اسلام اور مسلمان امریکی فکر کےتناظر میں

اسلام اور مسلمان امریکی فکر کےتناظر میں

امریکہ کو یورپی اقوام کےمقابلہ میںیہ امتیاز حاصل ہےکہ اس نےاستعماری دور میںمسلم علاقوںپر نہ براہ راست قبضہ کیا اور نہ ان خطوںپر سیاسی حاکمیت قائم کی۔ شاید ایک نوزائیدہ مملکت اور قوم ہونےکی بنا پر،جو یورپی اقوام کی بالادستی سےآزادی حاصل کر کےوجود میں آئی تھی، امریکہ کو خود اپنےوجود کو مستحکم کرنےاور اپنی ایک شخصیت بنانےکےعمل نےتقریباً دو سو سال تک اتنا مصروف رکھا کہ ایشیائی اور افریقی ممالک پر تسلط اور قبضہ کی طرف توجہ نہ دےسکا۔
لیکن بیسویںصدی میںاس وقت کی دو اہم سیاسی قوتیںسابق سو ویت یونین اور امریکہ سرد جنگ کےدوران ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دیگر ممالک کو اپنےزیر اثر رکھنےاور حلیف بنانےاور اس طرح اپنی برتری قائم کرنےکےحوالےسےایک دوڑمیںمبتلا رہیں۔ اس دوڑکا خاتمہ عملاً دیوارِ برلن کےانہدام اور اس کےبعد افغانستان میںسو ویت یونین کی شکست کی شکل میںہوا اور امریکہ بزعم خود یک قطبی قوت کی حیثیت سےتاریخ کےایک نئےدور کےآغاز کےدعوےکےساتھ ابھرا۔ اس نئےدور کےآغاز کا اعلان عالمگیریت (Globalization)،معلوماتی ٹیکنالوجی کےانقلاب (I.T. Revolution) اور نئےمعاشی نظام (N.W.O) کےنعروںسےکیا گیا۔ ان نعروںکےذریعہ جو پیغام دیا گیا وہ مختصراً یہ تھا کہ اشتراکی مداری اپنا تماشا دکھا کر چلا گیا اب نیا بازیگر اپنی ہنرمندی دکھائےگا۔ اور چونکہ اب صرف وہ ہی میدان میںرہ گیا ہےاس لیےاب ترقی پذیر ممالک کےلیےبغیر کسی امکانِ انتخاب کےصرف ایک راستہ ہےکہ وہ نئےنظام کو خوشی اور رضامندی کےساتھ قبول کر لیں۔
دورِ استعمار کا دم ٹوٹتےٹوٹتےجو مسائل عالمی حیثیت اختیار کر گئےان میںفلسطین اور کشمیر سب سےزیادہ اہمیت رکھتےہیں۔ مسلمانوںاور اسلام کےبارےمیںمغرب اور خصوصاً امریکہ کےتصور کی تعمیر میںان دونوںمسائل کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ایرانی انقلاب سےبہت پہلےفلسطین کی تحریک آزادی کو اسرائیلی دہشت گردی،قتل و غارت اور ظلم و جبر کو نظر انداز کرتےہوئےمغربی ذرائع ابلاغ میںہمیشہ نسلی،تخریبی اور غیر انسانی رویہ کےطور پر پیش کیا گیا،جس کا واضح ترین اظہار کنساس میںہونےوالےدھماکہ کےردعمل کی شکل میںہوا۔ گو یہ تخریبی کار روائی ایک خالص امریکی کےہاتھوںہوئی لیکن ملزم کی گرفتاری سےقبل اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ نےواضح طور پر اس کی ذمہ داری ’’مسلم دہشت پرستوں‘‘ پر رکھنی چاہی۔
نہ صرف یہ بلکہ الجزائر ہو یا افغانستان جب بھی کسی اسلامی گروہ کا تذکرہ آیا اس کےساتھ ’’بنیاد پرستی‘‘،’’شدت پسندی‘‘،’’انتہا پسندی‘‘ اور مذہبی اشتعال انگیزی‘‘ یا اس کےہم معنی الفاظ استعمال کر کےیہ تأثر پیدا کیا گیا کہ اگر ہر دوسرا نہیںتو کم از کم ہر چوتھا مسلمان غیر مسلموںاور ان کی تہذیب اور تاریخ سےنفرت رکھتا ہےاور انہیںصفحہ ہستی سےمٹانےکےدرپےہے۔ مسلمانوںہی کےحوالےسےنہیںکسی بھی قوم کےحوالےسےاگر یہ تصور قائم کر لیا جائےتو نفسیاتی طور پر اس کےساتھ تعلقات میںخلیج کا واقع ہونا ایک فطری عمل ہے۔
ابلاغ عامہ (جس کا غالب عنصر یہودی اور صیہونی لابی کا حصہ ہے) نےاور خود اسرائیلی ذرائع ابلاغ نےمسلمانوںکی جو تصویر کشی کی،مسلم ممالک اور مسلمانوںکےحوالےسےامریکی خارجہ پالیسی کےاتار چڑھاؤ میںاس کا بنیادی حصہ ہے۔ پھر چونکہ مسلمانوںکےحوالےسےیہ بات اتنی فنکاری اور اتنی باقاعدگی سےکی گئی کہ اسےتمام مسلمانوںکےحوالےسےبطور ایمان کےتسلیم کر لیا گیا۔ جان اسپوزیٹو کےمقالےمیں(جس کا ترجمہ زیر نظر شمارےمیںشامل ہے) ایک امریکی محقق کےنقطہ نظر سےاس مسئلہ کا جائزہ لیتےہوئےجو بات کہی گئی ہےوہ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ان کا خیال ہےکہ ممکن ہےبعض مسلمان ویسےہی ہوںجیسا ان کی تصویر پیش کی گئی ہےلیکن یہ بات امریکہ کےاپنےمفاد کےمنافی ہےکہ وہ چند مسلمانوںکےطرز عمل کی بنیاد پر تمام مسلم ممالک اور سب مسلمانوںکےحوالےسےاپنی حکمت عملی اور خارجہ پالیسی کو محض ایک محدود تعداد کی بنیاد پر طےکر لے۔
ہر مسلمان ملک اپنےسیاسی،معاشی،اور بین الاقوامی تعلقات کےلحاظ سےانفرادیت رکھتا ہےاور اس انفرادیت کو نظر انداز کرتےہوئےتمام مسلمانوںکو ایک خیالی ’’تشدد پسند اکائی‘‘ تصور کرتےہوئےخارجہ پالیسی وضع کر لینا انتہائی غیر دانشمندانہ اقدام ہو گا۔ لیکن اب اسےکیا کہا جائےکہ عملاً امریکہ مسلمانوںکو ایک ہی لاٹھی سےہانکتا رہا ہے۔ اسپوزیٹو کا کہنا ہےکہ اب اس میںفوری تبدیلی کی ضرورت ہے۔ جدید امریکی مستشرقین جان اسپوزیٹو،جان وال،تمارا سون جس طرزِ فکر کی نمائندگی کرتےہیںاس میںبظاہر سنجیدگی کےساتھ اسلام اور مغرب میںٹکراؤ کی جگہ افہام و تفہیم کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ مغرب نےجس پتّہ ماری کےساتھ اسلام اور مسلمانوںکےمختلف پہلوؤںکا تحقیقی مطالعہ کرنےکےلیےاپنےملک کےپالیسی ساز اداروںکو مطلوبہ معلومات فراہم کی ہیںکیا ہم نےمغربی تہذیب اور فکر کا اسی سنجیدگی کےساتھ مطالعہ کرنےکےبعد اس پر منطقی نقد بالخصوص اسلام اور مسلمانوںکےبارےمیںشکوک و شبہات کا ازالہ معذرت کےبغیر کیا ہے؟ کیا اقبال اور مودودی کو چھوڑتےہوئےدور جدید میںہم کسی تیسرےشخص کا نام اس حوالےسےلےسکتےہیں؟ بلا شبہ علی شریعتی،یوسف القرضاوی،محمد خطیب اور سید قطب نےبعض پہلوؤںپر فکری رہنمائی فراہم کی ہےلیکن ان مفکرین کی تحریرات میںبھی کیا مغربی فکر کی بنیادوں،اس کےثمرات اور اس کےعروج و زوال کا جامع انداز میںتجزیہ کر کےاسلام کےاعلیٰ اصولوںکا تقابل پایا جاتا ہے!
آج جب ہم مغرب کو ایک علمی تہذیبی مکالمےکی دعوت دےرہےہیں۔ اسلام کی فکری اور علمی بنیادوںکےساتھ مغربی تہذیب کی روح اور اس کی تاریخ سےمکمل واقفیت ضروری ہےیہ کام وہی ذہن کر سکتےہیںجو نہ مغرب سےمتاثر و مغلوب ہوںاور نہ اپنےمسلک و مذہب کےاندھےمقلد ہوں۔ اس کام کےلیےذہنی وسعت کےساتھ ساتھ اسلام کےمصادر سےبراہ راست واقفیت اور غیر مناظرانہ اور غیر معذرت پسندانہ طرز عمل کی ضرورت ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے