پالیسی پرسپیکٹوز جلد ۱۵ نمبر۳

PP-15 no 3

پالیسی پرسپیکٹوز جلد ۱۵ نمبر۳

Title-PP-15-3 

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے انگریزی زبان میں مؤقر علمی و تحقیقی مجلے ”پالیسی پرسپیکٹیوز“ کا تازہ شمارہ (جلد۱۵ نمبر۳) پاکستان اور پاکستان سے باہر قارئین کے لیے دستیاب ہے۔ یہ شمارہ انسٹی ٹیوٹ اور اس سے وابستہ محققین کی حالیہ ابھرتے ہوئے مختلف موضوعات پر تحقیقات کو آپ تک پہنچا رہا ہے۔

یہ شمارہ اہم عالمی نظری مباحثوں کے ساتھ ساتھ عصری اہمیت کے حامل علاقائی اور بین الاقوامی امور پر لکھے گئے تحقیقی مقالات پر مشتمل ہے۔

پہلا آرٹیکل ”یورپ کی نام نہاد مثالی معاشرت (Europe’s Dystopia): بے آسرا اور بچھڑے ہوئے پناہ گزین بچوں کا استحصال“ ڈاکٹر فرحان مجاہد چاک، ایسوسی ایٹ پروفیسر قطر یونیورسٹی دوہا کی تحقیق ہے۔ مضمون میں انہوں نے یورپ میں بے آسرا اور بچھڑے ہوئے پناہ گزین بچوں کے استحصال کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بدقسمتی سے یورپی یونین اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام ہوا ہے اور ہزاروں بچے انتہائی خوفناک استحصال اور لاپرواہی کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔

دوسرا مقالہ ”اسرائیل کے لیے امریکی امداد کا معاملہ“ مالاکنڈ یونیورسٹی خیبرپختونخواہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مرادعلی کا تحریر کردہ ہے جس میں امریکہ کی اسرائیل کو دی گئی اقتصادی و فوجی امداد کا جائزہ لیتے ہوئے یہ پرکھا گیا ہے کیا امریکہ نے کبھی بھی اپنی اس امداد کو صیہونی ریاست کی انسانی حقوق کی کارکردگی سے منسلک کیا ہے؟

اگلا مضمون ”بین الاقوامی اور پاکستانی قانون میں مقدمے کی مکمل سماعت سے قبل کی نظربندی اور اس کی تلافی“۔ آئی پی ایس کے ریسرچ آفیسر توقیر حسین کے تحریر کردہ اس مقالے میں مقدمے کی مکمل سماعت سے قبل کی نظربندی اور اس کی تلافی کے معاملے پر پاکستانی اور بین الاقوامی قانون میں موجود حمایتی اور اختلافی پہلوؤں پر نظر ڈالی گئی ہے۔ مضمون میں مکمل سماعت سے قبل کی نظربندی کو کم سے کم رکھنے اور اس کی زد میں آجانے والے معصوم متاثرین کو معاوضہ فراہم کرنے کے لیے اصلاحات تجویز کی گئی ہیں۔

چوتھا مقالہ ”ہماری جیلیں عقوبت خانے یا بحالی کے مراکز: ایک نظری اور عملی تجزیہ“ پاکستان پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے لٹریچر پر مبنی ایک تحقیقی جائزہ ہے جس میں مجرموں کی اصلاح اور بحالی کے لیے فراہم کردہ ماحول کے نظریاتی اور عملی پہلوؤں میں موجود خلا کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس مقالے کو اسلامیہ کالج پشاور میں سماجیات کے لیکچرار رئیس گل نے تحریر کیا ہے۔

پانچویں مضمون ”پاکستان میں صحت کی دیکھ بھال کا نظام اور طبی بے ضابطگی سے متعلق قوانین“ میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی فیکلٹی شریعہ اور قانون میں پی ایچ ڈی کی طالبہ رخسانہ شاہین نے بیان کیا ہے کہ میڈیکل پریکٹیشنرز پر بھی مجرموں کے زمرے میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے لیکن عدالتیں ڈاکٹروں پر پاکستان پینل کوڈ کے تحت مقدمہ چلانے پر ہچکچاہٹ کا شکار ہیں اور ان کے معاملات کو سول قانون کے تحت ہی دیکھنا چاہتی ہیں۔ اس مضمون میں اس بات پر بحث کی گئی ہے کہ قانون کے موجودہ عملدرآمد اور صحت کی دیکھ بھال کے نظاموں کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے طبی بے ضابطگیوں سے نمٹنے کے لیے ایک الگ قانون وضع کیا جائے۔

چھٹے آرٹیکل کا موضوع ہے ”توانائی کے شعبے میں گھریلو استعمال کے لیے بجلی میں خودکفیل صارفین (Residential Prosumers) کو مرکزی دھارے میں لانے کا عمل“۔ اسے آئی پی ایس کی جونیئر ریسرچ آفیسر نائلہ صالح نے تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے پروزیومر دوست توانائی والے ڈھانچے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے پہلے بجلی پیدا کرنے والے صارفین (Presumption)، شمسی توانائی کی صلاحیت اور رہائشی پروزیومرز کی گنجائش کا تجزیہ کیا ہے۔ پھر انہوں نے ملک میں شمسی تونائی کے پروزیومرز کے لیے موجودہ قانونی ڈھانچے کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے اور آخر میں انہوں نے رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے ایک دوستانہ فریم ورک کی طرف منتقلی کے لیے سفارشات پیش کی ہیں۔

اگلا مضمون ”پاکستان میں LNG/RLNG نظام کا ارتقا اور قومی توانائی سیکورٹی“ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے پی ایچ ڈی سکالر عبدالباسط قریشی کا تحریر کردہ ہے۔ جس کا مقصد پاکستان میں درآمد، مائع کو گیس میں تبدیل کرنے (re-gastification)، فروخت اور مارکیٹنگ کے ماحول میں بہتری لانے کے لیے LNG/RLNG کے ریگولیٹری فریم ورک کا جائزہ لینا ہے۔ اس مقالے میں انرجی کی فراہمی کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ ایل این جی کے حوالے سے سرکاری اور نجی استعمال کا تعلق، قدرتی گیس، مارکیٹ پر سے پابندیوں کا خاتمہ اور اس کا دیگر ذرائع توانائی کی قیمتوں سے موازنہ کیا گیا ہے۔

آٹھواں مقالہ SDC (Sustainable Development Centre)  اسلام آباد کے سینئر ریسرچ فیلو کنور محمد جاوید اقبال اور محمدعرفان خان کا تحریر کردہ ہے۔ اس کا موضوع ہے ”موسم و آب و ہوا سے متعلق حکومتی نظم و ضبط: پاکستان میں پانی کے شعبے میں اختیار کی گئی حکمتِ عملی کے نفاذ میں مضبوط اور کمزور پہلو“۔ مضمون میں FICCP میں بیان کردہ پانی کے شعبے میں اختیار کی گئی حکمتِ عملی سے متعلق پاکستان کی موجودہ موسمیاتی نظم و ضبط کے اقدامات میں وفاقی، صوبائی اور سفارتی سطحوں پر اداروں کے انتظامات کی مضبوطیوں، کمزوریوں، مواقع اور خطرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

نویں مقالے ”پاکستان میں ہوائی اڈے کی نجکاری“ میں دنیا کے دیگر ہوائی اڈوں کے مقابلے میں پاکستان میں ہوائی اڈوں کے بنیادی ڈھانچے کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان کی بہتری کے لیے قیمتی تجاویز بھی دی گئی ہیں۔ مضمون ڈاکٹر ارم بتول اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ مینیجمنٹ سائنسز کومسیٹ یونیورسٹی اسلام آباد ساہیوال کیمپس، ڈاکٹر غلام حسین اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ مینیجمنٹ سائنسز کومسیٹ یونیورسٹی اسلام آباد لاہور کیمپس اور ڈاکٹر محمد عابد اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ مکینیکل انجنیئرنگ کومسیٹ یونیورسٹی اسلام آباد ساہیوال کیمپس کی مشترکہ تحریر ہے۔

دسویں مضمون کا عنوان ہے ”آزاد تجارتی معاہدے اور پاکستان میں ماحولیاتی خرابیاں“۔ یہ مقالہ کومسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ مینیجمنٹ سائنسز کے سربراہ ڈاکٹر انیل سلمان، کومسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد میں گریجویشن کے طالب علم بخت آور سیٹھی، اسی یونیورسٹی کے شعبہ مینیجمنٹ سائنسز کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فہیم اسلم اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے شعبہ گورنمنٹ اور پبلک پالیسی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر طاہر کاہلون کی مشترکہ تحریر ہے۔ انہوں نے پاکستان میں آزاد تجارتی معاہدوں (Free Trade Agreements) اور کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کے اخراج کے درمیان تعلق کو جانچنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تحقیق پالیسی سازوں کو رہنمائی دیتی ہے کہ وہ پالیسی سازی کے مناسب طریقوں کو اپنا کر منفی اثرات کو ختم کریں تاکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کی تجارت کو فروغ مل سکے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پرنٹ ایڈیشن کے ساتھ ساتھ پالیسی پرسپیکٹوز پلوٹو جرنلز کے ذریعے عالمی قارئین کے لیے JSTOR (http://www.jstor.org/journals/polipess) پر آن لائن دستیاب ہے۔ اور Asianet-Pakistan کے ذریعے Factiva اور منسلک بین الاقوامی ڈیٹا بیسز پر بھی دستیاب ہے۔

مزید برآں اس کے دونوں پرنٹ ایڈیشن (شائع کردہ Sage)، Ebsco اور Ovid کی ویب سائٹس کے ذریعے آن لائن اشاریے  International Political Science Abstract (IPSA) کے ڈیٹا بیس میں شامل ہیں۔

 

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے