آئی پی ایس کی قومی مجلسِ علمی کا سالانہ اجلاس 2023

آئی پی ایس کی قومی مجلسِ علمی کا سالانہ اجلاس 2023

ناقص طرزِ حکمرانی قومی مشکلات کی جڑ ہے؛ نوجوانوں پر مرکوز پالیسیاں، یکساں نظامِ تعلیم، قومی امنگوں پر مبنی اقدامات ناگزیر ہیں

پاکستان کو گورننس کے سخت چیلنجز کا سامنا ہے جن کے لیے اب تجاویز سے آگے بڑھ کر ٹھوس اور پائیدار اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ علم اور عمل کا فرق دور کرنے لیے ایک فعال حکمتِ عملی کی ضرورت ہوتی ہے جسکے ذریعے قوم کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی صورت میں حل کو نافذ کیا جا سکے۔ ملک کو ناقص گورننس، اندرونی کشمکش، بدعنوانی، تعلیمی نظام کی تباہی، اخلاقی پستی، ماحولیاتی چیلنجز اور صحت  عا  مہ کی مشکلات جیسے بڑے  خطرات کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ریاستی  پالیسیوں میں  پائیداری، تفاوت کو دور کرنے، نوجوان آبادی کی توانائی اور صلاحیتوں کو  استعمال کرنے، بیانیہ اور قومی جذبات کی تعمیر، اور تحقیق کے ذریعے تعمیری تبدیلی کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

ان خیالات کا اظہار16ستمبر 2023 کو ہونے والے  انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئ پی ایس) کی قومی مجلسِ علمی (نیشنل اکیڈمک کونسل ) کے سالانہ اجلاس میں شریک  ملک بھر سےاور بیرونِ ملک مقیم ممتاز  پاکستانی دانشوروں، ماہرین تعلیم، ٹیکنو کریٹس ، دفاعی ماہرین اور مذہبی اسکالرز نے کیا۔

اس سالانہ اجلاس کا مقصد آئی پی ایس کی تحقیقی سرگرمیوں کے جائزے اور منصوبہ بندی کے علاوہ قومی مسائل کے بارے میں تجزیے اور اظہارِخیال کے لیے   مختلف علاقوں اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والےقوم کے دانشمندوں کو جمع کرنا اور ان سے فکری رہنمائی حاصل کرنا تھا۔

آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن کی زیر صدارت ہونے والے اس اجلاس سے رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد ، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے بحری امور وائس ایڈمرل (ر) افتخار احمد راؤ، ، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل آف پاکستان پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز؛ جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ ڈاکٹر سید محمد انور،  وائس چانسلر، فاطمہ جناح یونیورسٹی، راولپنڈی صائمہ حامد ؛ وائس چانسلر، ضیاء الدین یونیورسٹی، کراچی سید عرفان حیدر، سابق ریکٹر کامسیٹس ڈاکٹر سید جنید زیدی ؛ممبر خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن پروفیسر ڈاکٹر رضیہ سلطانہ؛ چیئرمین پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی؛ سابق وفاقی سیکرٹری ، مصنف و محقق سید ابو احمد عاکف؛ ،  معروف صنعت کار  اور سماجی رہنما بشیر جان محمد؛ سابق وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی مرزا حامد حسن؛ سابق وائس چانسلر، مسلم یوتھ یونیورسٹی  ڈاکٹر سید طاہر حجازی؛ ڈاکٹر مسعود محمود خان، کرٹن یونیورسٹی، آسٹریلیا؛ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہدہ وزارت ؛ معروف  دانشور پروفیسر جلیل عالی ؛  ماہر امراض اطفال ڈاکٹر نوید بٹ  ؛ ڈاکٹر نورین سحر، چیئرپرسن، شعبہ بشریات، بین القوامی اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آباد؛ وائس چیئرمین آئی پی ایس اورسابق سفیر سید ابرار حسین، ؛ اور پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام، ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ اکیڈمک آؤٹ ریچ، آئی پی ایس نے خطاب کیا۔

اہم قومی چیلنجوں کی فکری اور پالیسی سطح پر حل کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے مقررین نے ناقص طرز حکمرانی کے نازک مسئلے کو قومی مشکلات کا ماخذ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ مسائل کو تنہائی میں حل نہیں کیا جا سکتا، اس کے لیے حکومتی اصلاحات کے لیے فوری ،  وسط مدتی اور طویل مدتی حل کے ساتھ منظم اور مستقل اقدامات کی ضرورت ہے۔

مقررین نے ملک کے مستقبل کے لیے ایک مضبوط بنیاد بنانے کے لیے جامع تعلیمی اصلاحات پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ٹی، تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم، کردار کی نشوونما اور اخلاقی اقدار پر توجہ مرکوز کرنا ہی مسائل کا عملی حل ہے۔ مزید برآں،  طبقاتی نظامِ تعلیم کی وجہ سے بڑھتی ہوئی تفاوت کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ہی قومی نصاب ہونا چاہیے۔

مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ نوجوانوں کو  درکار تبدیلی کے محرک کے طور پر بااختیار بنایا جانا چاہیے۔ اس کے لیے نوجوانوں پر مرکوز پالیسیاں اور نصاب میں تبدیلی ضروری ہے۔ مزید برآں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تحقیق اور اختراعی صلاحیت کی ترقی کو یکے بعد دیگرے حکومتوں اور مستقل پالیسیوں کے ذریعے برقرار رکھا جانا چاہیے۔

مقررین نے ماحولیاتی چیلنجوں کا بروقت مقابلہ کرنے کے لیے ردعمل اور تیاری کے قیام کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔ اس کے علاوہ عوامی فلاح و بہبود اور قومی ترقی کے لیے صحت، زراعت، ماحولیات اور معاشی نظام میں بھی اصلاحات پر زور دیا۔

پاکستان کے مسائل کی  عالمی اور علاقائی جہتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ ملک کو بیانیہ کی عصری جنگ میں قومی امنگوں اور حل پر مبنی اقدامات لیتے ہوئے ہوئےبیرونی   اور اندرونی دشمن قوتوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے تجویز دی کہ پاکستانی ریاست کو سب سے پہلے پالیسی اور قیادت کی سطح پر بڑھتی ہوئی داخلی پولرائزیشن، قوانین اور آئین کی خلاف ورزی، اندرونی تفاوت، بدعنوانی  کے سیلاب اور ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے جیسے مسائل سے بھرپور طریقے سے نمٹنا چاہیے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے