آذربائیجان کے لوگوں کا بحیثیت قوم عزم و ارادہ : 20 جنوری 1990 کی یاد میں دنیا بین الاقوامی قانون کے تحت مظلوم لوگوں کی آزادی کی جدوجہد کی حمایت کرے

آذربائیجان کے لوگوں کا بحیثیت قوم عزم و ارادہ : 20 جنوری 1990 کی یاد میں دنیا بین الاقوامی قانون کے تحت مظلوم لوگوں کی آزادی کی جدوجہد کی حمایت کرے

پاکستان میں جمہوریہ آذربائیجان کے سفیر خضر فرہادوف نے  آذربائیجان میں سوویت فوجیوں کے ہاتھوں بلیک جنوری کے قتل عام کے شہداء کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو ظالم ریاستوں کے ظلم و بربریت اور تشدد کو انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیتے ہوئے مذمت کرنی چاہیے اور مظلوم لوگوں کی آزادی کی جدوجہد اور بین الاقوامی قانون کے تحت ان کے حق خودارادیت کی حمایت کرنی چاہیے۔

یادگاری اجلاس بعنوان ”آذربائیجان کے لوگوں کا بحیثیت قوم عزم و ارادہ : 20 جنوری 1990 کی یاد میں“ کا اہتمام 20 جنوری 2023 کو آئی پی ایس اور پاکستان میں جمہوریہ آذربائیجان کے سفارت خانے نے کیا تھا۔

کثیر تعداد  میں شریک ہونے والے افراد کے اس اجلاس سے خالد رحمٰن ، چیئرمین، آئی پی ایس؛ ایمبیسیڈر(ر) سید ابرار حسین، وائس چیئرمین، آئی پی ایس؛ خالد تیمور اکرم، ایگزیکٹو ڈائریکٹر، پاکستان ریسرچ سینٹر فار اے کمیونٹی ود شیئرڈ فیوچر؛ اور ڈاکٹر طغرل یامین، سینئر ریسرچ فیلو آئی پی ایس اور سابق ڈین، کپس-نسٹ نے بھی خطاب کیا۔

خضر فرہادوف نے کہا کہ 20 جنوری 1990 کے شہداء کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انہوں نے آذربائیجان کی آزادی کی راہ ہموار کی اور اس علاقائی سالمیت، آزادی، قومی تشخص اور خودمختاری کے لیے اپنی جانیں قربان کیں جو آج آذربائیجان کو حاصل ہے۔

تشدد کا نشانہ بننے والے اپنے ہم وطنوں کی قربانیوں  کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 20 جنوری 1990 آذربائیجان کی تاریخ میں ایک خوفناک سانحہ کا دنہے، جسے بلیک جنوری کے نام سے جانا جاتا ہے، جب ہزاروں سوویت فوجیوں نے باکو پر حملہ کیا اور 150 کے قریب غیر مسلح شہریوں  کوبے دردی سے ہلاک کر دیا جن میں بچے، خواتین اور بزرگ شامل تھے۔ ہزاروں پرامن لوگوں کو زخمی کیا اور ایک ہی رات میں 800 کے قریب لوگوں کو غیر قانونی طور پر قید کر دیا۔  اس کے ردِّعمل میں تقریباً 10 لاکھ آذربائیجانی یکجہتی کےابے مثال مظاہرہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور مسلسل 40 دن اس ردِّعمل کا مظاہرہ کیا۔ صرف ڈیڑھ سال کے بعد، آذربائیجان نے جمہوریہ آذربائیجان کے طور پر اپنی آزادی دوبارہ حاصل کر لی۔

بدقسمتی سے، اس درجہ جارحیت اور آج کی دنیا کے درمیان بہت سی مماثلتیں ہیں جہاں پرتشدد، انتہا پسندی اور نفرت کی بنیاد پر دہشت گردی کی کارروائیاں کشمیریوں اور فلسطینیوں جیسے مظلوم لوگوں کی جدوجہد آزادی اور مزاحمت کو کچلنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ آذربائیجان کی آزادی اورحقِ خود ارادیت کی جدوجہد کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کی جدوجہد کے متوازی ہے۔

پاکستان اور آذربائیجان نےعوام کی طرف سے ہونے والی آزادی کی جدوجہد کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔ مشترکہ ثقافتی ورثے، مسائل پرمشترکہ ادراک اور بین الاقوامی فورمز پر تعاون پر مبنی ان خوشگوار تعلقات کی تاریخ کی وجہ سے، پاکستان نے ہمیشہ آرمینیا کے خلاف آذری کاز کی حمایت کی ہے۔ مقررین نے کہا کہ آذربائیجان کی طرف سے بھی کشمیر  کاز کے لیے اسی طرح کی حمایت کی گئی ہے۔

تاہم، تیزی سے بدلتا ہوا عالمی منظر نامہ اب  اس بات کا متقاضی ہے کہ مسلم ریاستیں مسائل پر مضبوط موقف اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعاون کو لازمی امر قرار دیں۔ مقررین نے کہا کہ اس سلسلے میں پاکستان اور آذربائیجان کو اپنے دوطرفہ تعلقات کو مضبوط کرنا چاہیے اور مشترکہ مقاصد، مفادات اور چیلنجز کے لیے تھنک ٹینکس جیسے مختلف پلیٹ فارموں کی مدد سے کام کرنا چاہیے۔

خالد رحمٰن نے بلیک جنوری کے شہداء کو آزادی اور حق خود ارادیت کے لیے لڑنے والے تمام لوگوں کے لیے مشعل راہ قرار دیا۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان اور آذربائیجان کو کشمیر کاز کی حمایت میں مضبوط موقف اپنانا چاہیے اور علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف چینلز کے ذریعے اپنے دیرپا ثقافتی، جغرافیائی سیاسی، مذہبی اور سفارتی تعلقات کو فروغ دینا چاہیے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے