’انڈس واٹر ٹریٹی ثالثی – پانی کی تقسیم پر جنگ‘

’انڈس واٹر ٹریٹی ثالثی – پانی کی تقسیم پر جنگ‘

ماہرین کا پاکستان پرسندھ طاس معاہدے میں ترمیم کی بھارتی کوششوں کا  مقابلہ جارحانہ انداز میں کرنے پر زور

سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کی بھارتی کوششیں ناکام ہو جائیں گی کیونکہ بھارت کی تجویزکردہ ترامیم اس معاہدے میں پہلے سے موجود  ہیں۔البتہ  معاہدے کو غیر موثر بنانے کی بھارتی کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو قانونی بنیادوں پر مبنی اپنا موقف  بھرپور طریقے سے اجاگر کرنا ہو گا۔یہ خیالات مقررین نے 13 فروری 2023 کوانسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ، اسلام آباد میں منعقدہ ‘انڈس واٹر ٹریٹی ثالثی – پانی کی تقسیم پر جنگ’ کے عنوان سے  ہونے والی ایک گول میز کے دوران پیش کیے ۔

اجلاس سے کلیدی مقرر کے طور پر سابق وفاقی سیکرٹری وزارت پانی و بجلی  مرزا حامد حسن نے خطاب کیا جبکہ چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن ، سابق وفاقی سیکرٹری وزارت پانی و بجلی اشفاق محمود ، سابق وفاقی سیکرٹری اور آئی پی ایس کے سینئر ریسرچ فیلو سید ابو احمد عاکف ، سینٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ سٹیبلیٹی (سِپس)، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی(نسٹ) کے  ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر فیاض حسین شاہ ،  آبی مسائل کے ماہر ڈاکٹر بشیر لاکھانی،  اور قانونی ماہر امینہ سہیل بھی بحث میں شامل تھے۔

سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کے حوالے سے دو طرفہ مذاکرات کے لیے ہندوستان کے دباؤ پر روشنی ڈالتے ہوئےمرزا حامد حسن نے کہا کہ ہندوستان پہلے ہی اپنے آبی منصوبوں کو اونچی سطح کے ذخیروں کے ساتھ ڈیزائن کر رہا ہے اور دریاوٴں کے بہاؤ پر اس معاہدے کے تحت دی گئی  اجازت سے زیادہ روک لگا رہا ہے۔ علاوہ ازیں، ہندوستان نے بگلیہار ڈیم میں سِلٹ ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے غیرجانبدار ماہرین کا فیصلہ تو برقرار رکھا، لیکن عالمی ثالثی عدالت کا 2013 کا فیصلہ نظر انداز کر دیا جس میں پانی کے اضافی ذخیرے کے لیے سِلٹ ٹیکنالوجی کا استعمال ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ یوں بھارت سندھ طاس معاہدے کے ساتھ ساتھ پانی کی تقسیم کے دیگر بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

انہوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے لیے مختص تین مغربی دریاؤں پر کنٹرول حاصل کرنے کی مذموم ہندوستانی کوششوں کی بھی مذمت کی ۔ مزید برآں ان کا کہنا تھا کہ چونکہ مغربی دریاؤں کا پانی پاکستان کی بقا کا معاملہ ہے، اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان یہ مسئلہ اٹھانے میں پہل کرے اور اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے اپنا موقف پیش کرے۔

پاکستانی حکومت  اپنے حصے کے پانی پر کنٹرول  حاصل کرنے کی بھارتی کوششوں کی مزاحمت کرے،  اور زیریں پانیوں کی حامل زرعی ریاست کے طور پر اپنےمفادات کی حفاظت کرے۔ اپنی سفارشات پیش کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کی جانب سے ایک مضبوط ،نپے تلے جواب اور ایک جامع ایکشن پلان کی ضرورت ہے، اور اس کے ساتھ  ساتھ پاکستانی کمشنر برائے سندھ طاس، وزارت آبی وسائل، اور وزارت موسمیاتی تبدیلی جیسے متعلقہ اداروں کی استعداد کار میں اضافہ، تکنیکی اداروں میں تحقیقی پروگراموں کے لیے ڈیٹا سیلز اور فیکلٹیز کا قیام، تعلیمی اداروں اور متعلقہ سرکاری محکموں کا قریبی رابطہ، اور مقامی اور غیر ملکی میڈیا میں پاکستان کے موقف کی فعال اور مربوط پیش کش کو یقینی بنانے جیسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر بھارت عالمی ثالثی عدالت کی کارروائی کا بائیکاٹ جاری رکھتا ہے تو پاکستان کو یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے جانے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔

اشفاق محمود نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت کی سندھ طاس معاہدے میں ترامیم کی کوششیں سود مند ثابت نہیں ہوں گی کیونکہ بھارت جس ترمیم کا دعویٰ کر رہا ہے وہ پہلے ہی سندھ طاس معاہدے کی شق نمبر 9 میں ‘اختلافات اور تنازعات کے حل’ کے حوالے سے موجود ہے اورمتعلقہ  مسائل کو حل کرنے کا ذریعہ ہے۔ مزید برآں، یہ معاہدہ دونوں ریاستوں کی باہمی شرائط کے تحت عمل میں آیا ہے اور بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے میں ترمیم، تبدیلی یا اسے منسوخ نہیں کر سکتا۔

خلاف ورزی اور عدم تعمیل کے باوجود بھارت اپنا موقف جارحانہ انداز میں پیش کرتا رہتا ہے جبکہ پاکستان دفاعی انداز میں ایک غیر فعال کھلاڑی رہا ہے۔ اس غیر فعال کردار نےپاکستان کے معاملے کی کمزور پروجیکشن کے ساتھ، بھارت کو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بگلیہار اور کشن گنگا ڈیموں جیسے 150 سے زیادہ منصوبوں پر کام کے لیے کافی سہولت فراہم کی ہے۔

اس گفتگو  میں مزید اضافہ کرتے ہوئےڈاکٹر  امینہ سہیل نے اس مسئلے پر پاکستان کے نقطہ نظر پر معلومات اور علمی ذہانت کی کمی کی نشان دہی کی۔ اس کے لیے انہوں نے سندھ طاس معاہدے کے گہرے مطالعہ کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ایک مضبوط پروجیکشن اور اس کی دفعات کی تشریح کرنے کے لیے استدلال پر مبنی مقدمہ پیش کرنے، علمی مواد  کی تیاری اور عالمی برادری کو پاکستان کے موقف پر قائل کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو سکے ۔

سیشن کے اختتام پرخالد رحمٰن نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ پاکستان کا مقدمہ قانونی و اخلاقی طور پر مضبوط اور فعال ہونے کے باوجود، اس کی پیش کش اب بھی غیر فعال اور دفاعی  انداز  کی حامل ہے۔ اگرچہ ادارہ جاتی نا اہلی اور پیشہ ورانہ بدانتظامی بنیادی وجہ ہے، لیکن یہ سب مسائل پاکستان میں ناقص نظامِ حکومت سے جنم لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو ایک ایکشن پلان تیار کرنے، اپنا بیانیہ پیش کرنے، اور ایک عملی اور مدلل ردعمل کے ساتھ جوابی کارروائی کرنے کے لیے جامع تیاریوں کی ضرورت ہے جو اس تنازعے کی تمام جہتوں پر محیط ہو۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے