وفاقی بجٹ ۱۳۔۲۰۱۲ء : ایک جائزہ

وفاقی بجٹ ۱۳۔۲۰۱۲ء : ایک جائزہ

غیر رسمی معیشت اور جذبہ خدمت

ریاست کی ذمہ داری اور کردار سے قطع نظر پاکستانی معاشرے کے دو پہلو بہت اہم ہیں۔ پہلا غیر رسمی معیشت اور دوسرا ۔ غریب اور مستحق افراد کی امداد کے حوالے سے پاکستانیوں کا رضاکارانہ جذبہ
غیر رسمی معیشت: غیر رسمی معیشت کا حجم جاننے کے لیے کئی مطالعے کیے گئے لیکن نتائج مختلف ہیں۔ ایک انداز ے کے مطابق غیر رسمی معیشت دستاویزی معیشت کا ایک چوتھائی سے لے کر تین چوتھائی ہے یعنی تقریباً 5000ارب روپے سے 15000ارب روپے تک ۔ حجم سے قطع نظر، حقیقت یہ ہے کہ غیر رسمی معیشت لوگوں کو معاشی سرگرمی، روزگار کے مواقع اور آمدن فراہم کررہی ہے اور یہ معیشت کے لیے Value Additionکا باعث بھی ہے۔
موجودہ معاشی نظام اس غیر رسمی شعبے کی پیداواری صلاحیت اور معاشی سرگرمی میں اس کی اہمیت سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھارہا اور شاید یہ نظام خود بھی کئی خرابیوں کا شکار ہے جس میں استحصال اور ٹیکس چوری شامل ہیں۔ تاہم اس کے بغیر حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اس کے غیر رسمی کردار کو کم کیا جائے اور اِس کا حجم جاننے کے لیے ملکی سطح پر سروے کیے جائیں تاکہ اس معیشت کو بھی دستاویزی معیشت کا حصہ بنایا جاسکے۔ بہر حال یہ مسئلہ صرف پاکستان کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی پایا جاتا ہے۔
جذبۂ خدمت: پاکستان شاید دنیا کے اُن ممالک میں سے ایک ہے جہاں سخاوت اور خدمت کا جذبہ ہر سطح پر بے پناہ پایا جاتاہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی باقاعدہ ہونے اور اس کے بے پناہ فوائد کے ساتھ ساتھ ، تمام مذاہب اور عقائد سے منسلک لوگ اپنی آمدنی کا ایک حصہ غریب ونادار لوگوں کی مدد، بھوک، افلاس، بیماری اور دوسری سماجی برائیوں کے خاتمے کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ اس طرح سے معاشرہ مشترکہ طور پر ریاست کی ذمہ داری ادا کرتا ہے۔ حکومتی سطح پر ایسے عناصر کو سراہنے کے ساتھ ساتھ مناسب اقدامات کے ذریعے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے