبل ہےتاکہ اس بات پر غور کیا جا سکےکہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور اسلام کےنام نہاد مغرب میںتعمیری کردار کی شکل کل کیا ہونےجا رہی ہے۔
عصر حاضر کےبعض دانش وروںنےیہ تاثر ذہن میںقائم کر لیا ہےکہ ۱۱ سمبر تو ابتلاء و آزمائش کا فقط آغاز ہے۔ یہ ایک سمندر میںتیرتےہوئےبرف کےپہاڑکی محض چوٹی ہے،اس لیےاس کےصحیح قد و  قامت کا اندازہ محض چوٹی کی نوک کو دیکھ کر نہیںلگایا جا سکتا۔ اگر یہ فرض بھی کر لیا جائےکہ ۱۱/ ۹ کی حیثیت ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کےتحت بطور خطرےکی گھنٹی کی ہے،تو کیا کسی ایسی قیاس آرائی کےنتیجہ میںامریکی مسلمانوںاور امریکہ میںاسلام کےمستقبل کےبارےمیںفاتحہ پڑھ کر بیٹھ جانا ایک دانش مندانہ اور ذمہ دارانہ طرزعمل کہا جا سکتا ہے۔
ہم یہ سمجھتےہیں کہ ۱۱ ستمبر کےاصل محرک امریکہ میںneo-con کےفلسفہ کےعلمبردار ہوںیا ایسےغیر دانش مند مسلمان جنہیںان جارحیت اور روایت پرست امریکی اداروںنےاستعمال کیا ہو،اس واقعہ نےیہ ثابت کر دیا ہےکہ ۱۱ ستمبر کےبعد امریکہ میںمقیم مسلمانوںکا وجود ان عناصر کےلیےپریشانی اور فکر کا باعث بنتا جا رہا ہے۔ ۱۱ ستمبر کےبہانےسےان امریکی قدامت پسندوں کو عالمی دہشت گردی کو ختم کرنےکےبہانےسےافغانستان اور عراق پر قبضہ کرنےمیںبظاہر آسانی ہو گئی اس کےساتھ ساتھ خود امریکہ میںجمہوری روایات کی جگہ ’قومی تحفظ‘‘ کےنام پر امریکی شہریوںکو خوف زدہ کرنے،تشدد کا نشانہ بنانےاور بلاکسی جمہوری قانونی کار روائی کےان کی گرفتاری اور ان کےاثاثوںکو قبضہ میںکرنےکا جواز بھی مل گیا۔ گویا ۱۱ ستمبر کا واقعہ نہ صرف مسلمانوںبلکہ تمام جمہوریت پسند امریکیوںاور خصوصاً حکومت سےصحت مند اختلاف کرنےوالوںکےلیےایک دورِ آزمائش کےآغاز کےاعلان کی حیثیت رکھتا ہے۔
امریکہ میںمقیم بہت سےمسلمان جو امریکی معاشرہ کےبظاہر کھلےاور دوستانہ ماحول کو حقیقت واقعہ سمجھتےتھے،۱۱ ستمبر کےبعد شدید ذہنی صدمہ سےدوچار ہوئےہیں۔ ان کی تصوارتی جنت ریت کےقلعےکی طرح ان کی آنکھوںکےسامنےڈھےگئی ہےاور بعض پر اس حد تک ردعمل ہوا ہےکہ وہ امریکہ کو خیرباد کہہ کر اپنےآبائی وطن واپسی کےلیےکمرکس رہےہیں۔ گو ان کا ایسا کرنا ۱۱ ستمبر کی منصوبہ بندی کرنےوالوںکی توقعات کےعین مطابق ہےیہ سوال جواب طلب رہتا ہےکہ کیا ان کےامریکہ چھوڑدینےسےاسلام دشمنی یا مسلمانوںسےمنافرت ختم ہو جائےگی؟
گو امریکی حکومت اور خاص طور پر ۱۱ ستمبر کا منصوبہ بنانےوالےادارےاس بات کو تسلیم نہ کریںلیکن یہ حقیقت ہےکہ اس ایک سانحہ کےنتیجےمیںاسلام دشمن قوتوںکو جو فوائد حاصل ہوئےہیںوہ اٹھارہویںاور انیسویںصدی میںمغربی استعمار کو حاصل ہونےوالےمجموعی فوائد سےکسی طرح کم نہیںکہےجا سکتے۔ امریکہ میںقدامت پسند (neo-con) گروہ کی بالادستی،مشرق وسطیٰ میںتیل کےذخائر پر قبضہ،وسط ایشیا میںاثر و نفوذ قائم کرنےکےلیےافغانستان کی شکل میںایک اچھی کمین گاہ کا حصول اور نہ صرف مسلم ممالک بلکہ دیگر ترقی پذیر ممالک میںامریکہ کےحسبِ منشاء تبدیلیٔ اقتدار کا اختیار ۔۔۔ یہ محض چند ظاہری فوائد ہیںجن کےڈانڈے۱۱ ستمبر  سےجا کر ملتےہیں۔
فی الوقت ہمارا موضوع ۱۱ ستمبر نہیںبلکہ اس کےنتیجہ میںامریکی مسلمانوںکا حال اور مستقبل ہے،اس لیےہم بات کو اسی حد تک رکھتےہوئےصرف مسلمانوںکی اس نفسیات کی طرف اشارہ کریںگےجس نےان میںسےبہت سوںکو اپنےآبائی ممالک واپس جانےکےبارےمیںغور کرنےیا عملاً منتقل ہونےپر مجبور کیا اور جو ہماری نگاہ میںامریکی مسلمانوںکےمفاد کےمنافی ہے۔ امریکہ میںمسلمانوںکےآ کر مقیم ہونےکےاسباب جو بھی ہوں،حصول تعلیم و ملازمت کےبعد ان کا وہاںمستقلاً رک جانا ہو یا پیشہ ور اور اہل فن ہونےکی بنا پر ان کا امریکی معاشرہ اور نظام کو اپنی خدمات فراہم کرنا،معاشرتی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر مہاجرت ہو یا اور دیگر اسباب۔۔۔ حقیقت یہ ہےکہ آبادی کا دو سےڈھائی فیصد ہونےکےباوجود امریکی مسلمان آج امریکہ میںایک سیاسی قوت کی حیثیت رکھتےہیں۔ چنانچہ صدر بش کےانتخاب میںفلوریڈا اور دیگر مقامات میںمقیم مسلمانوںکا و وٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتا تھا۔ اور یہ مستقبل میںاس سےزیادہ وزن اختیار کرجائےگا۔
مسلمان و وٹروںکی تعداد میںجس تیزی سےاضافہ ہو رہا ہےوہ شکل نہ وہاںکی یہودی آبادی میںپائی جاتی ہےنہ عیسائی آبادی میں۔ ہاںاسپینی نژاد امریکیوںمیںاس قسم کا رجحان نظر آتا ہےاور وہ مستقبل میںمسلمانوںکی طرح ایک فیصلہ کن و وٹ بننےکی پوری صلاحیت رکھتےہیں۔ گویا سیاسی نقطۂ نظر سےمسلمانوںکا امریکہ چھوڑکر جانا ان قوتوںکےلیےبہت خوشی کا باعث ہو گا اور پیچھےرہ جانےوالےمسلمانوںکےو وٹ کو کمزور بنا دےگا۔
ایسےہی اگر دیکھا جائےتو تعلیم کےلحاظ سےمسلمان اس وقت امریکہ میںنمایاںمقام رکھتےہیںان کی اولاد غیر مسلم امریکیوںسےہر لحاظ سےافضل کہی جا سکتی ہے۔ وہ مقابلتاً زیادہ محنتی اور منظم (disciplined) نظر آتےہیں،جبکہ غیر امریکی طلباء میںیہ رجحان نظر نہیںآتا۔ اس لیےوہاںپر پیدا ہونےوالےاور تعلیم پانےوالےمسلمانوںکا مستقبل میںبطور elite اہم کردار ادا کرنا زیادہ قرینِ قیاس ہے۔
دوسرا اہم نکتہ جو مسلمانوںکی حالیہ صورت سےمتعلق ہےوہ اسلامی مراکز و مساجد سےتعلق رکھتا ہے۔ ۱۱ ستمبر کےبعد سےان اداروںکی امریکی انتظامیہ کی طرف سےنگرانی اور جاسوسی کی جا رہی ہےاور ان کی سرگرمیوںپر نظر رکھتےہوئےاور انہیںمشتبہ سمجھتےہوئےدہشت گردی کےمراکز تصور کر لیا گیا ہے۔ ہم سمجھتےہیںکہ ان کا یہ قیاس بالکل بےبنیاد ہےاور ہزاروںمساجد و مراکز میںسےکسی ایک کےبارےمیںبھی وثوق سےیہ نہیںکہا جا سکتا کہ وہ کسی دہشت گردی میںملوث ہیں۔ ہم سمجھتےہیںکہ اس غلط فہمی کےذمہ دار یہ ادارےخود ہیں۔ ایک عرصہ سےمیدان میںہونےکےباوجود انہوںنےاپنا تعمیری اور مثبت کردار دوسروںپر واضح نہیںکیا۔ جبکہ مسجد اور اسلامی مراکز ایسےادارےہیںکہ اگر یہ مسلمانوںکی صحیح تصویر کشی کرتےتو مسلمانوںاور ان اداروںپر آج جو بہتان لگائےجا رہےہیںامریکی عوام ان کی حقیقت سےآگاہ ہوتےاور ان الزامات کو خود رد کر دیتے۔
مسلمانوںکےحالیہ مسائل میںسےبعض کا تعلق ۱۱ ستمبر سےنہیںبلکہ مسلمانوںکی عام نفسیات سےہے۔ مسلمانوںنےعموماً امریکہ میںاپنےقیام کو عارضی سمجھا اور وہ مسلمان بھی جو اپنےآبائی وطن سےبظاہر کشتیاںجلا کر امریکہ آئے،امریکہ کی پُرآسائش زندگی کی حد تک امریکہ سےوابستہ رہےلیکن مشکلات اور آزمائش کےلیےذہناً کبھی تیار نہ تھے۔ چنانچہ مشکلات پیش آنےپر بادل ناخواستہ اپنےآبائی وطن واپس جانےپر آمادہ ہو گئے۔ ہم سمجھتےہیںکہ اسلام نہ کسی خطےتک محدود ہےنہ وہ کسی جغرافیائی حدود سےوابستہ ہے۔ اس لیےجو مسلمان امریکہ جا کر آباد ہوئے،وجہ کچھ بھی ہو،ان کا فرض تھا کہ وہ ان اداروںکےقیام کی کوشش کرتےجو انہیںمعاشرہ میںمضبوط جڑیںفراہم کر سکتے۔ ان میںاولین اہمیت تعلیمی اداروںکی ہےاور پھر معاشرتی ادارےخصوصاً خاندان کا ادارہ۔ بلاشبہ گزشتہ دو دہائیوںمیںامریکی مسلمان اس جانب متوجہ ہوئےہیںلیکن اتنی تاخیر سےجب اچھا خاصا پانی پل کےنیچےسےبہہ چکا تھا۔
اس کےدو نتائج بہت واضح ہوئے۔ پہلا ذہنی طور پر ایک مہمان یا مسافر کی سی نفسیات کا پیدا ہونا کہ اگر مسائل و مشکلات کا سامنا ہو جائےتو سمندر پار گھر تو موجود ہےوہاںامن و سکون سےجا کر باقی زندگی گزار لی جائےگی اور دوسرا یہ کہ تربیت اولاد کےحوالےسےتعلیمی اور معاشرتی اداروںکی عدم موجودگی یا ناقص ہونےکےسبب آج بہت سےمسلمان گھرانوںکو انہی مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہےجن کےدیگر امریکی شکار ہیں،یعنی ۱۳ سال سے۱۹ سال کی عمر کےبچوںکےنفسیاتی اور نفسی مسائل۔ ایسےہی مسلم روایت کےبرعکس طلاق کا بڑھنا اور بعض اوقات لڑکیوںکا غیر مسلم امریکیوںکےساتھ رشتہ ازدواج میںمنسلک ہونا۔ یہ مسائل اس بات کا پتہ دیتےہیںکہ گو مسلم کمیونٹی تعداد کی کثرت اور سیاسی و وٹ کی بنا پر اہمیت اختیار کر گئی ہےاس کی نظریاتی اور ثقافتی بنیادیںابھی تک مستحکم نہیںہو سکی ہیں۔ کیا یہ بنیادیںاسلامی ریاست کےقیام کی محتاج ہیں؟
کیا امریکی مسلمانوںکو بھی مسلم ممالک کےباشندوںکی طرح امریکہ میںاسلامی نظام کےقیام کےلیےجدوجہد کرنی چاہیےتاکہ وہ اپنی معاشرت و ثقافت پر عمل کر سکیں؟ یا وہ مروجہ نظام میںرہتےہوئےاپنی ثقافت اور عقیدہ کےتحفظ کو ہی اپنی توجہ کا مرکز بنائیں؟ اس سوال کا تعلق امریکی مسلمانوںکےحال اور مستقبل دونوںکےساتھ ہے۔ کھلےذہن اور واضح تصور کےبغیر یہ سوال ہر قدم پر ان کےلیےپراگندگی کا باعث بن سکتا ہےاور غالباً بن رہا ہے۔ لیکن اس پر غور کرنےسےقبل یہ بات بھی ہمارےذہن میںواضح ہونی چاہیےکہ کیا قرآن و سنت کی تعلیمات صرف ایسےمقامات پر رائج کرنےکےلیےآئی ہیںجہاںپہلےسےمسلمان اکثریت میںہوںاور انہیںایک خطہ زمین ایسا مل گیا ہو جس پر وہ اسلامی نظامِ اخلاق،سیاست و معیشت کو نافذ کر سکیںیا اسلام ان مقامات سےبھی مناسبت (relevence) رکھتا ہےجہاںصرف ایک مسلمان ہی ہو اور غالب اکثریت غیر مسلموںکی ہو۔
کیا ایک مثالی اسلامی ریاست کےقیام کےبغیر مسلمان اپنےعقیدہ پر عمل نہیںکر سکتے؟ اور کیا اسلامی ریاست بجائےخود ان کےمسلمان ہونےکےلیےpre-requisit ہےیا ایک اجتماعی ہدف ہے۔ کیا اسلامی ریاست اور معاشرتی اصلاح یا ایک صالح معاشرہ کےقیام کی جدوجہد میںکوئی ٹکراؤ ہےیا جب تک ریاست کا قیام ممکن نہ ہو،اس کےقیام کےواضح ہدف کو سامنےرکھتےہوئے،اسلامی اصولوںپر مبنی خاندان اور معاشرت اس ہدف کےحصول کےلیےراستہ ہموار کرنےکےبہترین ذریعےنہیںہیں؟
ہم سمجھتےہیںکہ امریکی مسلمانوںکو سب سےزیادہ جس چیز کی فکر ہونی چاہیےوہ ان کا بطور ایک اقلیتی گروہ کےمحض اپنی روایات کا تحفظ نہیںبلکہ اسلام اور مسلمانوںکی صحیح معنوںمیںنمائندگی اور امریکہ میںتعمیری اور صحت مند تصورات کو بلاتفریق رنگ و نسل و مذہب امریکی شہریوںتک پہنچانا ہونا چاہیے۔ گویا دوسروںتک پہنچ کر اور امریکی معاشرہ کےمسائل سےپوری آگاہی کےساتھ اس کےتعمیری حل پیش کرنا۔ یہ فکری اور عملی تعامل (interaction) ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کا مطالبہ کرتا ہے۔
جہاںتک سوال ایک غیر مسلم نظام میںرہنےاور اسلام کی آفاقی اور عالمگیر اقدار حیات پر عمل کرنےکا ہے،ہم سمجھتےہیںکہ دنیا میںجہاںکہیںتنہا ایک مسلمان بھی ہو اس کا فرض ہےکہ اپنےدائرہ کار میںوہ جتنی استطاعت رکھتا ہو اس حد تک نہ صرف خود اسلامی تعلیمات پر عامل ہو بلکہ اپنےماحول کو بھی ان کےتابع بنانےکےلیےجدوجہد کرے۔ اس لیےامریکی مسلمانوںکا وقتی مخالفت،منافرت یا جارحیت سےگھبرا کر میدان دعوت کو چھوڑدینا حکمت کےمنافی ہے۔ ہاںبدلےہوئےحالات میںدعوت کےاسلوب اور ترجیحات پر لازمی طور پر نظرثانی کرنی ہو گی اور اس کا فیصلہ وہی حضرات کریںگےجو مخصوص حالات میںکسی ملک میںرہتےہوں۔
یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیںکہ امریکی استعمار بھی سابقہ سو ویت یونین کی طرح شکست و ریخت کےاس مرحلہ میںداخل ہو چکا ہےجب نظام کی تبدیلی ایک فطری تقاضا بن جاتی ہے۔ امریکی مسلمانوںکو امریکہ کی بہتری اور وہاںپر ایک اچھےاخلاقی معاشرہ کےقیام کےلیےسسٹم میںرہتےہوئےاس کی اصلاح کرنی ہو گی۔ یہ خیال کہ تبدیلی باہر سےلائی جا سکتی ہےفکری پراگندگی کی علامت ہے۔ اس لیےمسلمانوںکو مروجہ اداروںمیںشمولیت اختیار کر کےاندر سےان کی اصلاح کی کوشش کرنی ہو گی۔ اگر اس کوشش میںخلوص نیت ہےاور مطلوب محض ایک مذہبی اقلیت کا مفاد نہیںہےبلکہ مجموعی آبادی کی فلاح مقصود ہےتو مسلمانوںکو معاشرتی سیاسی اور ثقافتی سطح پر غیر مسلمانوںکا اعتماد حاصل کرتےہوئےاسلام کےآفاقی اور عالمگیر اخلاقی اصولوںکو عام انسانوںکی فلاح و نجات کےحوالےسےپیش کرنا ہو گا۔ قرآن کریم نےبار ہا اس طرف متوجہ کیا ہےکہ وہ تمام انسانوںکےلیےاخلاقی ضابطہ ہےوہ کسی گروہ،نسل یا خطےتک محدود نہیںہے۔ امریکی مسلمانوںکو اسلام کےخاندانی نظام،اخلاقی تعلیمات اور معاشی و معاشرتی مسائل سےمتعلق ہدایات کو امریکی معاشرہ سےبرائیوںکو مٹانےاور اچھائیوںکےفروغ کےلیےبطور متبادل حل کےاپنےعمل اور گفتگو سےواضح کرنا ہو گا۔
امریکی مسلمان جو بڑی حد تک اپنی عبادات کا اہتمام کر لینےاور بچوںکو ویک اینڈ سکول میںہفتہ میںایک دن چند قرآنی سورتیںاور دعائیںیاد کرا کےکاروبار حیات میںمگن ہو جانےکےعادی رہےہیںاب انہیںاپنےہر عمل کو دیگر افراد کےسامنےیوںرکھنا ہو گا کہ دیکھنےوالےمحض ان کےبارےمیںنہیںبلکہ اسلام کےبارےمیںمثبت تاثر لےکر اٹھیں۔
اس باہمت عمل کو استقامت کےساتھ نتائج سےلاپرواہ ہو کر کیا گیا تو جلد غیر مسلموںکےاسلام اور مسلمانوںکےبارےمیںتعصب،گمراہی بلکہ ناپسندیدگی میںکمی واقع ہو گی اور مسلمانوںکو دوبارہ اندرونی اعتماد حاصل ہو سکےگا۔ اندرونی یقین اور باہمی اعتماد کےبغیر کوئی معاشرہ صحت مند طورپر کام نہیںکر سکتا۔ اس لیےمعاشرتی فلاح کےساتھ ساتھ خود اپنےوجود کی بقا کےلیےمسلمانوںکو اسلام کےصحیح تعارف،انفرادی طور پر خود اور اپنےخاندان اور معاشرہ میںاسلامی اخلاقی اقدار کےرواج کےلیےایک حکمت عملی آج وضع کرنی ہو گی تاکہ کل جب وہ سیاسی حیثیت سےایک فیصلہ کن عددی مقام رکھتےہوںتو ان کےنظریاتی اثرات کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ یہ حکمت عملی تعلیمی اور معاشرتی میدانوںمیںوضع کرنی ہو گی کیونکہ ایک لادینی سرمایہ دارانہ نظام میںتبدیلی کا مؤثر راستہ یہی ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے