مسلم ممالک، جمہوری روایت اور اسلام

مسلم ممالک، جمہوری روایت اور اسلام

مسلم ممالک بالخصوص عرب دنیا میںجمہوری روایت کےنشو و نما و ارتقاء پر بات کرتےوقت مغربی تجزیہ نگار عموماً اپنےتحفظات کا ذکر کرتےہیںاور بادشاہت یا فوجی آمریت کو جمہوریت کےلیےخطرہ قرار دیتےہیں۔ ان کےمطابق اس وقت دنیا کی ۱۸۹ اقوام میںسےتقریباً ۱۲۰ میںجمہوریت کسی نہ کسی شکل میںپائی جاتی ہے اور اس میںسےحد سےحد نصف مقامات پر جمہوری روایت مستحکم ہے۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میںتقریباً ایک درجن ممالک میںجمہوریت کو صدمہ پہنچا اس سلسلےکی آخری مثال ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو ہونےوالا پاکستان کا پرامن فوجی انقلاب تھا۔
ان ممالک میںجمہوریت کی ناکامی کےاسباب متنوع اور پیچیدہ ہیں۔ ان میںخصوصاً انصاف اور قانون کی حکمرانی اور تحفظ کا فقدان اور عدلیہ کا خود مختار نہ ہونا ایک بنیادی سبب کہا جاتا ہے۔ معاشی عدم استحکام اور قرضوںپر مبنی معاشی ترقی بھی ایک بنیادی سبب بتائی جاتی ہے،جس میںسیاست دانوںاور نا اہل نوکر شاہی کی طرف سےمالی بددیانتی اور فنی قابلیت میںکمی کا بھی بڑا دخل سمجھا جاتا ہے۔ ایک اندازےکےمطابق ترقی پذیر ممالک میںتقریباً ۴۰ فیصد قومی معاشی پیداوار صرف قرضوںکےسود کی ادئیگی پر صرف ہو جاتی ہےجبکہ قرضےوہیںکےوہیںرہتےہیں۔ اس طرح معاشی اضمحلال کا ایک کبھی ختم نہ ہونےوالا سلسلہ ان ممالک کو اپنی گرفت میںلیےرہتا ہے۔ اس میںرہی سہی کسر سیاست دانوںاور نوکر شاہی کی مالی بدعنوانی پورا کر دیتی ہے۔ ایسےمعاشی حالات میںجمہوریت کو جس کی روح احتساب اور جواب دہی کےتصور میںہے،کس طرح پنپنےکا موقع مل سکتا ہے۔ گویا نوکر شاہی ہو یا اختیارات پر قابض سیاست دانوںیا فوج کا گروہ،ہر ایک جمہوریت کےموضوع پر اپنی گل افشانی کےباوجود حقیقی جمہوریت کےلیےہمیشہ سنگ راہ بنا رہتا ہے۔
یہ فطری بات ہےکہ عدل و انصاف کا فقدان،تحفظ کا نہ ہونا،حکمرانوںکی بےاصولی اور مالی استحصال کا آنکھوںکےسامنےپایا جانا،نظمِ مملکت پر سےلوگوںکےاعتماد کو متزلزل کر دیتا ہےاور Crisis of Governance گہرےسےگہرا تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ انتظامیہ اور سیاست دان ایسی بگڑی ہوئی صورت حال میںاپنی نا اہلی اور جرائم پر پردہ ڈالنےاور عوام کی توجہ اصل مسئلہ سےہٹانےکےلیےایسےقضیوںکو ہوا دیتےہیںجن میںالجھ کر عوامی توجہ بدعنوان حکمرانوںکی طرف سےہٹ جائے۔ اس حوالہ سےسب سےزیادہ کارگر حیلہ مذہبی تفرقہ بازی ہے۔ چنانچہ اکثر عرب حکومتوںنےاپنی ضرورت کےپیش نظر کبھی اسلامی تحریکات کو قید و بند اور ظلم کا نشانہ بنایا اور کبھی انہیںوقتی آزادی دےکر دوسرےنظریاتی دشمنوںکی قوت کو توڑنےیا اپنےحق میںایک توازن پیدا کر کےان تحریکات پر قابو پانےکےلیےاستعمال کیا۔
پاکستان میںبھی صورت حال اس سےمختلف نہیںرہی۔ دو بڑی سیاسی جماعتیں باری باری ملک اور عوام کو اپنی سواری کےلیےاستعمال کرتی رہیں،خود مسلکی جماعتوںنےخواہ وہ دیوبندی مکتب فکر کےعلمبردار ہوںیا بریلوی،اہل حدیث یا شیعہ مسلک سےتعلق رکھتےہوں،کبھی اپنےآپ کو ایک پارٹی سےوابستہ کیا کبھی دوسری سےاور اپنی سیاسی پشت پناہی کےبل پر اپنی مخالف مسلکی جماعت کےافراد کو زک پہنچانےمیںکبھی تکلّف نہیںکیا۔ لیکن ایک پرانی کہاوت کےمصداق ’’کرےمونچھوںوالا پکڑا جائےڈاڑھی والا‘‘ مذہبی تشدد کا الزام بلا استثناء مسلکی جماعتوںپر ہی رکھا گیا۔ دوسری جانب ان میںسےکئی جماعتوںنےخود بھی اپنی قوت بازو کا اظہار کرنےکےلیےاپنی ذیلی نیم عسکری تنظیمیںقائم کر کےاس الزام کےلیےخود بنیاد فراہم کر دی۔
ان زمینی حقائق کےپیش نظر اور بالخصوص مذہبی تشدد پسندی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کےحوالےسےمغربی مصنفین کےاعتراضات کو ذہن میںرکھتےہوئےاس صورت حال کےاسباب پر غور کرنےکی ضرورت ہے۔ بالخصوص یہ کہ (i) کیا نام نہاد ترقی پذیر ممالک (عرب دنیا میںیا ایشیائی ممالک) میںمذہبی منافرت اور تشدد پسندی کےباوجود جمہوریت کا کوئی مستقبل ہے؟ (ii) کیا جمہوریت واقعی اسلام کی ضد ہے؟ اور (iii) کیا تحریکات اسلامی ان بگڑےہوئےحالات میںاسلامی نظام حکومت کو بطور متبادل نافذ کرنےکی قوت رکھتی ہیں؟
مغربی مصنفین ان تینوںسوالات کا جواب عموماً نفی میںدیتےہیںیعنی جمہوریت اور اسلامی احیائی تحریکات میںنبھاؤ بہت مشکل ہے۔ ان کا خیال ہےکہ اسلامی تحریکات ’’جہاد‘‘ پر ایمان رکھنےکےسبب تشدد کو جائز سمجھتی ہیںاس لیےایک معتدل (modrate) اور آزادی پسند (liberal) نظام اور ماحول پیدا کرنےسےقاصر ہیںاور نتیجتاً جہاںکہیںبھی اسلامی نظام کےنفاذ کا امکان پیدا ہوتا ہےاسےقصر جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کےلیےشدید خطرہ سےتعبیر کیا جاتا ہے۔ جس طرح deductive logic یا منطق استخراجیہ میںایک مفروضہ دوسرےمفروضےسےملحق ہوتا ہےاور ایک متوقع منطقی نتیجہ کی طرف لےجاتا ہے،بالکل اسی طرح یہ تصورات مغربی ابلاغ عامہ اور علمی حلقوںمیںمتواتر پیش کیےجا رہےہیں،جن کا اظہار عمانویل سیوان (Emmanuel Sivan) نےاپنےمضمون (Arabs & Democracy: Illusions of Change) میںواضح طور پر کیا ہے۔
ہمارےخیال میںاپنی تمام تر معروضیت کےباوجود مغربی مصنفین اسلام اور جمہوریت کےبنیادی تضاد،تحریکات اسلامی کےانتہا پسند اور جہاد کے’’مذہبی جنون‘‘ ہونےکےبارےمیںاپنےطےشدہ تصورات اور ذہنی تحفظات کےاتنےعادی ہو چکےہیںکہ ساون کےاندھےکی طرح انہیںہر چیز ہری ہری نظر آتی ہے۔ گو سوشل سائنس کی تحقیقی حکمت عملی (Research Methodology) میںنام نہاد معروضیت کےباوجود داخلیت کےعنصر کو نظرانداز نہیںکیا جا سکتا لیکن یہاںمعاملہ اس سےکچھ بڑھ کر ہے۔
مندرجہ بالا تینوںفکری اغلاط کی اصلاح تفصیلی گفتگو کی متقاضی ہے۔ ہم انتہائی اختصار سےیہاںصرف تین نکات کی طرف اشارہ کریںگے:
I۔ اسلام اور جمہوریت بلاشبہ بنیادی طور پر دو مختلف چیزیںہیں۔ اسلام کی بنیاد قرآن و سنت کی عظمت اور مطلق بالادستی پر ہےجبکہ جمہوریت نظری طور پر عوام کی بالادستی کا نام ہے۔ اس بنیادی فرق کےساتھ اسلامی نظم مملکت کی بنیاد شوریٰ کےالہامی اصول پر ہےاور اسلامی نظام خلافت فرد یا طبقہ علماء کی آمریت سےمکمل طور پر آزاد ہے۔ مغرب کےذہن میںلفظ مذہب جو ارتعاش پیدا کرتا ہےاس کی ہر لہر سےتھیا کریسی (Theocracy) کی صدا بلند ہوتی ہے۔ پھر بعض حادثات زمانہ بھی مغرب کےاس تصور کی کسی حد تک تائید کر دیتےہیںمثلاً فی زمانہ ’’طالبان‘‘ کا ذہنی ہوّا جسےمذہبی ریاست کےماڈل کےطور پر پیش کیا جاتا ہے۔ خود پاکستان کےلادینی فکر رکھنےوالےدانشور ہر دو دن کےبعد انگریزی کےکسی روزنامہ میںکسی مضمون یا ادارتی نوٹ کےذریعہ اس خطرہ کی گھنٹی بجاتےرہتےہیںکہ ’’طالبان دستک دےرہےہیں!‘‘ اور اس طرح ’’مذہبی جنونیت کےغبارے‘‘ میںروز ہوا بھرتےرہتےہیںتاآنکہ عوام الناس کےذہن میںمذہبی عناصرکےلیےسوائےنفرت کےکوئی جذبہ باقی نہ رہے۔
اسلام روح جمہوریت کا علمبردار لیکن انسان کی خدائی کا منکر ہے۔ وہ انسان کو ایک با شعور،آزاد،فیصلہ کرنےوالی مخلوق کی حیثیت سےارادہ کی آزادی دیتےہوئےسیاسی،معاشی اور معاشرتی معاملات میںاپنی قوت فیصلہ کےصحیح استعمال کی دعوت دیتا ہےلیکن ساتھ ہی ہر قدم پر انسان کو یاد دلاتا رہتا ہےکہ نہ وہ اقتدار کا بندہ ہے نہ عوام کا بلکہ وہ صرف اللہ کا بندہ ہے۔ جب تک اس بنیادی حقیقت کو ذہن نشین نہ کر لیا جائےخیالات اور تصورات کا تاج محل بنیادی پتھر کےٹیڑھےہونےکےسبب تاثر یا کجی اور ٹیڑھ سےخالی نہیںہو سکتا۔
II ۔ مسلم ممالک خصوصاً عرب دنیا میںملوکیت،فوجی آمریت یا غیر جمہوری نظاموںکےپائےجانےکےاصل سبب پر غور کیا جائےتو یہ بات واضح ہو جائےگی کہ ایک جانب خلافت راشدہ کےبعد خاندانی اور شخصی ملوکیت کےدور کا آغاز ہوا اور تھوڑےعرصہ بعد مسلمانوںکےسیاسی اور تہذیبی زوال کےساتھ ہمسایہ تہذیبوںکےزیر اثر بادشاہت کےنظام کی مختلف شکلوںنےرواج کی شکل اختیار کر لی۔ دوسری طرف اٹھارہویںصدی سےمغربی سامراج نےمسلم ممالک میںجہاںجہاںقدم جمائےبادشا ہوںاور آمروںکو اپنےحق میںبہتر جانا اور اپنےجمہوریت کےعشق کےدعو وںکےباوجود اپنےمفادات کےتحفظ کےلیےآمروںاور جابروںکی حمایت و طرف داری کی۔ دور جدید میںمغربی فکر اور حکمت عملی کا ایک واضح تضاد مغربی طاقتوںکی خارجہ،معاشی،اور ابلاغ عامہ کی پالیسی میںواضح ہو کر سامنےآ جاتا ہے۔ عرب دنیا کی بادشاہتوںاور سابق شاہ ایران اور شمالی افریقہ کی آمریتوںکو تحریکات اسلامی نےنہیںجمہوریت کےمدعی مغرب نےپروان چڑھایا،کھل کر ان کی مکمل حمایت و امداد کی اور ان ممالک کی اسلامی تحریکات کو ان کی جمہوریت پسندی کےباوجود اپنا دشمن سمجھا۔
III۔ اکثر تحریکات اسلامی نےاپنےسیاسی پروگرام اور منشور میںجن باتوںکو اولین اہمیت دی ہم ذیل میںصرف نکات کی شکل میںان کی طرف اشارہ کرتےہیں۔ یہ نکات خود ان تحریکات کےبارےمیںمغرب کی غلط فہمی کی اصلاح کےلیےکافی مواد فراہم کرتےہیں۔ اور تاریخی اور دستاویزی طور پر ان تحریکات کے’’مذہبی جنونی‘‘،’’انتہا پسند‘‘ یا ’’جمہوریت دشمن‘‘ ہونےکی مکمل تردید کر دیتےہیں۔ پاکستان،سوڈان،ترکی اور اردن کی تحریکات اسلامی یقین رکھتی ہیںکہ:
۱۔ملک میںاسلامی نظام کےقیام کی راہ کےلیےدستوری اور جمہوری جدوجہد ہی صحیح طریقہ انقلاب ہے۔
۲۔ ملک و قوم کی اصلاح تعلیمی،دعوتی،فلاحی اور سیاسی حکمت عملی کےبغیر نہیںہو سکتی ہےاس لیےتبدیلی و اصلاح کےلیےایک طویل سفر صبر و استقامت کےساتھ طےکرنا ہو گا۔
۳۔ ایک صالح اور عادلانہ نظام کا قیام صالح اور آزاد قیادت کےبغیر ممکن نہیں۔ وہ فرمانروا طبقہ جو بیرونی طاقتوںکی خواہشات کا غلام ہو اور ان کےاشاروںپر ناچنےکےلیےہر وقت آمادہ رہتا ہو وہ محب وطن قیادت فراہم نہیںکر سکتا اس لیےصالح افراد کی تیاری اور ان کی تنظیم و تربیت ایک عادلانہ نظام کا پیش خیمہ ہے۔
۴۔ good governance یا حسن انتظام کےلیےاسلام کےدیےہوئےضابطہ اخلاق کی پیروی لازمی ہو گی اور ایسےافراد کا بےلاگ احتساب ضروری ہو گا جو ملک و قوم کےاستحصال پر پلےاور بڑھےہوں۔
۵۔ قانون کا احترام اور بالادستی قائم کرنےکےلیےعدلیہ کو سیاسی اور حکومتی اثرات سےپاک کرنا ہو گا اور اہلکاروںکو باوقار اور با عزت طور پر زندگی گزارنےکےلیےمناسب اعزازیہ کےساتھ احتساب کی چھلنی سےگزرنا ہو گا تاکہ صرف وہ حضرات مناصب پر ہوںجن کا دامن خود داغدار نہ ہو۔
۶۔ اہلکاروںکےانتخاب میںصرف اور صرف صلاحیت کو بنیاد بنانا ہو گا،سفارش،اقربا پروری اور صوبہ پروری کا کلچر یکلخت ختم کرنا ہو گا۔
۷۔ اقتصادی خود مختاری کےلیےسودی کاروبار کو ختم کر کےاسلامی اصولوںپر معیشت کو استوار کرنا ہو گا۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے