خاندانی ڈھانچے میں رونما ہونے والی عالمی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بنیادی اقدار کے ساتھ دوبارہ جڑنا ضروری ہے

خاندانی ڈھانچے میں رونما ہونے والی عالمی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بنیادی اقدار کے ساتھ دوبارہ جڑنا ضروری ہے

خاندانی ڈھانچے میں رونما ہونے والی  عالمی تبدیلیوں کا حل زندگی کے اسلامی نمونے کی طرف لوٹنے میں مضمر ہے، جس میں خود شناسی کے ساتھ ساتھ بنیادی اقدار اور سماجی اصولوں کے ساتھ دوبارہ تعلق قائم کرنا شامل ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی، اور جدید طور طریقوں سے تشکیل پانے والے خاندانی منظر نامے کے بدلتے ہوئے ماحول میں خود شناسی، زندگی کے مقصد اور سماجی ضروریات سے متعلق سوالات کا خود جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

یہ بات چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن نے 03 مارچ 2024 کو رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی (آر آئی یو)، اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ‘فیملی سسٹم اور عصری چیلنجز’ کے موضوع پر پانچویں بین الاقوامی کانفرنس آف اسلامک اسٹڈیز 2024 کے دوران گفتگو کرتے ہوِئے کہی۔ اس کانفرنس کا مقصد ابھرتی ہوئی حرکیات اور روایتی خاندانی ڈھانچے کو درپیش مسائل سے متعلق مختلف پہلوؤں کی کھوج کرنا اور ان کا حل تلاش کرنا تھا۔

چئیرمین آئی پی ایس کے علاوہ اس سیشن سے پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد، وائس چانسلر، آر آئی یو، اسلام آباد، ڈاکٹر قبلہ ایاز، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل، اسلام آباد، ڈاکٹر عتیق الظفر خان، ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز اینڈ ہیومینٹیز ، آر آئی یو، ڈاکٹر عمر فاروق کورکماز ، ڈاکٹر مصطفی احمد علوی، ڈین سوشل سائنسز، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل)، اسلام آباد، ڈاکٹر کوثر فردوس، مشیر برائے وائس چانسلر، آر آئی یو، ڈاکٹر محمد ممتاز علی، ڈاکٹر ضیاء الحق، اور دیگر اسکالرز نے خطاب کیا اور اپنے مقالے پیش کئے۔ .

اپنی گفتگو کے دوران خالد رحمٰن نے اس بات پر زور دیا کہ حالیہ دہائیوں میں خاندانوں اور گھرانوں کی ساخت اور حرکیات میں نمایاں عالمی تبدیلی آئی ہے، جس میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اکیلے رہنے کا انتخاب کر رہی ہے۔ اس طرح کے رجحانات روایتی خاندانی نظام سے بتدریج علیحدگی کا عندیہ دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ حالات طویل عرصے سے رائج معاشرتی اصولوں کو چیلنج کر رہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ان  اصولوں کا دوبارہ جائزہ لینے اور ان کو دوبارہ اپنانے کا موقع بھی پیش کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان چیلنجوں اور ان کے مضمرات سے نمٹنے کے لیے فعال طرزِ عمل کی ضرورت ہے۔ یہ مسلمانوں کے لیے دفاعی موقف اپنانے کے بجائے اسلامی علم، عقائد اور اقدار سے فائدہ اٹھانے کا موقع ہے ، جس کے لیے ضرورت ہے کہ وہ  اس  معاملے کی پیچیدگیوں کو سمجھیں اور بدلتے ہوئے معاشرتی منظر نامے کا مقابلہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کے اصولوں کو اپنی انفرادی اور عملی زندگیوں میں ڈھال کر افراد خاندانی استحکام اور اس کی موافقت کی مثال پیش کر سکتے ہیں۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے