جنوبی سوڈان تنازعہ کا مستقبل

سوڈان

جنوبی سوڈان تنازعہ کا مستقبل

بر اعظم افریقہ کا سب سےبڑا اور تیل، گیس اور معدنی ذخائر سےمالا مال ملک۔ سوڈان۔ گزشتہ تین عشروںسےسخت سیاسی بحران کا شکا ر ہے۔ اس پیچیدہ صورتحال کی وجہ حکمرانوںکی تنگ نظری اور مغربی سامراج کی جمہوریت ،انسانی حقوق اور’’ شریعہ فوبیا‘‘ کےنام پر مداخلت کی شاطر حکمت عملی ہے۔
دار فور اور جوبا کےتنازعےکو مغرب سوڈان پر پابندیوںاور صدرعمر حسن البشیر کےخلاف عالمی مہم کےجواز کےطور پر استعمال کر رہا ہےاور مغربی تجزیہ نگار حسب توقع ایک عرصہ سےسوڈان کو ناکام ریاست قرار دےرہے ہیں۔
2011ء میںریفرنڈم کرانےکےلئےبرسر اقتدار جماعت این سی پی (NCP)  اور سوڈان پیپلز لبریشن مو ومنٹ (SPLM) کےدرمیان ہونےوالا حالیہ معاہدہ خرطوم پربیرونی دباؤکی غمازی کرتا ہےجس کےنتیجےمیں تیل کی دولت سےمالا مال جنوبی علاقہ خودمختار یا آزاد ہو جائےگا۔ امریکہ اور برطانیہ کی شروع سےحکمت عملی یہ رہی ہےکہ جنوبی غیر مسلم آبادی کےبنیادی حقوق کےنام پرسوڈان کو تقسیم کر دیا جائے۔ نہ صرف سوڈان بلکہ دنیا کےکسی بھی خطےمیںپائےجانےوالےتوانائی کےذخائر پر قبضہ کرنےکےلئےامریکہ اور اس کےاتحادیوں نےمشترکہ حکمت عملی اختیار کی ہوئی ہے۔
انیسویں صدی کےاواخر میں برپا ہونےوالی مہدیہ تحریک اگرچہ سیاسی طور پر مختصرعرصہ زندہ رہی تاہم اس کےگہرےاثرات نہ صرف اشرافیہ کی زندگی پر بلکہ اسلامی ریاست کےحوالےسےایک عام آدمی کی سوچ میں بھی پائےجاتےہیں۔ اسلامی نظام سےعام آدمی کی وابستگی اور رغبت اس دور میںنمایاں طور پر غالب رہی۔ اس ضمن میں اخوان المسلمون کےبانی حسن البناء اوردوسری جانب مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریروں نےجدید اسلامی ریاست کےتصور کو واضح خدوخال دینےکےحوالےسےسوڈانی اہل دانش کی بڑی رہنمائی کی ہے۔ دیگر فوجی حکمرانوں کی طرح جعفرنمیری اورعمر بشیر نےبھی اپنےذاتی اقتدار کیلئےاسلام سےوابستگی کےاس جذبہ کو استعمال کیا ۔ اسلام سےسوڈانی عوام کی یہ رغبت پاکستان، ایران بلکہ شرق اوسط کےبعض دیگر ممالک سےچنداں مختلف نہیں جس کی نشاندہی اور گواہی 2006ء کا گلوبل گیلپ سروےبھی دیتا ہے۔
سوڈان میں امریکہ اور اس کےاتحادیوں کی غیر معمولی دلچسپی اور انسانی حقوق کےحوالےسےان کی تشویش کےبظاہر دو اہم اسباب سوڈان میں موجود تیل کےذخائر، جو کہ ایک اندازےکےمطابق ایران اور سعودی عرب میں پائےجانےوالےمجموعی ذخائر کےمساوی یا ان سےبھی زیادہ ہیں، اور سوڈان میں اسلامی حکومت کےقیام کا خوف ہیں۔
اگر جنوری 2011ء کا ریفرنڈم جنوب کی آزادی کےحق میںجاتا ہے، جس کےلئےامریکہ اور اس کےاتحادی مل کر کام کر رہےہیں، تو یہ یقینا سوڈان کےاستحکام اور حکومتی عملداری کےلئےنقصان دہ ہو گا۔ لیکن اگر نتیجہ اس کےبرعکس نکلتا ہےتو مغربی ذرائع ابلاغ ، امریکہ، اتحادی اور حتی کہ اقوام متحدہ بھی اسےشمال کی کار پردازی قرار دیںگے۔ جبکہ اس کےپڑوسی ملک مصر میں ایئر فورس کےایک افسر کا تیس سالہ اقتدار کبھی بھی مغرب کےلئےانسانی حقوق، شفافیت یا آزاد جمہوریت کےحوالےسےتشویش کا باعث نہیں بنا۔
افریقہ اور دیگر ممالک کےسیاہ فام (non-white)  عوام کےبارےمیںمغربی پالیسی کےاس دوہرےاخلاقی معیار نےاس کی نسلی اور سامراجی ذہنیت کی قلعی کھول دی ہےاورثقافتی و مذہبی تکثیریت پر یقین کےدعوےکا کھوکھلا پن ظاہر کر دیا ہے۔ مساجد میںمیناروںکی تعمیر کےخلاف سویٹزر لینڈ میںہوئےحالیہ فیصلےنےسویٹزرلینڈ،جرمنی،فرانس اور نیدر لینڈ جیسےممالک میںپیدا ہونےوالےاور بسنےوالےانسانوں کےمذہبی اور ثقافتی حق کےانکار کی طویل فہرست میںایک اور چیز کا اضافہ کر دیا ہے۔
جنوب کی آزادی کا ایک اور اہم پہلو اس کی بعد از آزادی زندہ رہنےکی قابلیت ہے۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ جنوب تیس سال سےاسلحےکا بازار بنا ہوا ہے،بڑےاور چھوٹےقبائل کی تاریخی مخاصمت صرف اور صرف شمال اور جنوب کےدرمیان تنازعےکی وجہ سےسر نہ اٹھا سکی۔ ایک بار جنوب نےآزادی حاصل کر لی تواس بات کا پورا امکان ہےکہ یہی جنگجو جو مغربی دنیا کی معاونت سےسوڈانی فوج کےخلاف لڑرہےہیںایک دوسرےکےخلاف ہتھیار اٹھا لیںگے۔ اگر حالات اس رخ پر آگےبڑھےتو مغربی ذرائع ابلاغ اس نئےبحران کا الزام شمال پر لگا دیں گےجو سوڈانی حکومت کےعدم استحکام کا باعث بنےگا۔ اس کےساتھ ہی جنوب کی بدبختی میںبھی اضافہ ہو گا کیوں کہ اس سےسابقہ یورپی سامراج کو سوڈان کےمعاملات میںبراہ راست مداخلت کرنےکا ایک بہانہ مل جائےگا۔
سوڈان کےخلاف اینگلو امریکن پالیسی یہ واضح کرتی ہےکہ دنیا میںجہاں کہیں کسی اسلامی ریاست کےابھرنےکا امکان ہوا تو مغرب کا تزویراتی اتحاد(strategic alliance)انسانی حقوق اور جمہوریت کےنام پر اسےسبوتاژ کرنےمیں کوئی کسر اٹھا نہیںرکھےگا۔
اس موقع پر مسلم امہ کےلئےاہم سوال یہ ہےکہ کیا مسلم دنیاکو خاموش رہنا چاہیےیا مغرب کی بالا دستی سےچھٹکارا حاصل کرنےکےلئےحکمت عملی تیار کرنی چاہیے؟جہاںتک مسلم دنیاکےعام باشندوںکا تعلق ہےوہ مصر میں ہوں یاسوڈان میں، ترکی میں ہوںیا انڈونیشیایا پاکستان میں ان کی واضح اکثریت اسلامی نظام کےقیام اورمغربی استعمار اورلادینی جمہوریت کےخلاف اپنی رائےکا اظہار واشگاف الفاظ میںکر چکی ہے،خصوصاً امریکہ کےخلاف اپنی رائےکا اظہار اورعالم اسلام سےامریکی اثرات کےخاتمےکےحوالےسےامت مسلمہ میںمکمل اتفاق رائےپایا جاتا ہےاوروہ مسلمان اہل علم سےیہ جائز امید رکھتی ہےکہ مغربی سامراج سےنجات کےلیےزمینی حقائق پر مبنی حکمت علمی وضع کریں۔البتہ مغرب زدہ حکمران شاید اپنی بقا کےپیش نظر تا حال مغرب سےکنارہ کشی کرنےکےلئےتیار نظر نہیںآتے۔
مسلمان اسکالرزکی یہ بنیادی ذمہ داری ہےکہ مستقبل کےحوالےسےایک واضح حکمت عملی پیش کریںاور ساتھ ہی وہ لائحہ عمل بھی جو اس خواب کو سیاسی اور اقتصادی حقیقت کی صورت میںشرمندہ تعبیر کر سکے۔ مزید برآںجدید اسلامی ریاست کےحوالےسےیہ اعتماد اور امید بھی پیدا کریںکہ یہ ریاست انصاف، امن، روادای، جدت پسندی اور تکثیریت کےساتھ زندہ رہنےکی بھرپور صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ اسلام اور شریعت کی جو منفی تصویر طالبان اور القاعدہ کےنام سےپیش کی گئی ہےاس کی جگہ بنیادی اسلامی مآخذ قرآن و حدیث سےاخذ کردہ سچی تصویر پیش کرنےکےساتھ ساتھ عوام کی معاشی و معاشرتی بہبود کا منصوبہ بھی پیش کریں۔ساتھ ہی اسلامی تحریکات کو عوام کی سماجی ترقی کےلئےاہم کردار ادا کرنا ہےاس غرض سےتعلیم،فلاح و بہبود اور صحت کو اپنےمنصوبوںمیںپہلی ترجیح دینی ہو گی۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے