جامعات میں تدریس وتحقیق کا معیار

research

جامعات میں تدریس وتحقیق کا معیار

 

ہائر ایجو کیشن کمیشن نے جامعات میں تدریس وتحقیق کا معیار بلند کرنے کے لیے ڈاکٹر عطاء الرحمن کی سربراہی میں جس حکمت عملی سے کام لیا ہے ، اس کے فلسفے اور عملی اقدامات کی بعض جزئیات سے اختلاف کے باو جود فی نفسہٖ اعلیٰ معیارِ تحقیق کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ، مگر کم و ییش دس برس گزرنے کے بعد جب پیچھے مڑکر دیکھا جاتا ہے تو دیکھنے والوں کو کامیابی کا گراف کوئی زیادہ خوش کن نظر نہیں آتا ، اور اِس تأثر کا اظہار اخبارات و جرائد میں تسلسل کے ساتھ ہورہا ہے۔وطنِ عزیز کی علمی اور اشاعتی دنیاسے ’’نقطۂ نظر‘‘ کا جو محدود سا تعلق ہے ،اِس سے بھی اِس مایوس کن صورتِ حال کی تائید ہوتی ہے ۔ جامعاتی تحقیق کے حاصل کے طور پر جو مطبوعات سامنے آرہی ہیں،اِن میں اچھی تحقیق کے نمونے تعداد میں کم و پیش اتنے ہی ہیں ، جتنے بیسویں صدی کے آخری دو عشروں میں تھے، مگر تحقیق کے نام پر چھپنے والی تحریروں کی تعداد بڑھ جانے سے اچھی تحقیق کافی صدحصہ کم ہو گیا ہے۔
علمی دنیا اِس حقیقت سے آگاہ ہے کہ تازہ تر تحقیق علمی مجلات کے ذریعے سامنے آتی ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے علمی مجلات کی اشاعت پر بجاطور پر زور دیا ، اور وسائل بھی مہیا کیے، چنانچہ جامعات سے بڑی تعداد میں مجلات شائع ہونے لگے جن کی مجالس مشاورت و ادارت بڑی ہی مرعوب کن ہیں ۔ ایک طرف عالمی مجلسِ مشاورت کے ارکان کی فہرست دی جاتی ہے جس میں متعلقہ شعبۂ علم کے سربرآوردہ اصحابِ فضیلت کے نام شامل ہوتے ہیں،تو دوسری طرف وطنِ عزیز کی سطح پر مختلف جامعات سے وابستہ افراد کے نام درج کیے جاتے ہیں ۔ (اگر مختلف جامعات سے شائع ہو نے والے ایک ہی شعبۂ علم کے مجلات دیکھے جائیں تو مجالسِ مشاورت میں ایک جیسے نام ہی نظرآئیں گے۔)ہائرایجوکیشن کمیشن نے اِن مجلات میں کسی تحریر کی شمولیت کے لیے لازمی قرار دیا ہے کہ کم از کم دو غیر جانب دار اورمتخصص اہلِ علم نے اِس کے اچھے معیارِ تحقیق کی توثیق کی ہو ۔ جو مجلات اپنے تسلسلِ اشاعت اورمذکورہ معیارِ مقالات کو پورا کرتے ہیں، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے نزدیک وہ مسلّمہ علمی مجلات ہیں، نیز ہائر ایجوکیشن کمیشن کی متعلقہ کمیٹی اُن کی مزید درجہ بندی کرتی ہے، اور جامعات کے اساتذہ کے چناؤ اوران کی ترقی میں اِن مجلات میں اُن کی شائع شدہ تحریروں کو وزن دیا جاتا ہے۔
بھاری بھرکم مجالسِ مشاورت وادارت اور کسی تحریر کے مجلے میں شامل کیے جانے سے پہلے دو متخصصین کی مثبت آراء کی موجودگی تو علمی مجلات کے اعلیٰ معیار کی ضامن ہونا چاہیے تھی،مگر ایسا ممکن کیوں نہ ہو سکا؟ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے کار پردازوں اور خود مجلات کے مدیروں اور اُن کے متعلقہ شعبوں کو اِس پر غور وفکر کرنا چاہیے۔ 3 اس سلسلے میں شائع ہونے والے ان تجزیات اور تأثرات کو بھی اگر پیش نظر رکھ لیا جائے، جو اخبارات وجرائد کے ذریعے سامنے آرہے ہیں تو شاید فیصلہ ساز اپنے فرائضِ منصبی سے بہتر طور پرعہدہ برآہو سکیں گے اورشایدمعیارِ تحقیق بھی خوب ترہو سکے گا۔
تحریر:  ڈاکٹر سفیر اختر

نوعیت: ابتدائیہ /ادارتی نوٹ

ماخذ: مجلہ ’’نقطۂ نظر‘‘ شمارہ ۳۳،   مارچ ۲۰۱۲ – اکتوبر ۲۰۱۳ 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے