دہشت گردی کے خلاف جنگ: پاک امریکہ تعاون اور اس کے اثرات [جلد دوم]

دہشت گردی کے خلاف جنگ: پاک امریکہ تعاون اور اس کے اثرات [جلد دوم]

 دو جلدوں پر مبنی زیر نظر کتاب  پاکستان کی سینیٹ میں پروفیسر خورشید احمد کی ان تقاریرکی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے جو دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں تعاون کے ضمن میں پاکستان میں کیے جانے والے فیصلوں اور ان کے اثرات سے بحث کرتی ہیں۔

مصنّف: پروفیسر خورشید احمد
ایڈیٹر: خالد رحمٰن
زبان: اردو
جلد: غیر مجلّد
سال/ایڈیشن: 2021
صفحات: 228
 
978-969-448-797-7آئ ایس بی این:
                                    قیمت: 600 روپے  | 13 ڈالر [امریکہ]
پبلشر: آئی پی ایس پریس

فہرستِ مضامین 

Dehshat-gardi-Volume-02-title

کتاب کا تعارف

دو جلدوں پر مبنی زیر نظر کتاب  پاکستان کی سینیٹ میں پروفیسر خورشید احمد کی ان تقاریرکی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے جو دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں تعاون کے ضمن میں پاکستان میں کیے جانے والے فیصلوں اور ان کے اثرات سے بحث کرتی ہیں۔

جلداول کاپہلا حصہ خارجہ پالیسی کی تشکیل کے تقاضوں کی نشان دہی کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں تعاون کے دوران مختلف مراحل اور پیش آنے والے مختلف واقعات پر عمل درآمد  کے پسِ منظر میں ہے۔ اس حصہ کاپہلا جزو پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ معاملات سے متعلق ہے۔جبکہ دوسرا جزو ان عالمی حالات و واقعات سے متعلق ہے جن  کی وجہ سے پاکستانی حکومت امریکی دباؤ کی بناء پر اپنےمفاد میں اور انصاف کی بنیاد پر اقدام کرنے سے معذور رہی اور یا گریز کرتی رہی۔

جلد دوم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک امریکہ تعاون کے ان اثرات سے بحث کرتی ہے جو براہ راست پاکستان اور پاکستانیوں کے حالات پر اثرانداز ہوئے۔ ان اثرات کا دائرہ یوں تو زندگی کے ہر دائرہ تک پھیلا ہوا ہے کتاب کی جلد دوم داخلی سلامتی اور امن وامان کے امور سے متعلق بحث کرتی ہے۔

اس مجموعی تناظر میں یہ کتاب پاکستان کی سیاست، بین الاقوامی تعلقات اور دہشتگردی اور اس کے خلاف جنگ کے حوالہ سے قانونی اور سیاسی پہلوؤں پر ایک بے حد اہم دستاویز کی حیثیت  رکھتی ہے۔ جو پالیسی سازوں، بین الاقوامی، سیاسی اور دفاعی امورپر نظر رکھنے والے ماہرین اور طالب علموں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنے گی۔

پروفیسر خورشید احمد کی تقاریر اور مضامین پرمشتمل’ ارمغانِخورشید سیریز ‘کے عنوان سے آئی پی ایس  پریس کی یہ   دوسری کتاب ہے۔ اس سیریز  میں  درج ذیل کتب بھی شامل ہیں:

– پاکستان  کی نظریاتی اساس ،نفاذ شریعت  اور مدینہ کی اسلامی ریاست
– دہشت گردی کے خلاف جنگ،پاک امریکہ تعاون اور اس کے اثرات [جلد اول]  
– اسلام اور مغرب کی تہذیبی و سیاسی کشمکش
– آئین – اختیارات کا توازن اور طرزِ حکمرانی
– پاکستانی معیشت کی صورتحال: مسائل ،اسباب اور لائحہ عمل
– آئین پاکستان: انحرافات اور بحالی کی جدوجہد

مصنّف کا تعارف

معروف مدبر و مفکر، سیاستدان، ماہرِاقتصادیات، مصنّف اور محقق پروفیسر خورشید احمد کا شمار ان پاکستانی شخصیات میں ہوتا ہے جو عالمی سطح پر پاکستان اور اُمتِ مسلمہ کے وکیل کی شناخت رکھتے ہیں۔ ان کا ایک بڑا تعارف جماعت اسلامی سے ان کی دیرینہ وابستگی ہے، تاہم وہ ایک ایسے  دانشور اور رہنما  ہیں جن سے فکری اور سیاسی اختلاف رکھنے والے بھی ان کے اخلاص، علمیت اور حب الوطنی کے قائل ہیں۔

پروفیسرخورشیداحمد۱۹۸۵سے۲۰۱۲ تک ایک مختصر وقفہ کے علاوہ ۲۲ سال سینیٹ کے رکن اور۱۹۷۸  میں وزیر منصوبہ بندی اور پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین رہے ۔ ۱۹۷۹ میں آپ نے اسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی بنیاد رکھی اور ۲۰۲۱   تک اس کے چئیرمین کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ آپ  بینالاقوامی اسلامی یونیورسٹی   کے بنیادی ٹرسٹی، مارک فیلڈ انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن،لیسٹر، برطانیہ ،  یونیورسٹی  آف مینجمنٹ سائنسز  لاہور کے بورڈ آف گورنرز اور اسلامک فاؤنڈیشن ، برطانیہ  کے چیئرمین بھیرہے ۔

پروفیسر خورشیداحمد نے اردو ، انگریزی میں سوسے زائد کتب تدوین و  تصنیف  کی ہیں ۔ آپ  کی کتب اور مضامین کو عربی، فرانسیسی، ترکی، بنگالی، جاپانی، جرمن، انڈونیشین ، ہندی ، چینی ، کورین  اور فارسی  کے علاوہ دیگر کئی زبانوں  میں ترجمہ کر کے شائع کیا گیا ۔

پروفیسرخورشید احمد پر ملائشیاء ، ترکی اور جرمنی کی ممتاز جامعات میں پی  ایچ ڈی کے مقالات لکھے گئے ۔ جبکہ ان کی تعلیمی و تحقیقی خدمات کے اعتراف میں ملایا یونیورسٹی ملائشیاء نے ۱۹۸۲میں تعلیم  ،لغبرہ یونیورسٹی (Lough borough) برطانیہ نے  ۲۰۰۳ میں ادب اور   بین الاقوامی اسلامی   یونیورسٹی  ملائشیاء نے ۲۰۰۶ میں انہیں اسلامی معاشیات پر پی ایچ ڈی کی اعزازیاسناد  عطا کی گئیں ۔

پروفیسر خورشید احمد کو معاشیات اسلام میں گراں قدر خدمات انجام دینے پر اسلامی ترقیاتی بنک نے ۱۹۸۹ء میں اپنا اعلیٰ ترین ایوارڈ دیا جبکہ بینالاقوامی سطح پر اسلام  کیلیے خدمات انجام دینے پر سعودی حکومت نے ۱۹۹۰ء میں انہیں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا۔ اسکے علاوہ حکومت پاکستان نے 2010ء میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں  اعلیٰ شہری اعزاز  ’’نشانِ  امتیاز‘‘عطا کیا گیا ۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے