پالیسی پرسپیکٹو جلد۱۵ نمبر۲

Title-PP15 no2

پالیسی پرسپیکٹو جلد۱۵ نمبر۲

 

Title-PP15 no2

چیف ایڈیٹر:  خالد رحمٰن

جلد: ۱۵

شمارہ نمبر: ۲

صفحات: ۱۵۰

قیمت: ۶۰۰ روپے

سالانہ خریداری:  ۱۰۰۰ روپے

بیرونِ ملک قیمت: ۱۶۰ امریکی ڈالر (فی کاپی)

بیرونِ ملک سالانہ خریداری: ۱۲۰ امریکی ڈالر

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز کے انگریزی زبان میں مؤقر علمی و تحقیقی مجلے ”پالیسی پرسپیکٹو“ کا تازہ شمارہ (جلد۱۵ نمبر۲، ۲۰۱۸) پاکستان اور پاکستان سے باہر قارئین کے لیے دستیاب ہے۔

شمارہ اہم عالمی نظری مباحثوں کے ساتھ ساتھ عصری اہمیت کے حامل علاقائی اور بین الاقوامی امور پر لکھے گئے تحقیقی مقالات پر مشتمل ہے۔

پہلے مقالے کا عنوان ہے ”ریاستوں کے تعلقات میں سائبر دھمکی: امریکہ-روس سائبر کشیدگی کا معاملہ“۔ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز (NUML) اسلام آباد کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ انہوں نے مختصر تجزیہ کرتے ہوئے’سائبردھمکی‘ کو ۲۱ویں صدی کا سب سے جدید اور پیچیدہ خطرہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے سب سےپہلے ریاستوں کے مابین تعلقات میں سائبر دھمکی کی سنگینی کو بیان کیا ہے اور پھر اس بات کی وضاحت کی ہے کہ کس طرح امریکہ کے انتخابی نظام میں روسی سائبر مداخلت نے روس-امریکہ تعلقات پر اثرات مرتب کیے ہیں۔

دوسرا آرٹیکل ”چین بھارت سرحدی تنازعہ ۲۰۱۷ء اور اس کے دوطرفہ تعلقات پر اثرات“ ماریہ قدوس کا لکھا ہوا ہے جو پنجاب یونیورسٹی لاہور میں انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکیشن سٹڈیز میں پی ایچ ڈی سکالر ہیں۔ انہوں نے اس آرٹیکل میں دوحریف ممالک چین اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک ایک سے زیادہ شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں تاہم ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے سرحدی تنازعات کا حل تلاش کرنے سے قاصر ہیں۔ مقالے میں یہ تجاویز دی گئی ہیں کہ دونوں ممالک کو اپنے علاقائی تنازعات کا مستقل حل تلاش کرنا چاہیے کیونکہ یہ صورتِ حال کسی بھی وقت امن کے عمل کو ختم کرسکتی ہے۔

تیسرے مقالے کا عنوان ہے ”بھارت-روس تزویراتی شراکت اور بھارت کا کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن“۔ اسے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کی لیکچرر ثمراقبال بابر، بین اقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے لیکچرر مسعود الرحمٰن خٹک، اور بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ ہیومینیٹیز اور سوشل سائنسز کے سینئرلیکچرر مجاہد حسین سرگانہ نے مشترکہ طور پر تحریر کیا ہے۔ اس مقالے میں پاکستان کے خلاف ہندوستانی فوج کی نظریاتی تبدیلی، بڑے پیمانے پر فوجی جدیدیت اور کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن (CSD) کی عمل پذیری کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس مطالعہ کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

۱۔ پہلے حصے میں جنوبی ایشیا کے تزویراتی جائزے اور CSD کی عمل پذیری کے لیے بھارتی فوج کی منطق پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

۲۔ دوسرے حصے میں بھارت اور روس کے درمیان تزویراتی شراکت پر بحث کی گئی ہے۔

اگلے مقالے کا عنوان ہے:

“Liquidity Management Mechanisms of Islamic and Conventional Finance: A Shariah Appraisal”

یہ مقالہ بھی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی سکالر شیخ رفیع اللہ اور اسی یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عتیق الظفر خان کی مشترکہ تحریر ہے۔ اس میں اسلامی اور روایتی مالیات میں شرعی پہلوؤں سے لیکیوڈیٹی مینجمنٹ میکنزم کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس آرٹیکل میں شریعت کے اصولوں کے تحت چند لیکیوڈیٹی مینجمنٹ ذرائع تجویز کیے گئے ہیں۔ مثلاً

۱۔ کسی بین الاقوامی مالیاتی ادارہ بینک کے اثاثوں کی تعداد پر NCDs جاری کر سکتا ہے۔

۲۔ کوئی بھی کارپوریشن اثاثوں کی بنیاد پر سکوک جاری کرسکتی ہے جسے بین الاقوامی مالیاتی ادارے لیکیوڈیٹی مینجمنٹ مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

اس سے اگلے آرٹیکل کا عنوان ہے”پائیدار اقتصادی ترقی: برآمدات کرنے والی اور برآمدات نہ کرنیوالی پاکستانی فرموں کی کارکردگی پر امکانات کا جائزہ“۔ اسے تحریر کرنے والی میمونہ صدف اور اریشہ اسحاق یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی سیالکوٹ میں اکنامکس کی لیکچرر ہیں اور انہوں نے اس مقالے میں برآمدات کرنے والی اور برآمدات نہ کرنے والی پاکستانی کمپنیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کے درمیان تکنیک اور معیار کے پیمانوں کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے۔ کارکردگی کے اس تجزیے کا مقصد ان کی بھرپور صلاحیت کےلیے اہمیت کی حامل ان کی نشاندہی کرنا ہے جو موجودہ عہد کی عالمی مسابقت اور قومی دھارے میں شمولیت کے لیے اس صنعت میں پائیدار ترقی کے لیے اہم ہیں۔

اگلا مضمون ”پاکستان کے اندر اعلیٰ تعلیم کی ریسرچ میں بہتری“ ڈاکٹر فیاض احمد فیض سربراہ ڈیپارٹمنٹ آف ہیومینیٹیز، کومسیٹس (COMSATS) انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی؛ پروفیسر ڈاکٹر عدنان سرور خان سربراہ شعبہ بین الاقوامی تعلقات NUML یونیورسٹی اسلام آباد اور ڈاکٹر عنایت کلیم انچارج بین الاقوامی تعلقات پروگرام کومسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اسلام آباد کی مشترکہ تحریر ہے۔ اس مقالے میں پاکستان کے اندر اعلیٰ تعلیم میں بہتری لانے کے لیے تجاویز دی گئی ہیں۔ اس مطالعہ کے اعدادوشمار چھ یونیورسٹیوں سے ۶۵۵فیکلٹی کے ارکان سے ایک ایسے سوالنامے کے ذریعے جمع کیے گئے ہیں جس میں سوالنامے سےہٹ کر ان کی اپنی آراء کی گنجائش بھی موجود تھی۔

اس کے بعد کا مضمون ”شمالی وزیرستان کی بحالی“ بھی ایک مشترکہ تحریر ہے جس کے لکھنے والوں میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن کے پی ایچ ڈی سکالر نوید یوسف، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ گورنمنٹ اینڈ پبلک پالیسی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد بشیر خان اور اسی یونیورسٹی کے شعبہ گورنمنٹ اینڈ پبلک پالیسی کے اسسٹنٹ پروفیسر شہزاد حسین شامل ہیں۔ مقالے میں بیان کیے گئے موقف کے مطابق جنگجوؤں کے متاثرہ علاقے کو بحال کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیے گئے مالی اور انسانی وسائل کے باوجود ابھی تک کوئی فائدہ مند نتائج حاصل نہیں پائے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ترقیاتی سرگرمیوں میں شامل تمام شراکت دار منظم نہیں ہیں اور نہ ہی جنگ اور فساد کی زد میں کرنے والے زمینی حقائق کا سامنا کسی منصوبہ سے کیا جا رہا ہے۔ لوگوں اور علاقے کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے حقیقی صورتِ حال کو ذہن میں رکھ کر ایک مضبوط ترقیاتی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔

ان مضامین کے بعد آئی پی ایس پریس کی مطبوعہ کتاب“Awakened China Shakes the World and is now Pakistan’s Mainstay” پر ڈاکٹر محمدرضا کاظمی کا تبصرہ شامل کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ایمبسیڈر (ریٹائرڈ) محمد یونس کی تحریر کردہ ہے جو وہ پاکستانی سفارت کار ہیں جنہوں نے پاکستان اور چین کے درمیان تاریخی تعلقات کو قائم ہوتے دیکھا، ان تعلقات کی بنیادیں ڈالنے میں بھرپور کردار ادا کیا اور اس سارے عمل کے عینی شاہد رہے۔

یہ کتاب مصنف کے ۸۲-۱۹۵۳ء تک کے شاندار سفارتی دور کی بھرپور یادداشتوں اور تجربات کا ایک بصیرت افروز دلچسپ قصہ ہے۔

آئی پی ایس میں ہونے والے ایسے بہت سے سیمیناروں کا مختصر خلاصہ بھی اس شمارے کا حصہ ہے جو پچھلے چند ماہ میں ہوئے، ان میں ”پاکستان میں اعلیٰ تعلیم: مقاصد، رجحانات اور امکانات“، ”پاکستان-ایران تعلقات“، ”کشمیر: آج اور کل“، ”پاکستان میں پٹرولیم E&P کا مقام: مستقبل کی حکمتِ عملی پر غوروخوض“، ”چوتھا صنعتی انقلاب: پاکستان کے لیے“، ”تعلیمی ڈائیلاگ فورم: پاکستان کے ۷۰سال-تعلیم کے لیے قومی ایجنڈا“، ”پاکستان کی قومی تعلیمی پالیسی (۲۰۱۷ء) کے مسودے کا جائزہ اجلاس“، ”کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں: ایک آگاہی“، ”پاکستان میں افغان مہاجرین پر پالیسی مباحثہ“، ”پاکستان اور اس کے پڑوسی: ایک خارجہ پالیسی تجزیہ“، ”چوتھے صنعتی انقلاب کے محرکات: پاکستان کے لیے مواقع“، ”تکثیریت بمقابلہ اخراجیت: بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کا جائزہ“، ”میڈیا کے رجحانات، پاکستان میں میڈیا کا انداز اور اس کے اثرات“، ”ابھرتا ہوا علاقائی اور عالمی منظرنامہ: ایرانی نقطۂ نظر“، اور ”پانی پر قومی پالیسی: ایک جائزہ“۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے