’2030 سولر اینڈ ونڈ روڈ میپ فار پاکستان:ایکسیلی ریٹنگ دی ڈویلپمنٹ آف ونڈ اینڈسولر پاور بیونڈکرنٹ گورنمنٹ پلانز‘

’2030 سولر اینڈ ونڈ روڈ میپ فار پاکستان:ایکسیلی ریٹنگ دی ڈویلپمنٹ آف ونڈ اینڈسولر پاور بیونڈکرنٹ گورنمنٹ پلانز‘

پاکستان  میں قابل تجدید توانائی  سے متعلقہ حکام اور ماہرین  کاپاور سیکٹر کو ڈی کاربنائز کرنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال

قابل تجدید توانائی کے حکام اور ماہرین نے ایک بین الاقوامی ویبینار میں نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)  کی طرف سےانڈی کیٹو جینریشن کیپسٹی ایکسپینشن پلان( آئی جی سی ای پی ) 2022-31 کے تحت تیار کردہ ’ 2030  سولر اینڈ ونڈ روڈ میپ فار پاکستان‘  کا جائزہ لیا اور اس پر تبادلہ خیال کیا۔ ’2030  سولر اینڈ ونڈ روڈ میپ فار پاکستان: ایکسیلی ریٹنگ دی ڈویلپمنٹ آف ونڈ اینڈ سولر پاور بی اونڈکرنٹ گورنمنٹ پلانز‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والے اس ویبینار کااہتمام  اگورا انرجی وینڈے، جرمنی اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس )نے مشترکہ طور پر 1 مارچ  2023کو کیا تھا۔

مقررین میں شاہ جہاں مرزا، سی ای او، متبادل توانائی ترقیاتی بورڈ(اے ای ڈی بی)؛ علی زین بنات والا، ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر، نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈیسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی)؛ ٹوبیاس مارز، جرمن ماحولیاتی کارکن اور ’8.2 قابل تجدید توانائی کے ماہرین سے وابستہ شمسی توانائی کے انجینئر؛ حسن جعفر زیدی، سی ای او، پاور پلانرز انٹرنیشنل (پی پی آئی)؛ نائلہ صالح، پراجیکٹ مینیجر، اگورا انرجی وینڈے اور لبنیٰ ریاض،تحقیق کار، توانائی، پانی اور موسمیاتی تبدیلی پروگرام، آئی پی ایس شامل تھے۔

شاہ جہاں مرزا نے متبادل اور قابل تجدید پالیسی 2019 کے تحت قابل تجدید توانائی کے حصول کےلیے  حیاتیاتی ایندھن پر انحصار  کم کرنے اور پاور سیکٹر کی ڈی کاربنائزیشن کے ذریعے مقررہ اہداف  حاصل کرنے میں حکومت کےاس عزم کا اعادہ کیا جس کا مقصد قابل تجدید توانائی کے حصہ کو 30 فیصد تک بڑھا ناہے۔

حکومت قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو اختیار کرنے کے لیےجنگی بنیادوں پر متحرک ہے۔ اس کے علاوہ، سولر پی وی پر مبنی بہت سے  میگا سکیل  اورڈسٹریبیوشن جنریشن کے منصوبے پائپ لائن میں ہیں اور اے ای ڈی بی ان پر بروقت عمل درآمد کے لیے پرعزم ہے۔

قابل تجدید توانائی کےحصے کو بڑھانے کے حکومتی وژن پر روشنی ڈالتے ہوئے بنات والانے کہا  کہ قابل تجدید توانائی کا گرڈ کے ساتھ انضمام وقفوں کے باعث گرڈ کے نظام میں مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ تاہم، انہوں نے کہاکہ این ٹی ڈی سی قابل تجدید توانائی کے حصول کے لیے موجود منظرناموں کا تفصیلی تجزیہ کر نے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے جن میں پاور سیکٹر میں جلد از جلد ڈی کاربنائزیشن کی اجتماعی کوششیں بھی اہم پہلوہیں۔

اس شعبے کےماہرین نے ’8.2 قابل تجدید توانائی کے ماہرین‘ اور ’پاور پلانرز انٹرنیشنل‘ کے ذریعہ تیار کیے گئے ایک پرجوش سولر اینڈ ونڈ روڈ میپ کے نتائج پر تبادلہ خیال کیا جس میں آئی جی سی ای پی میں سامنے رکھے گئے حکومتی اہداف سےبھی آگے بڑھتے ہوئے شمسی توانائی کی ترقی کو تیز تر کرنے کے لیے سفارشات پیش کی گئی ہیں۔

”بی اونڈ آئی جی سی ای پی2022 “ کے عنوان سے ہونے والی اسٹڈی  میں پاکستان کے لیے 10 سالہ جنریشن ایکسپینشن پلاننگ کا جائزہ لیتے ہوئے یہ سوال اٹھایا گیا ہے  کہ کیا 31/2030 تک سولر  اینڈونڈ  پاور (وی آر ای)کا مزید پرجوش پیچھا کرنا ممکن اور فائدہ مند ہوگا۔ سال 2030 کے فی گھنٹہ کی ترسیل کی بنیاد پر، یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ منصوبہ کے مطابق طے شدہ کل وی آر ای صلاحیت کو جی ڈبلیو20 سے 2030 تک جی ڈبلیو 33 تک بڑھانا معمولی گرڈ انفراسٹرکچر کو مزید تقویت دینے سے ممکن ہو گا۔ مزید برآں، اس سے توانائی کی پیداوار کے کل اخراج میں 50 فیصد اور توانائی کی پیداوار کی اوسط لاگت میں 15 فیصد کمی آئے گی۔اسٹڈی میں تجویز  کیا گیا  ہے کہ جب آئی جی سی ای پی کا اعادہ کیا جائے(جوجون 2023 تک ہے)تو یہ مزید  بلند نظرہدف  اس میں شامل کیا جائے، سڑک کے بنیادی ڈھانچے کی اسٹریٹجک اہمیت ( جس میں بلوچستان  کے اندر چاغی تک کاایچ وی ڈی سی لنک شامل ہے) پرپوری توجہ دی جائے،ہائیڈرو اور کوئلے کے یونٹوں کو چلانے کے لیے بھرپور توجہ دینے کے  ساتھ ساتھ اگلے دس سالوں کے دوران 33 گیگا واٹ سولر اور ونڈ پاور سے پیدا ہونے والی بجلی کی نیلامی کے لیے ایک سخت اور مقامی سالانہ ٹینڈر پلان پر عمل درآمد کیا جائے۔

صالح نے توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ اس  سارےمنظر نامے میں روف ٹاپ سولر سسٹم میں بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے اور یہ پائیداری، فراہمی میں حفاظتی پہلوؤں اور قابل استطاعت ہونے میں کافی کامیاب ہے۔پاکستان کے لیے، روف ٹاپ سولربہت شاندارہے کیونکہ یہ مقامی توقعات کو پورا کرنے، ادائیگی کے بوجھ اور ترسیل اور تقسیم میں نقصانات کو کم کرنے، اور دن میں بھرپور استعمال کےاوقات   میں بوجھ ہلکا کرنے میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔

انہوں نے اس ضمن میں مناسب کاروباری ماڈل کو ڈیزائن کرنے کی ضرورت پر زور دیا جو اس کام میں شامل اسٹیک ہولڈرز کے لیے ایک قابل عمل کاروبارکو یقینی بنائے اور سماجی و تکنیکی نظام میں موجودہ چیلنجوں سے نمٹنے کا سلیقہ دے، جیسا کہ اعلی پیشگی لاگت، مالی معاملات کےمسائل، ریگولیٹری خلا، اور سہولت کار تنظیمی، کاروباری اور مالیاتی ماڈلز کی کمی۔

ریاض نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کمیونٹیز کی سماجی و اقتصادی ترقی کا انحصار توانائی تک رسائی پر ہے۔ آف گرڈ علاقوں میں گرڈ انفراسٹرکچر کو بڑھانا، جس میں تقریباً 50 ملین آبادی رہتی ہے، ایک گھمبیر مسئلہ بنی ہوا ہے، لہٰذا منی اور مائیکرو گرڈز (ایم جیز) الیکٹریفکیشن کے لیے ایک سازگار آپشن فراہم کرتے ہیں۔

یہ گرڈ اسٹینڈ اسٹون اور گرڈ سسٹم میں ایک درمیانی راستہ فراہم کرتے ہیں کیونکہ یہ خود مختار بجلی کے نیٹ ورکس کی طرح کام کرتے ہیں جو قومی گرڈ سے الگ کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اس سے دیہی معاش میں بہتری آئے گی اور مقامی مصنوعات اور خدمات میں قدر پیداہونے کے باعث مقامی کاروبار میں اضافہ ہوگا۔ مزید برآں،  آر ای کے غالب ایم جیز  روایتی فوسل فیول پر مبنی جنریشن کے مقابلے میں بہت زیادہ مالی امکانات پیش کرتے ہیں۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے