پاکستان اور چین کے تعلقات کی راہ میں حائل عالمی، علاقائی اور ملکی چیلنجز کے ساتھ مستعدی سے نمٹا جا سکتا ہے: آئی پی ایس

پاکستان اور چین کے تعلقات کی راہ میں حائل عالمی، علاقائی اور ملکی چیلنجز کے ساتھ مستعدی سے نمٹا جا سکتا ہے: آئی پی ایس

اس وقت ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر تبدیل ہوتے ہوئے منظرنامے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ مناسب غور و فکر کے ساتھ ایک فعال، حل پزیر اور مستقبل پر مبنی نقطۂ نظراپنایا جائے تاکہ پاک چین تعلقات میں موجودہ چیلنجز اور مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے  ان سے نمٹا جا سکے اور اس کے ساتھ ساتھ  پالیسی کمیونیکیشن کو استحکام دیتے ہوئے سی پیک منصوبوں کی حفاظت کی جا سکے۔

 ان خیالات کا اظہار 7 جولائی 2022 کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں منعقدہ ایک  اجلاس میں کیا گیا، جس سے آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن اور آئی پی ایس کے سینئر ریسرچ فیلو ڈاکٹر سیف الرحمٰن ملک نے خطاب کیاجبکہ دیگر شرکاء میں آئی پی ایس کی ریسرچ ٹیم اور ایسوسی ایٹس شامل تھے۔

 خالد رحمٰن نے برکس (بی آر آئی سی ایس) اجلاس اور سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کے سیاسی بیورو کے رکن اور چین کے مرکزی کمیشن برائے خارجہ امور کے ڈائریکٹر یانگ جیچی کے دورہ سے متعلق پاک چین تعلقات کی موجودہ صورتحال کا ایک جامع جائزہ پیش کیا۔ گفتگومیںپاک چین تعلقات میں موجود توازن کے بگاڑ، سی پیک، سی پیک کو متاثر کرنے والے سیاسی منظر نامے، سلامتی کے مسائل اور  ان عوامل  میں عالمی سیاست کا کردار زیرِبحث رہا۔

 انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں پاک چین تعلقات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ  ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پاک چین تعلقات مضبوط، ہمہ گیر اور گہرے اعتماد پر مبنی ہیں۔ یہ اس لیے اہم ہے کہ بین الاقوامی پالیسیاں مفروضوں کے ذریعے بنائی اور چلائی جاتی ہیں۔

باہمی تعاون اور مدد کی بنیاد  پر مبنی پاک چین تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ پاکستان نے مختلف مواقع پر چین کی حمایت اور مدد کی ہے۔ لیکن اب چین اہم عالمی طاقتوں میں سے ایک کے طور پر ابھر رہا ہے جس سےیہ توازن بدل گیا ہے۔ اگرچہ پاکستان اب بھی چین کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ہے اور دونوں ممالک ہمیشہ کی طرح ’آہنی بھائی‘ رہیں گے۔ تاہم  اس وقت عالمی معاملات میں فوائد اٹھانے کا معاملہ کمزور ہوا ہے۔

 ان کا خیال تھا کہ بیلٹ اینڈ روڈ جیسے منصوبوں سمیت ترقیاتی اقدامات کے آغاز اور  140 سے زائد ممالک کو اس سے براہ راست منسلک کرنے کی وجہ سے چین کے لیے کئی نئے راستے کھل گئے ہیں۔ اگرچہ سی پیک، جو کہ بی آر آئی انیشی ایٹو  کا اہم منصوبہ ہے، پاکستان میں سیاسی افراتفری کے دورمیں شروع کیا گیا تھا۔ تاہم ،اس کے ابتدائی سال کامیاب رہے۔ لیکن فیصلہ سازی، دائرہ کار، رفتار اور اعلیٰ سطحی تعاملات، حکومت میں تبدیلی کی وجہ سےتوجہ اور ترجیہات میں تبدیلی  کا شکار ہوئے اورجس کے باعث یقیناً بدمزگی  بھی پیدا ہوئی۔

پاکستان میں  2022 کے وسط  تک سیاسی منظر نامہ تیزرفتاری سے تبدیل ہوا۔ تاہم موجودہ حکومت نےسی پیک کے لیےجذبے کو  تازہ کرنے، اس کی رفتار کو بحال کرنے اورسی پیک اور اس سے متعلقہ ترقیاتی منصوبوں کی راہ میں کسی بھی رکاوٹ کو دور کرنے کےلیے اپنے ارادے کی پختگی کا اظہار کیا ہے۔ تاہم موجودہ حکومت کی مدت اور اس کی پالیسیوں پر سوالات اٹھے ہوئے ہیں جو کچھ وقت گردش کرتے رہیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بڑھتی ہوئی پولرائزیشن سیاسی افراتفری کی بنیاد بنتی ہے جو کہ بین الاقوامی سطح پر تعاملات اور معاملات کو  متاثر کرتی ہے، جس کی وجہ سے آئی ایم ایف جیسے اداروں پر انحصار بڑھتاہے اور اس سب کا مطلب امریکہ پر انحصار ہے۔

 پاک چین تعلقات کے تناظر میں ایک  انتہائی اہم مسئلہ ترقیاتی منصوبوں بالخصوص سی پیک میں مصروف چینی شہریوں کی حفاظت کاہے۔ پاکستان میں چینی شہریوں کو نشانہ بنانے کے واقعات چینی حکومت کے لیے تشویش کا باعث رہے ہیں اور پاکستان کی جانب سےمختلف منصوبوں میں مصروف چینی کمپنیوں اور کارکنوں کے لیے اٹھائے گئے خصوصی حفاظتی انتظامات پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔

 بین الاقوامی منظر نامے میں دیگر بیرونی عوامل کے علاوہ، ہندوستانی محرکات اور چالوں کی طرح، یوکرین-روس تنازعہ بھی اسی سے متعلق ہے ۔ اس سارے ماحول نےعالمی سطح پر نئی نوعیت کی  سیاسی اور اقتصادی جہتوں کو جنم دیا ہے۔ یہ وہ بدلتا ہوا منظر نامہ ہے جوجہاں ایک طرف کچھ مواقع پیدا کررہا ہے وہاں اس نےنئے چیلنجز بھی پیش کیے ہیں اور تمام متعلقہ فریقوں کو نئی سوچ کی راہ پر بھی ڈال دیا ہے۔

 اس  پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن نے  اپنے خیالات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر کچھ زمینی حقائق اور فیصلہ سازی کے تکنیکی پہلوؤں کو دیکھا جائے تو برکس اجلاس میں پاکستان کی عدم شرکت کوبہت زیادہ تشویش کا معاملہ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ پاکستان میں تسلسل سےتبدیل ہوتےمنظر نامے نے اسلام آباد کو پریشان کن صورت حال سےدوچار کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے طرزِحکمرانی اور ترقیاتی ماڈلز کے درمیان جو فرق ہے، اس میں میں کچھ ایسے عوامل  موجودہیں جنہیں آگے بڑھتے ہوئے پیش نظر رکھنا چاہیے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ باہمی اعتماد جو گہرے اور پائیدار تعلقات کی بنیاد ہوتا ہے، اس کا تحفظ کیا جانا چاہیے اور اسے پاک چین تعلقات کا کلیدی ایجنڈا بنانا چاہیے۔

ڈاکٹر سیف الرحمٰن کا خیال تھا کہ برکس سربراہی اجلاس  میں پاکستان کی شرکت کا راستہ روکنے کا افسوسناک  واقعہاور یانگ جیچی کا دورہ   اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان کے اندرونی حالات علاقائی اور عالمی  حالات پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔

انہوں نے جیچی کے دورے کو اس لحاظ سے منفرد اور اہم گرداناکہ اس نے پاکستان کو چین کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھایا ہے اورمشترکہ مستقبل کے وژن کو تقویت دی ہے۔

 انہوں نے تصدیق کی کہ پاکستان نے سی پیک اوردیگر ترقیاتی منصوبوں میں مصروف چینی افراد کے تحفظ کے لیے  دو خصوصی سیکیورٹی ڈویژنز قائم  کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو یہ یقینی بنانا چاہیے  کہ وہ  ملک میں کام کرنے والے چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔

 انہوں نے کہا کہ پاکستان کو تین اہم امور یعنی گڈ گورننس، امن و امان اور توانائی کی حفاظت کے لیے اپنی پالیسیوں میں موجودخامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ مزید یہ کہ پاکستان کو روس یوکرین تنازع جیسے بین الاقوامی  واقعات کے نتیجے میں  سامنے آنے والےمنظرناموں کے نتائج سے سبق سیکھنا چاہیے۔

 آخر میں انہوں نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو بین الاقوامی سیاست میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے ایسے اقدامات اٹھانےچاہییں جو ملکی، علاقائی اور عالمی میدانوں میں پالیسیوں کی تشکیل نو اور خارجہ پالیسی میں ایک مضبوط نقطہ نظر اپنانے کا سبب بن سکتے  ہیں۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے