پالیسی پرسپیکٹوز جلد 19، شمارہ نمبر 1

پالیسی پرسپیکٹوز جلد 19، شمارہ نمبر 1

انسٹی ٹیوٹ پالیسی اسٹڈیز کے انگریزی زبان میں شائع ہونےوالےموقر علمی و تحقیقی جریدے”پالیسی پرسپیکٹیو” کے تازہ ترین شمارے میں حالات و واقعات پرتجربہ کار ماہرین تعلیم اور حالات حاضرہ  پر گہری نظر رکھنے والے دانشوروں کے تاثرات  شامل ہیں، جو لوگوں  کو متوجہ کر رہے ہیں اور مستقبل کے ساتھ ساتھ مستقبل بعید کو بھی تشکیل دے رہے ہیں۔

ایڈیٹر انچیف:                  خالد رحمٰن

ایڈیٹر :                       ڈاکٹر عتیق الظفر خان

قیمت (پاکستان):              600 روپے

سالانہ سبسکرپشن:             1000روپے

بیرون ملک قیمت:             60  امریکی ڈالر (فی کاپی)

سالانہ بین الاقوامی سبسکرپشن:   120امریکی ڈالر

 

شمارے کے بارے میں

انسٹی ٹیوٹ پالیسی اسٹڈیز کے انگریزی زبان میں شائع ہونےوالےموقر علمی و تحقیقی جریدے”پالیسی پرسپیکٹیو” کے تازہ ترین شمارے میں حالات و واقعات پرتجربہ کار ماہرین تعلیم اور حالات حاضرہ  پر گہری نظر رکھنے والے دانشوروں کے تاثرات  شامل ہیں، جو لوگوں  کو متوجہ کر رہے ہیں اور مستقبل کے ساتھ ساتھ مستقبل بعید کو بھی تشکیل دے رہے ہیں۔

یوکرین پر روسی حملہ ایک ایسا ہی واقعہ ہے جس نے تزویراتی امور سے لے کر غذائی تحفظ تک کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ حالات حاضرہ کے سیکشن میں، جریدے نے روس اور یوکرین کے نقطۂ نظر کو شامل کیا ہے تاکہ اس تنازعہ کی ابتدا، اس میں پیشرفت  اوراس کے اثرات کو مدنظر رکھا جا سکے۔

پہلامقالہ ”یوکرین میں تنازعہ: علاقائی اور عالمی سیاق و سباق“، یوکرین میں جاری جنگ کے سیاسی تناظر کا تجزیہ کرتے ہوئے روس کا نقطہ نظر پیش کرتا ہے۔ یہ تنازعہ کے تین پہلووں کو سامنے لاتا ہے، جن کی وجہ سے یوکرین میں بحران پیدا ہوا۔ یعنی منسک معاہدے کا بحران، نیٹو کی توسیع، اور ورلڈ آرڈر ۔

مصنف: ڈاکٹر ایوان سفرنچوک

اگلا مقالہ ”روس-یوکرین جنگ: عالمی تبدیلی کا پیش خیمہ“ کیف کا نقطہ نظر پیش کرتا ہے اور یوکرین میں روسی فوجی مہم کے تین مراحل پر بحث کرتا ہے۔ اس کا استدلال ہے کہ دو طرفہ سلامتی اور امن کو یوکرین میں ایک بڑی کشیدگی سے خطرہ لاحق ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بڑےپیمانے پر حملے سے بہت زیادہ فوجی نقصان کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت پر معاشی اثرات مرتب ہوں گے۔

مصنف: الیا کوسا

کرنٹ افیئرز سیکشن  کے بعدتحقیقی مقالات شامل کیے گئے ہیں۔ پہلے مقالے کا عنوان ہے ”آئی او آر میں چین کی تزویراتی پوزیشن“۔ اس میں بحری مسابقت کی نوعیت ، خطے میں طاقت کے توازن، امن اور استحکام پر غور کیا گیا ہے۔ اس میں  استدلال پیش کیا گیا ہےکہ چینی بحریہ کی جدید کاری اسے اپنے اقتصادی اور تزویراتی مفادات کے تحفظ کے لیےآئی او آرمیں ایک متحرک پوزیشن  فراہم کرتی ہے۔ یہ آئی او آرمیں ہندوستان کی بحری بالادستی کے دعوے کو چیلنج کر رہی ہے۔

مصنفہ: ڈاکٹر ملیحہ زیبا خان

اگلے مقالے کا عنوان ہے”چین، ایران، پاکستان، ترکی، کارزاور روس کے درمیان علاقائی توانائی کے وسائل کو مجتمع کرنا“۔ مقالہ میں اس  کی اہمیت کو اجاگر کیا گیاہے۔ یہ ان ممالک کی توانائی کی ضروریات اور صلاحیت کا ان کے جیوسٹریٹیجک مقامات کے تناظر میں جائزہ لیتا ہے۔ ان ممالک میں توانائی کی طلب، صلاحیت اور رسد کو ایک فریم ورک  میں ایک قابل عمل امکان کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان عوامل کی بنیاد پر، مقالے میں ان ممالک کے درمیان توانائی کی تجارت کو پائپ لائن، زمینی اور سمندری راستوں سے جوڑنے کے لیے ’گولڈن رنگ انرجی کوریڈور’ ( جی آر ای سی)کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

مصنف: معاذ الطاف

تیسرےمقالے کاعنوان ہے ”پاکستان میں قابل تجدید توانائی پر مبنی ڈسٹریبیوٹڈ جنریشن“۔ اس میں یہ  دعویٰ  کیا گیا ہے کہ قابل تجدید توانائی  (آرای) قابل اعتماد بجلی کی فراہمی اور ایندھن کی فراہمی کے ذریعے توانائی کی حفاظت کو بہتر بنانے کا متفقہ حل ہے۔ تاہم، پاکستان کے انرجی مکس میں آر ای کا حصہ نمایاں طور پر کم ہے۔ مقالے میں تجویز کیا گیا ہے کہ ڈسٹریبیوٹڈ جنریشن ،پاور سیکٹر کو بجلی کی ترسیل اور تقسیم اور نقصانات کی وصولی میں درپیش مسائل کو حل کر سکتی ہے۔

مصنفین: ایم حمزہ نعیم اور لبنیٰ ریاض

اس شمارے کے تبصرہ سیکشن میں دو اہم موضوعات پر تبصرے شامل ہیں۔ ”پاکستان کے لیے آئی ایم ایف سپورٹ ارینجمنٹ“ کے مختصر تجزیے میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ پاکستان کے طویل ساتھ پر نظر ڈالی گئی ہے۔ یکے بعد دیگرے پاکستانی حکومتیں سخت ملکی حقائق کے باعث آئی ایم ایف سے قرضے کا انتخاب کرنے پر مجبور ہوئیں۔ اس تبصرے میں اقتصادی پائیداری اور متوازن نمو کے امکانات کو دیکھا گیا ہے جو کہ بنیادی طور پر چھٹے جائزے  کے مطابق تجویز کردہ اقدامات اور تخمینوں پر مبنی ہے ۔

مصنف: فصیح الدین

’ہندو نیشنلزم‘ پر اگلے تبصرے میں ہندوتوا کو مرکز بناتے ہوئے فاشزم پر بحث کی گئی ہے۔ مصنف نے اسے موجودہ دور کا فاشزم کہاہے۔اس تبصرے میں پچھلے 100 سالوں میں مختلف سیاسی فاشسٹ نظاموں اور ان حالات کو بیان کیا گیا ہے جن میں بڑے پیمانے پر قتل ہوتے رہے۔ اس میں مختلف دائرہ اختیار میں ہونے والے سانحات کو بے نقاب کرنے اور ان پر بحث کرنے میں سیاسی چناؤ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ بھارت میں مودی کی موجودہ سیاسی تحریک کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ بڑے پیمانے پر قتل  عام کا باعث بن سکتی ہے۔

مصنف: ڈاکٹر راجر وین زوانینبرگ

کتاب کے جائزہ سیکشن میں ثنا ءہارون کی حالیہ اشاعت پرایک تنقیدی بحث کی گئی ہے۔ کتاب کا عنوان ہے، ” نوآبادیاتی جنوبی ایشیا کی مساجد: مسلم عبادت کی سماجی اور قانونی تاریخ“۔ مصنف نے اس کتاب میں مساجد کی سماجی تاریخ  کےاس عہد پر بحث کی ہے جب یہ  علاقہ  نوآبادیاتی دور سے گزر رہا تھا۔

مبصر: ڈاکٹر محمد رضا کاظمی

آخر میں، ”آئی پی ایس میں مکالمہ“ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں ہونے والے کچھ اہم مباحثوں میں زیر غور آنے والے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان میں درجہ ذیل موضوعات شامل ہیں: نئی حکومت کے تحت افغانستان؛ جموں و کشمیر کا متنازعہ علاقہ؛ افریقی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات؛ ایمان، معاشرہ، اور موجودہ مکالمہ؛ اور قومی ترقی کے مسائل۔

مضامین کے مکمل متن تک درجہ ذیل لنک کے ذریعے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے:

https://www.scienceopen.com/search#collection/5059b558-e8e5-4f35-8766-593c996cbc72

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے