ازبکستان: آزادی کے پچیس سال اور اسلام کریموف کے مابعد

uzbez amb thumb

ازبکستان: آزادی کے پچیس سال اور اسلام کریموف کے مابعد

Meeting with uzbek ambassador 2
 

پائیدار سیاسی عمل اور عوام کو ترقی کے عمل میں شریک کرنے سے ہی اقتصادی ترقی کے عمل کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔شوکت مرزا یوفکے صدر منتخب کرنے کے عمل نے ازبکستان میں سیاسی عمل اور سول سوسائٹی کی مضبوطی کو دنیا کے سامنے منوایا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ازبکستان کے پاکستان میں سفیر فرقت صدیقوف نے 29 دسمبر 2016ء کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں منعقدہ ایک سیمینار میں کیا۔ سیمینار کا عنوان تھا ”ازبکستان: آزادی کے 25سال اور اسلام کری موو کے مابعد“۔ سیمینار میں سابق سفیر اکرم ذکی نے بھی خطاب کیا۔

فرقت صدیقوف نے اپنے خیالات میں ازبکستان کی معاشی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ 1991ء میں ایک آزاد ریاست کی حیثیت اختیار کرنے کے بعد ازبکستان نے منڈی کی معیشت پر منتقلی کا سفر شروع کیا۔ سالہا سال کے سفر کے بعد اب ازبکستان اس علاقے کی معیشت میں ایک نمایاں نام ہے۔ ملک کا زیادہ تر انحصار زراعت اور کپاس سے بننے والی مصنوعات پر ہے جو ملک کی معیشت کا 45 فیصد بنتا ہے۔ زراعت کا شعبہ انتہائی اعلیٰ درجے کی مشینی دنیا سے منسلک ہے اور ملک خوراک اور توانائی کے شعبے میں خودکفیل ہے۔ دیگر شعبہ جات میں آٹو موبائل، ہوابازی، تعلیم، صحت اور قدرتی وسائل نمایاں ہیں۔

اس چوتھائی صدی کے طویل سفر میں ازبکستان کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرقت سدی کوو نے مزید کہا کہ سابق ازبک صدر اسلام کریموف کے انتقال کے بعد بہت سے میڈیا کے لوگوں اور سیاسی تجزیہ کاروں نے یہ دعوے کیے کہ ملک اختلافات کا شکار ہو جائے گا اور حکومت کی طاقت کمزور پڑ جائے گی لیکن ملک کے آئین کے تحت ہونے والے پُرامن صدارتی انتخابات اور سیاسی عمل کی منتقلی نے ان خدشات کو ختم کردیا۔ سیاسی عمل کی مضبوطی نے دنیا کے سامنے ازبکستان کی ایک نئی حیثیت بھی منوا دی ہے۔ مرزے ییو کو ملنے والے 88فیصد ووٹ درحقیقت اس بات کا اظہار ہے کہ لوگ اس سیاسی تسلسل کو جاری رکھنے کے ساتھ ہیں۔

Meeting with uzbek ambassador 3انہوں نے کہا کہ ازبکستان ترقی اور خوشحالی کا یہ سفر جاری رکھنے پر پُرعزم ہے۔ جہاں حکومت ملک کو تاجروں، صنعت کاروں اور سیاحوں کے لیے ایک پُرکشش مقام بنانا چاہتی ہے وہاں اپنے شہریوں کو بااختیار بنانے کا عمل بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ای گورننس کو متعارف کروانے کے بعد شہریوں کو براہِ راست شکایات درج کرانے کا موقع مل رہا ہے اور تمام حکومتی محکموں اور ریاست کے اداروں کو پابند بنایا جارہا ہے کہ وہ لوگوں تک معلومات کے عمل کو یقینی بنائیں۔

پاکستان اور ازبکستان کے درمیان حال میں ہونے والے تعاون کے معاہدوں پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے زراعت، ٹیکسٹائل کی صنعت، آٹوموبائل، ریلوے، ہوابازی اور تعلیم کے شعبوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا اپریل 2017ء سے لاہور سے تاشقند براہِ راست پرواز کے آغاز کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جس سے بالواسطہ پروازوں کے ذریعے بیس گھنٹے پر محیط سفر صرف 2گھنٹے تک محدود ہو جائے گا۔ ازبکستان پاکستان چیمبر آف کامرس کے قیام کی تجویز بھی زیرغور ہے۔

سی پیک کے ترقی کے عمل میں نمایاں کردار پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ازبکستان بھی اس سے فوائد حاصل کرنے چاہے گا۔ اسے ممکن بنانے کے لیے افغانستان کے ذریعے ریلوے کا ایک ٹریک ممکنہ حل ہے۔ ازبکستان نے مزار شریف تک پہلے ہی ریلوے ٹریک تعمیر کر رکھا ہے جبکہ پاکستان ریلوے لائن کابل تک لے جانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔

انہوں نے اس سارے عمل میں دونوں ممالک کے لوگوں کے درمیان تعلق پروان چڑھنے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سابق سفیروں، خارجہ پالیسی کے ماہرین، تاجروں اور دانشوروں کے لیے یہ خبر انتہائی دلچسپ ہو گی کہ پاکستان کے تین ڈرامے ازبکستان میں نشر کیے جارہے ہیں۔

Meeting with uzbek ambassador 1جہاندیدہ سفارت کار محمد اکرم ذکی نے اپنے خطاب میں کہا کہ جب افغانستان سے انخلا کے بعد سوویت یونین تقسیم کے عمل کا شکار ہونا شروع ہوا تھا تو پاکستان نے وہ راستے اور بنیادیں تلاش کرنے کا عمل شروع کر دیا تھا جو اس کے وسط ایشیا کے ممالک کے ساتھ تاریخی رابطوں کو بحال کرنے میں مددگار ہو سکیں۔

ان تعلقات کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کرنے اور مضبوطی علاقائی اقتصادی روابط کو تعمیر کرنے کے لیے وسط ایشیا کی چھ مسلم اکثریتی ریاستوں اور افغانستان کوECOسے منسلک ہونے کی دعوت دی گئی۔ ان ارکان کی تعداد دس تک پہنچ گئی۔ 1993ء میں کوئٹہ ایکشن پلان وضع ہوا جس میں ان دس ممالک نے باہمی اقتصادی ترقی کو عملی شکل دینے کے لیے ایک جرأت مندانہ اور عملی منصوبہ پیش کیا۔ افغانستان میں ترقی کا یہ عمل رکاوٹوں کا شکار رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ازبکستان کو افغانستان میں امن و امان اور استحکام کے لیے افغانوں کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ یہ اس علاقے کے ممالک کے درمیان تعلقات کو بام عروج پر پہنچانے کے لیے ایک اہم پہلو ہے۔

انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد ازبکستان نے انتہائی سمجھ داری کا ثبوت دیتے ہوئے بین الاقوامی سیاست میں اپنی حیثیت منوائی ہے اور امریکہ، روس اور چین کو ایک حد پر رکھا ہے۔ اس نے انتہائی وقار اور عزت نفس کے ساتھ اپنے فیصلے قومی مفاد میں کیے ہیں جو قابل تقلید ہیں۔

سیمینار سے ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمٰن نے بھی خطاب کیا۔ دیگر شرکاء میں سابق سفارت کاروں، تجارت سے منسلکہ افراد اور دانشوروں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے