توانائی میں خود کفیل پاکستان : مستقل حل اور مستقبل کا لائحہ عمل

titleengr

توانائی میں خود کفیل پاکستان : مستقل حل اور مستقبل کا لائحہ عمل

 

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے توانائی پروگرام کے زیرِ اہتمام ایک روزہ توانائی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس کا موضوع تھا: ’’توانائی میں خود کفیل پاکستان: مستقل حل اور مستقبل کا لائحہ عمل‘‘۔ اس کانفرنس کا مقصد ایک وسیع البنیاد پالیسی کی تشکیل اور تکنیکی اور قانونی پہلو کا خصوصی جائزہ لینا تھا، اور یوں ملک کو درپیش شدید توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے لائحہ عمل ترتیب دینا تھا۔
اس کانفرنس سے وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کیا۔ دیگر مقررین میں آئی پی ایس توانائی پروگرام کے چیئرمین اور سابق سیکرٹری پانی و بجلی مرزا حامد حسن، سابق سیکرٹری برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹر گل فراز احمد، آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن، کمپی ٹیشن کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر جوزف ولسن، انرکان کے مینیجنگ ڈائریکٹر عارف علاء الدین، چیف میکرو اکنامکس منصوبہ بندی کمیشن ظفر الحسن الماس، سینئر انرجی کنسلٹنٹ صلاح الدین رفاعی، پنجاب پاور ڈویلپمنٹ بورڈ کے ڈائریکٹر سلمان آزاد، اوجی ڈی سی میں ذخیرہ آب انجینئرنگ کے سربراہ ڈاکٹر سعید جدون اور ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگز یکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر وقار احمد شامل تھے۔ کانفرنس میں سامنے آنے والی تجاویز و سفارشات کا ایک خاکہ اختتامی اجلاس میں پیش کیا گیا، کانفرنس کی کارروائی پر مبنی ایک جامع رپورٹ بھی شائع کی جائے گی۔

 

1

سفارشات کا خلاصہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے.
سفارش کی گئی ہے کہ منصوبہ بندی کمیشن کو نیپرا، اوگرا، وزارت پانی و بجلی، پیٹرولیم، اور دیگر متعلقہ اداروں اور طبقات جیسے وزارت خزانہ، بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے اداروں اور صنعت کے شعبوں کی مشاورت کے ساتھ ایک  مربوط اورجامع توانائی پالیسی تیار کرنی چاہیے۔ تمام متعلقہ طبقات کے خیالات اور آراء کو مربوط شکل دینے کے لیے ایک ورک شاپ کا انعقاد بھی کیا جاسکتا ہے۔ کابینہ سے منظور ہوجانے کے بعد ایسی تیارکردہ پالیسی کو مشترکہ مفادات کونسل میں غور کے لیے پیش کیا جاسکتا ہے۔ تاکہ ملک کو موجودہ توانائی بحران سے نکالنے کے لیے ایک قومی توانائی منصوبہ کے تحت پیش رفت کی جاسکے۔
پالیسی تشکیل پانے کے بعد اگلے مرحلے کی جانب بڑھنے کے لیے مشترکہ مفادات کونسل سیکرٹریٹ کو ایک رابطہ کار کی حیثیت دی جانی چاہیے تاکہ اس کلیدی شعبے کے مسائل  کے حل سے متعلق جو فیصلے کیے جائیں ان پر عملدرآمد اور نگرانی کے عمل کو ممکن بنایا جاسکے، جب کہ آئین میں کی گئی اٹھارویں ترمیم کے تحت بھی اس علاحدہ سیکریٹریٹ کا قیام ضروری  ہے۔ پلاننگ کمیشن کی طرف سے قومی توانائی منصوبے کا متواتر جائزہ، اس پر عملد ر آمد اور اس میں کی جانے والی تبدیلیوں کی رپورٹس پر اصلاحی اقدامات کے لیے اسے مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کیا جانا چاہیے۔

 

 

3 5 6 8

فیصلہ سازی کے لیے ایک ادارے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے زیرِعمل لائی جانے والی پالیسی کو منضبط کیا جائے۔ موجودہ وزارتوں کو وزارت توانائی کے ماتحت رکھ کر بھی یہ مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ طرزِ حکمرانی اورتنفیذ بذاتِ خود کارکردگی کا پیمانہ ہوگی۔ وزارتی عملے کی استعداد کا ر میں اضافہ، روزمرہ اُمور چلانے کے قواعد میں تبدیلی اور وزارت میں متعلقہ جگہوں پر اہل اور ماہر افراد کی تقرری بنیادی تقاضہ ہے۔
نیپرا اور اوگرا دونوں کے کردار کا جائزہ لیا جانا چاہیے اور انہیں توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے ایجنڈے کے مطابق مناسب جگہ دی جانی چاہیے۔ یہ اصلاحات خودمختاری کی مظہر نیز ارکان کی تقرری کے بہتر نظام اور احتساب اور مواخذہ کے لیے ضروری قانونی تبدیلیوں پر مشتمل ہونی چاہییں۔
درمیانی مدت اور طویل مدت کے ایسے  منصوبوں کا انتخاب کیا جائے جن میں مربوط اور جامع توانائی پالیسی کی روشنی میں توانائی کی فراہمی اور توانائی کے انخلاء کے لیے تمام ممکنہ ہنگامی حالات کو پیشِ نظر رکھا گیا ہو۔
ایک مربوط توانائی پالیسی کے لیے اہم نکات

  •    مربوط توانائی پالیسی کے لیے سب سے پہلی اور اہم ترین ضرورت یہ ہونی چاہیے کہ یہ بجلی اور تیل و گیس پالیسیوں کے درمیان ارتباط قائم کرنے کا ذریعہ ہو اور یہ ذیل میں بیان کی گئی تمام چھوٹی پالیسیوں کو باہم جوڑے رکھے۔
  •   بجلی پالیسی 2018-2013ء کا ہر صورت میں ازسرِنو جائزہ ہو یا پھر شعبہ جاتی اصلاحات کی پالیسی کا اعلان ہو تاکہ متعین وقت کے اندر توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی رفتار کو تیز کیاجائے۔ ایک ایسی بجلی پیدا کرنے والی پالیسی سامنے لائی جاسکے جو اپنے مقامی ذرائع کے استعمال اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کو فروغ دینے والی ہو تاکہ مقامی سطح پر تیارکردہ مشینری کے ذریعے مختلف وسائل سے توانائی کی پیداوار بڑھائی جاسکے۔
  •   قابل تجدید توانائی کی پالیسی بالخصوص ایک ایسی پالیسی جو ٹیکس کی شرح کے ذریعے صنعتی شعبہ میں اس کے استعمال کے فروغ کے لیے حالات پیدا کرسکے۔
  •    گردشی قرضے کے حل کی پالیسی میں تمام متعلقہ فریقوں کی مشاورت شامل ہو۔ آئی پی پیز کو حال ہی میں رقوم کی ادائیگی میں متنازعہ ہو جانے والے پہلوؤں سے اجتناب کیا جائے تاکہ گردشی قرضے کے دوبارہ اکٹھا ہوجانے سے بچا جاسکے اور توانائی کی پیداوار کے کمزور پہلوؤں کو ایک طویل مدتی منصوبہ بندی کے ساتھ حل کیا جاسکے۔
  •     بجلی کے شعبے میں پیداوار، تقسیم اور ترسیل کے دوران بجلی کے ضیاع کو بچانے کے لیے کسی منصوبہ پر کام کا آغاز کیا جانا ضروری ہے :
  •    پیداوار۔ بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کا مؤثر استعمال اور ایندھن کے رساؤ کی روک تھام۔
  •     تقسیم۔ ضروری سرمایہ کاری کے ذریعے تقسیم کے نقصانات کو کم کرنا۔ (نیپرا کی منظوری سے توانائی کے ضیا ع کی روک تھام  یعنی ELR  میں ضروری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ 5فیصد بچت سے ایک سال میں 90بلین روپے بچائے جاسکتے ہیں۔)
  •    بجلی چوری کی روک تھام۔
  •     ترسیل ۔ نیپرا کے منظور کردہ پروگرام کی بنیاد پر نجلی کی ترسیل کے نظام میں نقصانات کو کم کیا جانا ۔تقسیم و ترسیل کے نقصانات میں کمی کے لیے کی جانے والی سرمایہ کاری کو محصول کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔
  •   توانائی کی تقسیم کی ذمہ دار کمپنیوں(DISCOs)کی طرف سے وصولی کے لیے سخت طریقہ کار اختیار کیاجائے۔ ریگولیٹ کرنے والے ادارے کی حیثیت سے نیپرا کو ان وصولیوں کی نگرانی کرنی چاہیے اور طریقہ کار کی منظوری دینی چاہیے۔ یہ مشورہ  بھی دیا گیا تھا کہ DISCOsکو ادائیگی کے ضمن میں مالی خود مختاری دی جانی چاہیے۔ ادائیگیوں میں تاخیر پر جرمانوں اور بلند شرح سود سے بچنے کے لیے ادائیگی کے لیے ممکنہ طور پر زیادہ سے زیادہ وقت کی ایک حد مقرر کر دی جائے۔
  •     تیل اور گیس کے شعبے میں مارکیٹنگ کی آزادانہ پالیسی کو مربوط توانائی پالیسی کے ساتھ مطابقت پذیر ہونا چاہیے۔ گیس مختص کرنے کی پالیسی، پیٹرولیم پالیسی پر عملدرآمد، شیل (Shale)گیس پالیسی اور مائع قدرتی گیس (LNG)کی درآمد کا جائزہ انتہائی ضروری ہے۔
  •     توانائی کی بچت کے لیے توانائی بچت پالیسی پر عمل کرنا ہو گا اور ایسے قوانین وضع کرنے ہوں گے جن سے توانائی کی بچت کا یہ مقصد حاصل ہو سکے۔ جیسے صنعتی شعبے میں توانائی آڈٹ کو لازم کرنا یا توانائی میں بچت کی وجہ سے ٹیکس میں چھوٹ دے کر یا دیگر طریقوں سے اس کی حوصلہ افزائی کرنا۔ انرکان کو ٹھوس نتائج دینے والا ادارہ بنانے کی ضرورت ہے۔ توانائی کے مؤثر استعمال کا مقصد حاصل کرنے کے لیے اس کے افسران کی انعام واکرام کے ذریعے حوصلہ افزائی کی جائے۔
  •    توانائی کی معیاری بچت کے لیے مؤثر آلات بہت اہم ہیں چنانچہ پاکستان سٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA)کو اس ضرورت کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ مزید برآں خود مختار آڈٹ کمپنیوں کو رجسٹرڈ کیا جانا چاہیے تاکہ کام کے بوجھ میں شریک ہوسکیں اور کارکردگی کو بہتر بناسکیں۔

یہ تجویز بھی دی گئی کہ پاکستان کی  اعلیٰ عدلیہ کے ریگولیٹری بنچوں کی تشکیل میں ایسے ججوں کو شامل کیا جائے جنہیں توانائی کے شعبے کا ادراک ہو اور انہوں نے ایسے کورس کر رکھے ہوں جن کی مدد سے توانائی کی شعبے کے معاملات کو سمجھا جاسکتا ہے۔عدالتی اکیڈمیاں اور بار ایسوسی ایشنیں بھی توانائی کے شعبے سے متعلق عدالتی  مقدمات کو سننے اور ان کا جائزہ لینے میں اپناکردار ادا کرسکتی ہیں۔

 

 

9 10 11 7

 

ایک سفارش یہ کی گئی کہ بجلی کے شعبے میں سود کی شرح کو ایک مناسب سطح تک کم کیا جائے تاکہ یہ زندہ رہ سکے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے KESCکے لیے اس شرح کو 7.5فی صد تک لےآنا  ایک عمدہ مثال ہے۔
اس بات پر اتفاق رائے پایا گیا کہ نیشنل پاور کنسٹرکشن کارپوریشن (NPCC)کو باریک بینی اور صحت کے ساتھ لوڈ شیڈنگ کے کوٹہ کا حساب کتاب رکھنا چاہیے۔ بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں (DISCOs)کو اس کوٹے پر وی آئی پی کلچر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سختی سے عملدرآمد کرنا چاہیے۔
نوعیت:         کانفرنس رپورٹ
موضوع:        توانائی میں خود کفیل پاکستان: مستقل حل اور مستقبل کا لائحہ عمل
تاریخ:         18ستمبر 2013ء

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے