قبل از مقدمہ گرفتاری: ازالہ کی صورتیں

pretrialt

قبل از مقدمہ گرفتاری: ازالہ کی صورتیں

قبل از مقدمہ گرفتاری

 قبل از مقدمہ گرفتاری معاصر دنیا میں کسی بھی نظام انصاف میں اہم سوالات اٹھاتی نظر آتی ہے۔ دنیا بھر میں ملزمان کی کافی تعداد قبل از مقدمہ حراست کے مرحلے سے گزرتی ہے۔ پاکستان میں کچھ رپورٹس کے مطابق قیدیوں کی غالب اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہے جو اپنے مقدمے کی سماعت کے نتیجہ خیز ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔

یہ موضوع انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں 2 جولائی 2015ء کو ایک علمی نشست میں زیر بحث تھا۔ موضوع کا عنوان تھا: ’’ملزم کی قبل از مقدمہ حراست اور اسلامی اور پاکستانی قانون کے تحت اس کی تلافی‘‘۔ اجلاس کی صدارت ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمن نے کی اور اس میں آئی پی ایس کی ریسرچ ٹیم کے علاوہ چند منتخب قانونی ماہرین بھی شریک تھے جبکہ آئی پی ایس کے ریسرچ کوآرڈی نیٹر توقیر حسین نے اس موضوع پر ایک پریزنٹیشن دی۔

توقیر حسین کا یہ علمی کام ان کی اس موضوع پر جاری تحقیق کا حصہ تھا۔ انہوں نے اس ساری صورت حال کو انسانی حقوق کے پس منظر میں پرکھا اور اس بات پر زور دیا کہ مقدمے کے اختتام پر جو شخص مجرم ثابت نہ ہو اسے قبل از مقدمہ حراست اور جس تکلیف دہ صورت حال اور کرب سے وہ اور اس کا خاندان گزرا ہوتا ہے اس کا ازالہ زرتلافی کی صورت میں کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ ممالک میں اس کی ضرورت کا احساس پایا جاتا ہے جب کہ کئی دیگر ممالک میں اس پر عمل درآمد ارتقائی مراحل میں ہے۔

انہوں نے دنیا کے ابھرتے ہوئے منظرنامے کا پاکستان کی موجودہ صورت حال سے موازنہ کیا جہاں قبل از مقدمہ قیدیوں کے کئی حقوق اور تحفظات کو یقینی بنائے جانے کے باوجود ملک کے قانون میں معصوم قیدیوں کے لیے ازالے کے کسی بھی طریقۂ کار کا فقدان ہے۔ توقیر نے وضاحت کی کہ ملک میں ازالے کے قوانین سزا یافتہ افراد کے لیے تو موجود ہیں جن کی قبل از مقدمہ حراستی مدت کو ان کی کل سزا دی گئی مدت میں سے منہا کر دیا جاتا ہے لیکن معصوم اور غیر سزا یافتہ افراد کے لیے کسی قسم کی دادرسی اور تلافی موجود نہیں ہے۔مقرر نے موضوع پر اسلامی نقطۂ نظر بھی بیان کیا اور اس بات پر زور دیا کہ اسلامی قوانین میں بھی معصوم اور بے گناہ افراد کے ساتھ روا ہونے والے اس سلوک کے ازالہ پر توجہ مبذول کی گئی ہے۔

توقیر کے پیش کردہ نکات پر بعد ازاں ایک بصیرت افروز گفتگو ہوئی جس میں ارکانِ مجلس نے زور دیتے ہوئے کہا کہ انصاف کے نظام میں موجود مختلف کرداروں اور تمام فریقین کے درمیان احتساب کے پہلو سے ہم آہنگی کی ضرورت ہے تاکہ مؤثر قانونی عمل اور انصاف کی فراہمی کا پرتاثیر نظام یقینی بنایا جا سکے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے