’گرینڈ ایتھوپین رینائسنزڈیم پر سیاست: ایک باہمی تعاون کے انتظام کے فریم ورک کی ضرورت‘

’گرینڈ ایتھوپین رینائسنزڈیم پر سیاست: ایک باہمی تعاون کے انتظام کے فریم ورک کی ضرورت‘

ایتھوپیا ڈیم کے ذخیرہ کو بھرنا قانونی طور پر جائز ہے اگر اس کے بعد پانی کی مساوی تقسیم ہو

پانی کی تقسیم کا دیرینہ تنازعہ اور ایتھوپیا اور مصر کے مسابقتی مفادات کا جب تک کوئی حل تلاش نہ کیا جائےاس وقت تک افریقہ کےغیر مستحکم رہنے کے امکانات موجود رہیں گے۔ ریاستوں کے مفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو روکنے کا ایک حل پانی کی معقول اور مساوی تقسیم ہے جس کا رازقانون کے راستے پر چلتے ہوئےگفت و شنید جاری رکھنے اور باہمی تعاون میں مضمر ہے ۔ اس طرح پانی کے انتظام کےلیے طریقہ کار کی تشکیل ممکن ہو جاتی ہے۔

یہ گفتگو 25 اکتوبر 2022 کو آئی پی ایس میں منعقدہ ایک اجلاس میں کی گئی جس کا عنوان تھا ’دی پالیٹیکس اوور دی گرینڈ ایتھوپین رینائسنزڈیم :نیڈ فار اے کولیبوریٹڈ مینیجمنٹ فریم ورک‘ ۔

اجلاس سے جن افرد نے خطاب کیا ان میں ایمبیسیڈر (ر) سید ابرار حسین، وائس چیئرمین آئی پی ایس؛ ایمبیسیڈر (ر) غلام دستگیر؛ ایمبیسیڈر (ر) مشتاق علی شاہ؛ مرزا حامد حسن، سابق وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی اور آئی پی ایس کے سینئرریسرچ فیلو؛ اشفاق محمود’ سابق سیکرٹری پانی و بجلی؛ سید ابو احمد عاکف، سابق وفاقی سیکرٹری اور سینئر ریسرچ فیلو آئی پی ایس؛ امینہ سہیل، توانائی کی وکیل؛ فرزانہ یعقوب، جنرل سیکرٹری آئی پی ایس ورکنگ گروپ برائے کشمیر؛ اور نوفل شاہ رخ، جی ایم آپریشنزآئی پی ایس شامل تھے۔

ایمبیسیڈر (ر) غلام دستگیر نے بتایا کہ ایتھوپیا بمقابلہ مصر اور پھرسوڈان کے درمیان دریائے نیل پرگرینڈ ایتھوپین رینائسنزڈیم کے ذخیرہ کو بھرنے پرجو سیاسی تنازعہ پیدا ہوا ہے اس نےان علاقائی ریاستوں کے درمیان تعلقات میں تعطل کی صورتحال پیدا کر دی ہے جو بروقت حل نہ ہونے کی صورت میں مزید بڑھنے کے باعث افریقی براعظم کو غیر مستحکم کر سکتی ہے۔

پانی کی وجہ سےعالمی سطح پر ہونے والے تناو کی حقیقت کو باور کرواتے ہوئے ایمبیسیڈر (ر) مشتاق نے بالخصوص مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں پانی کی سلامتی کو درپیش خطرات کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا کہ ریاستوں کواس مسئلے کے حل کے لیےثالثی کی پیشکش کرتے وقت اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ گرینڈ ایتھوپین رینائسنزڈیم کا مسئلہ ایتھوپیا اور مصر دونوں کے لیےبقا کا سوال ہے۔

اسی سلسلے میں بات کوجاری رکھتے ہوئےانہوں نے کہا کہ پاکستان کوبھی بین الاقوامی قانون کے اصول و ضوابط کے مطابق پالیسی اپروچ تیار کرنی چاہیے، جن میں کہا گیا ہے کہ دریا کی نچلی طرف کی ریاستوں کو پانی میں حصہ داری کا حق حاصل ہونا چاہیے جب کہ اوپری دریا کی ریاستوں کو پانی کے استعمال کا حق حاصل ہے تاہم انہیں پانی کی تقسیم کو ہر ممکن حد تک معقول اور منصفانہ رکھنا چاہیے۔

اس حوالے سے اشفاق محمود نے کہا کہ تنازعہ کی بنیادی وجہ ڈیم کی بھرائی اور پانی کی تقسیم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ تینوں ریاستوں کو مل بیٹھ کر پانی کی تقسیم کا فیصلہ کرنا چاہیےجبکہ پاکستان اس معاملے میں ظاہری طور پر ملوث ہونے کی بجائے تصفیہ اور معقول حل کے حامی کے طور پر کام کر سکتا ہے۔

اس کی توثیق کرتے ہوئےامینہ سہیل نے کہا کہ پاکستان کو ایک مددگار کے طور پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور ریاستوں کو باہمی رضامندی اور پانی کی مساوی تقسیم کے لیے مفاہمت پیدا کرنے میں مدد کرنی چاہیے۔

اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئےسید عاکف نے کہا کہ پاکستان کو پہلے اپنے سفارتی مفادات پر غور کرنا چاہیے اور اس کے بعدبنیادی سفارتی مقاصد کے تحت کوئی کردار ادا کرنا چاہیے۔

فرزانہ یعقوب نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو ایک امن پسند قوم کے طور پراپنا کردار ادا کرنا چاہیے چاہے طاقت ور ریاستیں پیچھے ہی کیوں نہ ہٹ جائیں ۔ مزید برآں، پاکستان کسی حل تک پہنچنے کے لیے متعلقہ ریاستوں کے ساتھ ڈیٹا شیئرنگ اور مہارت کے تبادلے پربھی کام کر سکتا ہے۔

مزید برآں، مقررین نے کہا کہ اس کا حل افریقی یونین(اے یو)کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اگرچہ افریقی یونین اپنے وسائل کی رکاوٹوں اور چند ریاستوں کے سیاسی غلبے کی وجہ سے کم سے کم اثر و رسوخ کا حامل نظر آتا ہے، لیکن یہ اب بھی ایتھوپیا اور مصر کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کر سکتا ہے تاکہ باہمی تعاون کےطریقہ کارپر چل کراور پانی کی تقسیم کے انتظامات کے ذریعے مسئلے کو حل کیا جا سکے۔

موجودہ مسئلے کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے،مرزا حامد نے کہا کہ مصر کو غیر منصفانہ طور پر پانی کا بڑا حصہ مل رہا ہے اور اسوان ڈیم کی تعمیر کے وقت اس نے کبھی بھی دریا پر آنے والی دیگر ریاستوں سے اجازت نہیں لی۔ جبکہ دوسری طرف،تکنیکی ذرائع کی کمی کی وجہ سے ایتھوپیا تاریخی طور پردریائے نیل کے پانی کوآبپاشی کے مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں ناکام رہا ہے،جو کہ85٪ اس کی زمین سے نکلتا ہے۔

تاہم، دریائے نیل کے پانی کی تقسیم کی طویل تاریخ میں اب طاقت کا توازن تبدیل ہو گیاہے۔ اب ایتھوپیا کی طرف سے گرینڈ ایتھوپین رینائسنزڈیم میں سرمایہ کاری کرنے کی صلاحیت اوراس سے آبپاشی، ہائیڈرو الیکٹرک اور دیگر فوائد حاصل کرنے کی کوشش نےماحول کو تبدیل کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بنیاد پر ایتھوپیا کی طرف سے ڈیم کی تعمیر اوراس کے ذخیرہ کو بھرنا اس وقت تک قانونی لحاظ سے جائز ہےجب تک وہ دریا کی نچلی طرف آنے والی ریاستوں کو پانی کے معقول اور مساوی حصے سے محروم نہیں کرتا ہے۔ یہ معیار ہیلسنکی کے قوانین اور اقوام متحدہ کے کنونشنز میں بیان کیا گیا ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہر فریق کے لیے کامیابی پانی کی تقسیم پر تعاون اور اس کے انتظامات میں مضمر ہے۔ اس تعاون کو آسان بنانے کے لیے ایک مشترکہ کمیشن کی ضرورت ہے تاکہ آبی وسائل کے انتظامات پر عمل داری کا طریقہ کار،مسئلے کی وضاحت، فوائد کی وضاحت، ہمہ جہت ریاستی تعاون، عمل درآمد میں کمیونٹی کی سطح پر شرکت، بات چیت اور ڈیٹا شیئرنگ کو آسان بنایا جا سکے۔

پاکستان کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے ابرار حسین نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے اس مسئلے کے لیے ایک عمومی پالیسی اپروچ ہونی چاہیے جس کی بنیاد پر بات چیت کے ذریعے حل کی حوصلہ افزائی کی جائے اور پانی کی منصفانہ تقسیم کی حمایت کی جائے۔ اور اگر پاکستان متعلقہ ریاستوں کی رضامندی سے ایک فعال ثالثی کا کردار ادا کرتا ہے تو اسے اپنے قومی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے تجربات اور مہارت کا اشتراک کرنا چاہیے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے