یک قطبی نیا عالمی نظام یا ایک عالمی سلطنت؟

یک قطبی نیا عالمی نظام یا ایک عالمی سلطنت؟

تہذیبوںکی تاریخ کےمطالعہ سےیہ بات ہمارےسامنےآتی ہےکہ جب تک وہ اپنےفکری محور،نظریاتی اساس اور اس کی روشنی میں متعین کردہ حکمت عملی پر عمل کرتی ہیں عروج کا سلسلہ جاری رہتا ہےاور جب ان کی فکری اساس اور نظریاتی وابستگی اور وفاداری کمزور ہو جاتی ہےتو وہ بتدریج معدوم ہو جاتی ہیں. اگر یہ فکری اساس اخلاق اور بندگی ٔ رب پر مبنی ہو تو معاشرہ میںفلاح اور برکات کا دور دورہ ہوتا ہےاور اگر یہ فکر محض مادہ کی پرستش پر مبنی ہو تو مادیت کی ریل پیل تو ہو جاتی ہےلیکن انسان اپنےمقصد حیات سےدوری کی بنا پر وہ وہ راحت،برکت اور سکون حاصل نہیںکر پاتا جو اسےواقعتا مستغنیٰ کر دے۔ ہوس،طمع،ہل من مزید کی دوڑاسےقارونیت کی طرف لےجاتی ہےجہاںسب کچھ پا لینےکےباوجود بھی وہ خود کو تنگ دست ہی محسوس کرتا ہے۔
مغربی تہذیب خود اپنی تعریف جن الفاظ میںکرتی ہےوہ ایک ایسی فکر ہےجس کی بنیاد انسان اور کائنات کےمادی وجود پر ہے۔ چنانچہ مادی قوت،مادی وسائل کا حصول،مادی خوش حالی اور معیارِ زندگی کی طلب،اس کا بنیادی مقصد اور ہدف قرار پاتےہیں۔ آج مغرب ہی نہیںپوری دنیا جس کشمکش سےدوچار ہے،اس کےپس منظر میںیہی مادی وسائل،یہ حکمرانی کی دوڑ،بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء سےبہت پہلے’’بڑےولی‘‘ کےدور میںجس ’’نئےعالمی نظام‘‘ (NWO) اور عالمگیریت (Globalization) کا نعرہ بلند کیا گیا تھا اس کا بنیادی نکتہ امریکہ کی معاشی،سیاسی اور عسکری اجارہ داری کا قیام تھا۔ چنانچہ اس مقصد کی تکمیل کےلیےاور مغربی سرمایہ کاری کےاصولوںکی پیروی کرتےہوئےکھلی منڈی (free market machanism) کےذریعہ دوسروںپر اپنی معاشی حاکمیت نافذ کرنےکی حکمت عملی وضع کی گئی۔
’’چھوٹےولی‘‘ یا موجودہ صدر نے۱۹ ستمبر ۲۰۰۲ء کو جو ’’نئی قومی حکمت عملی برائےتحفظ‘‘ "National Security Strategy of the U.S” ترتیب دی اس میںمعاشی اجارہ داری سےایک قدم آگےبڑھ کر "Pre-emptive military attacks” یا قبل از وقت شبخون مارنےکو ’’قومی تحفظ و بقائ‘‘ کےتصور کےتحت ایک فتویٰ دےکر جائز ہی نہیںضروری قرار دےدیا۔ اہل دانش تو اسی وقت اس راز کو پا گئےتھےکہ اس فتویٰ کےپیچھےارادےنیک نہیںہو سکتےلیکن بہت سےسادہ لوح افراد کو گیارہ ستمبر کا انتظار رہا جس کو عذر بنا کر پہلےایک فرضی بھوت القائدہ اور اس کےموجد بن لادن کو ایجاد کیا جائےاور پھر گیارہ ستمبر کی عظیم تباہی اور سرمایہ داری کو خود اس کےگھر میںبےعزت کرنےکےالزام میںاس خود تراشیدہ بھوت کو مار مار کر اس کا بھرکس نکالنےکےلیےاپنی تمام جابرانہ اور قاہرانہ قوت کو استعمال کیا جائے۔ اور اس طرح عالمی سلامتی کےلیےبین الاقوامی قانون کی وہ ساری عمارت دھڑام سےنیچےآ گرےجسےانسان صدیوںکی جنگوںکےتجربےکےبعد تعمیر کر پایا تھا۔ افغانستان اور عراق پیشگی حملےکےقانون کےجواز کےتحت جارحیت کی ابتدائی مثالیںہیں،اور قرائن سےاندازہ ہوتا ہےکہ ایسی مزید خون آشام مثالیںتاریخ کا حصہ بنانےکی تیاری کی جا رہی ہے۔
اگر جائزہ لیا جائےتو یہ حکمت عملی ان سابقہ حکمت عملیوںکےایک تسلسل کا پتہ دیتی ہےجنہیںاس سےقبل امریکہ کےسابقہ صدور نےاپنےاپنےدور میںقومی تحفظ کےقابل فروخت نعرےکےتحت اختیار کیا تھا۔ صدر ٹرومین نے۱۹۴۷ء میںدوسروںکو حد ادب میںرکھنےکی پالیسی وضع کرتےہوئے”Containment”کا علم بلند کیا اور اس پر واہ واہ کےڈونگرےبرسائےگئے۔ چنانچہ ۱۹۵۰ء میں،NSC-68 کےنام سےجوہری دھمکی (deterance) کی حکمت عملی وضع کر کےسرد جنگ کو آگےبڑھایا گیا اور ساتھ ہی یہ بات بھی بار بار دہرائی گئی کہ ان تحفظات کےساتھ جو جزو زیادہ اہم ہےوہ ایک اباحیت پسند جمہوری نظام کےلیےآزاد منڈی (free market)،اور بندھنوںسےآزاد معاشرہ (open society) کا قیام ہے۔ اس تثلیت جدید نےعیسائیت کی تثلیث قدیم کی جگہ اپنےقدم جمائےاور ایک نئےدور کےآغاز کی جدوجہد شروع کی۔
جس طرح ہر مادہ پرست تہذیب کا خاصہ ہےکہ وہ اپنی برتری کےزعم میںہر سامنےآنےوالی رکاوٹ کو تہس نہس کرنےکا عزم رکھتی ہے،ایسےہی اس تثلیث جدید نےاپنےنظریہ کو نافذ کرنےکےلیےہر جائز و نا جائز حربہ کےاستعمال کو "pragmatism” کا ایک بہت بھلا نام دیا جس کا سہرا مشہور امریکہ فلسفی John Dewy کےسر ہے۔
اگر بغور دیکھا جائےتو یہ بات واضح ہو جائےگی کہ امریکہ ہی نہیںیورپ میںUtilitarianism کےنام سےJohn Stewert Mill اور دیگر Empiricists کا تصور بھی اس سےکچھ مختلف نہ تھا۔ یعنی اصل کامیابی کا معیار حصول ہدف میںہے۔ جادو وہی سچاہےجو منزل مراد آپ کےحوالےکر سکے،نظام وہی درست ہےجو متوقع نتائج تک پہنچا سکے۔ اس لیےاس بحث سےکچھ حاصل نہیںکہ ذرائع جائز ہیںیا ناجائز۔
چنانچہ امریکہ ہی نہیںسرمایہ دارانہ بنیاد پرستی (capitalist fundamentalism) کےہر ماننےوالےمغربی یا مشرقی ملک نےاس مادی دوڑمیںاپنا حصہ وصول کرنےکی کوشش میںاولیاء الشیاطین کا کردار ادا کرنےمیںمسابقت شروع کر دی۔ اور حقوق انسانی،حریت افکار،مذہبی آزادی،ثقافتی تحفظ،قومی سرحدوںکا احترام غرض ان تمام کھوکھلےنعروںکو بار بار دہرانےکےباوجود نہ عراق پر پہلےحملےکےموقع پر،نہ افغانستان کےتورا بورا کرنے،نہ ہر روز بیسیوںفلسطینی بچوںبوڑھوںاور خواتین کےقتل کےخلاف ہاتھ اٹھانےبلکہ آنسو بہانےیا آہ تک کرنےکےتکلف کو اپنا اخلاقی فرض سمجھا۔
اس عالمی پس منظر میںاگر صدر بش اپنےاستعماری مقاصد کےتحت pre-emptive warکا تصور لےکر آئےہیںتو اس میںتعجب کی کوئی بات نہیں۔ تعجب تو اس وقت ہوتا اگر طاقتور ریاستوںکی جارحیتوںاور ملک گیری کی تاریخی روایت کی اصلاح کرتےہوئےآج کےاس ترقی یافتہ دور میںامریکہ جیسا کوئی طاقتور ترین،ملک سب کےلیےاپنےاصولوںاور اقدار کےمطابق جینےکا حق تسلیم کر لیتا۔ لیکن اےبسا آرزو کہ خاک شدہ!
عراق پر امریکی جارحانہ قبضہ نےاہل دانش کےچار اندیشوںکو درست ثابت کر دیا ہے۔ انہیںپہلا اندیشہ یہ تھا کہ امریکہ ۱۱ ستمبر کےواقعہ کو حیلہ بنا کر یہ ثابت کرنا چاہتا ہےکہ جدید تثلیث کو اگر کوئی حقیقی خطرہ ہےتو صرف ان ’’انتہا پسندوں‘‘ سےہےجو مغربی سرمایہ دارانہ بنیاد پرستی پر ایمان نہیںرکھتےاور اپنی لاچاری،مایوسی اور غصہ کا بخار نکالنےکےلیےتشدد کو اپنا حربہ اختیار کرتےہیں۔ اس لیےسرمایہ دارانہ بنیاد پرستی کو اپنےتحفظ و بقاء کےلیےاس ’’خیالی‘‘ دشمن  سےنپٹنا ہو گا جو ایک ’’تہذیبی تصادم‘‘ کا باعث بن رہا ہے۔
یہاںیہ کہنا غیر ضروری ہےکہ تہذیبی تصادم کا نظریہ پہلےہی سےاس بات کو فرض کر لیتا ہےکہ عام جنگوںکی طرح اس تصادم میںبھی کسی ایک کو فتح یاب ہونا ہےاور دوسرےکو شکست دےکر صفحہ ہستی سےمٹانا ہےگویا انسانی معاشرہ میںکثرتیت plurality کی جگہ یک نظامی اور یک نظریاتی نظام کا قیام اور وجود ہی انسانیت کی فلاح کا ضامن ہے!۔ ایک سےزیادہ تہذیبوںاور نظریات کا وجود تضاد،تصادم اور ٹکراؤ کا باعث بنتا ہےاس لیےصرف ایک نظریہ یعنی اباحیت پسند جمہوریت،آزاد معاشی منڈی اور ہر بندھن سےآزاد معاشرت ہی کو یہ حق حاصل ہےکہ وہ دنیا پر حکومت کرے!
ایک لمحہ کےلیےرک کر غور کیا جائےتو اس تصور میںوہی صفات اور خصوصیات بدرجہ اتم پائی جاتی ہےجن کا الزام ’’بنیاد پرستی‘‘ اور ’’انتہا پسندی‘‘ کےماننےوالوںپر نام نہاد لبرل،لادینیت پسند (secularist) عاید کرتےہیں۔ بنیاد پرستوںپر یہی الزام تو ہےکہ وہ اپنی فکر اور نظریہ کےعلاوہ کسی اور فکر کو رائج ہونےکی اجازت نہیںدیتے۔ چنانچہ اُچک ا چک کر Talibanization کو بطور ایک کریہہ اصطلاح کےاستعمال کیا جاتا ہےکہ اگر لبرل ازم اور لادینیت پر ایمان لا کر اسےاختیار نہ کیا تو Talibanization کا بھوت حملہ آور ہو جائےگا۔ اگر طالبانی فکر ایک عدم رواداری کےرویہ کا نام ہےتو کیا اس کی جگہ لبرل ازم کےنام پر دنیا کی آبادی کو multi-religious اور multi-cultural طرز سےمحروم کر کےنئی تثلیث کےعلمبردار نام نہاد نیو ورلڈ آرڈر کی سلطنت کو مان لینےکو ’’رواداری‘،‘ ’’جمہوریت‘‘ اور ’’شخصی آزادی‘‘ سےتعبیر کیا جا سکتا ہے؟۔
دوسرا خدشہ اس حوالہ سےیہ ہےکہ اگر pre-emptive warکےتصور کو اخلاقی اور قانونی تحفظ حاصل ہو گیا تو جس Divine immunityسےنکلنےکےلیےیورپی اقوام نے’’معصوم‘‘ اور ’’منزہ عن الخطا‘‘ کلیسا کی سلطنت کےخلاف بغاوت کر کےریاست کو آزاد کرایا تھا،تاریخ گھوم پھر کر پھر اسی نقطہ پر آ کر رک جائےگی اور یک قطبی بلکہ یک فریقی سلطنت جو کچھ چاہےگی اسےعین حق اور ضرورت قرار دیتےہوئےاپنی سلطنت کو تمام اقوام عالم پر مسلط کرنےمیںکوئی شرم،جھجک اور رکاوٹ محسوس نہیںکرےگی۔ موجودہ صور ت حال نےاس خدشہ کو یقین کا درجہ فراہم کر دیا ہے۔ ایک ہی تھیلی کےچٹےبٹےہونےکےباوجود اس کھلی جارحیت کےخلاف جو امریکہ نےعراق کےعوام کےخلاف اختیا رکی جب فرانس اور جرمنی نےاس غیر اخلاقی اور غیر قانونی حرکت پر اعتراض کیا تو ان کےاختلاف کو نظر حقارت سےدیکھتےہوئےعالمی سلطنت کےمدعی نےوہی کیا جو اس کےخیال میںدرست تھا۔ حتیٰ کہ ایسا کرتےہوئےنہ اقوام متحدہ کی عزت کا پاس کیا اور نہ یورپ کےساتھ اپنےنہایت قریبی تعلقات کا لحاظ کیا۔
گیارہ ستمبر کےحوالےسےتیسرا خدشہ اس سانحےکےذمہ داران کےتعین کےبارےمیںہے۔ ہر شخص حتیٰ کہ انسان ہی نہیںحیوانات بھی اپنےاقدامات سےپہلےیہ اندازہ کر لیتےہیںکہ ان کےکسی کام کا ردعمل کیا ہو گا۔ چنانچہ شیر اگر دوسرےشیر کےکچھار میںقدم رکھتا ہےتو جانتا ہےکہ نتائج خون آشام ہو سکتےہیں۔ ایک گاؤںکا کتا بھی اگر کسی دوسرےاعلیٰ نسل کےکتےکی سلطنت میںقدم رکھتا ہےتو دم گھما گھما کر حالات کا اندازہ کرتا رہتا ہےکہ کب دم دبا کر بھاگنا مصلحت کا تقاضا ہو گا۔ اس لیےجس کسی عقلمند نےیہ خیال ہےکہ ادھر تجارتی میناروںکو جہاز ٹکرا کر توڑا ادھر صدر امریکہ مستعفی ہو کر دست بستہ اپنی صدارت حملہ آوروںکےحوالےکر کےگوشہ نشین ہو جائےگا اور سرمایہ دارانہ نظام دھڑام سےزمین پر آ رہےگا اسےخود اپنی عقل کےناخن لینےچاہییں۔ گویا ایک کم عقل انسان بھی یہ سمجھ سکتا ہےکہ اس اقدام کا نتیجہ صرف اور صرف مسلمانوںکےخلاف ردعمل کی شکل میںنکلےگا۔ اس کی زد نہ اسرائیل پر پڑےگی نہ اس کی بنا پر مسئلہ فلسطین حل ہو گا،نہ اس کی بنا پر بہت سی مسلم جابر حکومتیںلرزہ براندام ہو کر زمین بوس ہوںگی۔ بلکہ اسلام اور مسلمان دشمنی اپنےنقطہ عروج کو پہنچ جائےگی۔
اس حقیقت کو جانتےہوئےکیا کوئی شخص جو اسلام اور مسلمانوںکی بھلائی اور بہتری کا خواہاںہو ایسا اقدام کر سکتا ہے؟ یا جس کو اسلام اور مسلمانوںکو نشانہ بنانا مقصود ہو وہ ایک جواز پیدا کرنےکےلیےخود اپنےگھر کےایک کونےمیںآگ سلگا کر جوابی حملہ کرنےاور اپنےمخالف کو تباہ و برباد کرنےکی حکمت عملی تیار کرےگا؟۔ ایک لمحہ کےلیےہم صرف نظر کرتےہوئےیہ بھول بھی جائیںکہ اس اقدام کےپیچھےکون ہو سکتا ہےاگر صرف اس وقوعہ کےنتائج کو دیکھا جائےتو نزلہ سب کا سب جس عضو ضعیف پر گرا وہ صرف اور صرف امت مسلمہ تھی۔
گویا pre-emptive warکےاہداف نہ تو جاپان،جرمنی،فرانس،اسپین یا ہندوستان اور اسرائیل ہو سکتےہیںاور نہ ہی سنگاپور یا فلپائن۔ انہیںمنطقی طور پر شام یا ایران وغیرہ ہی ہونا چاہیے۔ اس لیےایک تیر سےکئی شکار کرتےہوئےصدر بش جو اب تک ’’خالی الذہنی‘‘ کےلیےمشہور تھے،کم از کم قوت کےبرہنہ استعمال میںاپنےسابقین سےآگےبڑھ گئے۔ اور انہوںنے’’قومی تحفظ‘‘ کےنام پر اندرون ملک معاشی بحران کا حل اس میںڈھونڈا کہ جنگی معیشت اور عسکری برتری کےسہارےامریکہ کےلیےمفت تیل کی فراہمی کو اپنا ہدف بنایا جائے۔ اس طرح نہ صرف جنگی جارحیت کےتمام اخراجات بمعہ سود امریکہ کو مل جانےکا یقینی راستہ کھل گیا بلکہ طویل المعیاد معاشی مفاد کا حصول ایک ہی حملہ میںکر لیا گیا۔ یہی کام کسی زمانےمیںچھوٹےپیمانہ پر بحری قزاق اور بری ڈاکو کیا کرتےتھےتو معاشرہ کےصالح افراد انہیںنفرت سےدیکھتےاور ان کےہاتھ کاٹنےکےدرپےہوتےتھے۔ آج جو ملک یہ ’’مبارک‘‘ کام کرتا ہےاس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتےہوئےاس کےہاتھ نہیںقدموںکو بوسہ دینا،بہت سےفرماںروا اپنےلیےسرمایہ افتخار سمجھتےہیں!
اس کا نتیجہ واضح ہے۔ یعنی امریکہ نےاپنا تمام بوجھ جس پلڑےمیںڈال دیا ہےوہ مسلم دنیا کےمفادات،وجود اور آزادی کےمنافی ہے۔ اور ماضی کی سلطنت روما کےطرز پر،ایک عالمی امریکی سلطنت،کےقیام کا ببانگ دہل اعلان ہے۔ اس عالمی سلطنت Amrican Empire کا بنیادی مقصد سرمایہ دارانہ بنیاد پرستی،N.W.O کا عالمی سطح پر جارحانہ قوت کےاستعمال (pre-emptive war) کےذریعےقیام کےساتھ ساتھ دہشت گردی کےخاتمہ کےبہانہ ان بہت سےممالک کو براہ راست ایک نوسامراجی نظام کےتحت لانا ہےجو کسی بھی حیثیت سےمادی وسائل کےکم قیمت یا بلا قیمت حصول میںکام آ سکتےہیں۔ امریکہ کےپیٹ میںعراقی عوام کی مظلومیت کا درد اٹھنےکا اصل محرک اپنےصنعتی اداروںکےلیےپانی کی قیمت سےزیادہ ارزاںبلکہ مفت تیل کا حصول تھا۔ جس کا اظہار غیر شعوری طور پر عراق پر حملہ کےنعرےOperation Iraq Liberation [O.I.L] سےہوا۔ گو ہم سمجھتےہیںکہ ڈاکہ جس عنوان سےبھی ڈالا جائےڈاکہ ہی رہتا ہےاس لیےاگر عنوان پر کچھ نظر ثانی بھی کر لی جاتی تو عملاً نتائج وہی رہتے۔
اس نئی سلطنت کےدور کا آغاز جس فرعونی اور قارونی نعرہ سےکیا گیا ہےوہ قرآن کریم کےالفاظ میںوہی ہےجسےماضی کےفرعون نےاختیار کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ Unipolar Power ہے،اس کےپاس sanctions کرنےیا نہ کرنےکا اختیار ہے،وہ بنی اسرائیل کےافراد کو زندگی اور موت دینےکا حق رکھتا ہے،وہ نئےفرعونی اور قارونی  نظام کا علمبردار ہے،اس کےہاتھ میںمعاشی وسائل کی کنجیاںہیںوہ اپنےدور کےWorld Bank اور Internationl Monetary Fund کی پالیسیوںکو کنٹرول کرتا ہے،وہ لوگوںکو رزق دیتا ہے،وہ ان کا عسکری دفاع کرتا ہے،اور جو اسےدوست بنائےباقی رہتا ہے،اور جس کا وہ دشمن ہو وہ نیست و نابود ہو جاتا ہےگویا وہ لوگوںکا رب ہے’’انا ربکم الاعلیٰ‘‘ (سورہ: النازعات ۷۹: ۲۴)۔لیکن ان تمام دعوؤںکےباوجود اس کا انجام دوسروںکےلیےعبرت بنا لیکن انہی کےلیےجو بصیرت رکھتےہوںفاعتبرو یا اولی الابصار (سورہ: الحشر ۵۹: ۲)۔ جن کےقلب کی آنکھ بند ہو جائےان کی ظاہری آنکھیںبھی انہیںحالات کی صحیح تصویر دکھانا بند کر دیتی ہیں۔
اس عالمی تناظر میںجب ۱۱ستمبر محض ایک حیلہ نظر آتا ہےکیا دیوار پر لکھی تحریر پڑھنےکےلیےکسی خاص بینائی کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ بنیاد پرست قوتیںامریکہ کی ہوںیا کسی اور خطےکی ان کا عقیدہ معمولی فرق کےساتھ ایک ہی تصور تثلیث ہےجس میںاولین خدا منڈی کی معیشت ہےاور پھر اباحیت پسند معاشرہ کےزیر سایہ نام نہاد جمہوریت۔
اس تثلیث جدید کی حقانیت پر وہ نہ صرف ایمان رکھتی ہیںبلکہ یہ بھی چاہتی ہیںکہ دوسرےبھی انہی کی طرح ان پر ایمان لےآئیں۔ اس کےلیےوہ عسکری قوت کےذریعہ دیگر ممالک میںسیاسی تبدیلی کو جسےوہ "regime change” کا نام دیتی ہیںاخلاقاً اور قانوناً جمہوریت کےاصولوںکےمطابق سمجھتی ہیں۔ قرون وسطیٰ کی عیسائیت میںایسےہی عقائد کو Dogma کہا گیا تھا۔ گویا اکیسویںصدی کا ترقی یافتہ اور ’’مہذب‘‘ مغرب عالمگیریت اور جدید عالمی نظام کےنام سےجو اقدامات کر رہا ہےوہ عملاً ایک قسم کےDogma کو دوسروںپر مسلط کرنا اور جمہوریت کےنام پر جمہوریت کےبنیادی تصورات سےببانگ دہل انحراف و بغاوت کی روش ہے۔
ان حالات کا جواب کس طرح دیا جائے؟ کیا اپنی معاشی،عسکری اور سیاسی قوت کو محدود تصور کرتےہوئےسرمایہ دارانہ بنیاد پرستی کےبت کےسامنےسر بسجود ہو کر اسےاپنا ہادی،ناصر،محافظ،مالک اور ولی تصور کرتےہوئےخود کو اس کےساتھ مکمل طور پر وابستہ کرنےکےبعد یہ سمجھ لیا جائےہم محفوظ و مامون ہو گئے،بلا ٹل گئی،چاہےاس ٹلنےکےعمل میںہم نےاپنےبعض دوستوںکےخون کو خود پر حلال ہونےدیا ہو؟ یا اپنےمحدود وسائل کےپورےاحساس کےساتھ حالات کا مقابلہ ہی نہیںانہیںاپنےحق میںتبدیل کرنےکےلیےمقامی اور عالمی طور پر ایک ایسی حکمت عملی وضع کی جائےجو قومی وقار،معاشی خود انحصاری،سیاسی آزادی اور ثقافتی تشخص کو متاثر کیےبغیر ملکی تحفظ و سالمیت کےساتھ ترقی کےراستےکی طرف لےجاتی ہو۔
اسلام اور مسلمانوںکےحوالےسےمغرب کےطرز عمل،عزائم اور حکمت عملی کو سمجھنےکےلیےکیا ہمارا رویہ وہی ہونا چاہیےجو مغرب کا ہمارےساتھ ہےیا اسلام کےاخلاقی اصولوںکی روشنی میںہم ٹکراؤ اور تصادم کی جگہ دعوت و اصلاح کےجذبات کےساتھ مغرب کےان صالح عناصر کو مخاطب کریںجو مغرب کی مادہ پرستانہ بنیادپرستی کےخلاف اپنی عوامی رائےکا بار ہا اظہار کر چکےہیں۔ خصوصاً عراق پر امریکہ جارحیت کےدوران جن لاکھوںافراد نےاجتماعات کی شکل میںاپنےحکمرانوںکی پالیسی کےخلاف اپنی رائےکا اظہار جرأت مندی کےساتھ خود سرمایہ داری کےمراکز واشنگٹن،لندن،ٹوکیو،لاس انجیلس غرض دنیا کے۴۰۰ بڑےشہروںمیںکیا اور ان میںوہ افراد بھی شامل ہوئےجنہیںسائنس اور ادب میںنوبل پرائز دیےگئےتھے۔
اس مکالمہ اور رائےعامہ کو متاثر کرنےکےعمل کا یہ مطلب قطعاً نہیںلیا جا سکتا کہ ہم اس قرآنی حکم کہ اپنے’’گھوڑوںکو تیار رکھو‘‘ کو نظر انداز کر دیں۔ ان دونوںکاموںمیںکوئی تضاد نہیںپایا جا سکتا۔ اپنےمعاشی عسکری اور نظریاتی وسائل کو مضبوط سےمضبوط تر بنانا اور خود انحصاری کا حصول ہی ہمارےمکالمہ میںسنجیدگی پیدا کر سکتا ہےاس لیےفرعونی اور قارونی قوتوںکےخلاف نہ صرف فکر اور زبان سےبلکہ ہاتھ اور قوت سےمقابلہ اور مکالمہ کا راستہ بیک وقت اختیار کیےبغیر ہم اپنےمفادات کا تحفظ نہیںکر سکتے۔
اس کےساتھ ساتھ امت مسلمہ کےاندرونی خلفشار خصوصی طور پر قیادت اور عوام میںفاصلہ،قیادت کا عمومی طور پر مغرب سےمرعوبانہ رویہ،معاشی،تعلیمی،ثقافتی اور عسکری میدانوںمیںمغرب کی اندھی تقلید اور اخلاقی انتشار ایسےمسائل ہیںجن کےمناسب حل کےبغیر بیرونی قرضوںکےسہارےچلنےوالی معیشتیںاندرونی استحکام فراہم نہیںکر سکتیں۔ مغرب کی جارحیت کا جواب تشدد سےنہیںحکمت اور دانش سےطویل المیعاد اور مختصر مدت کی منصوبہ بندی اور خود انحصاری سےہی کیا جا سکتا ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے