مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا میں بدامنی اور عدم استحکام امریکہ "تخلیق” کر رہا ہے

waronteror

مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا میں بدامنی اور عدم استحکام امریکہ "تخلیق” کر رہا ہے

 سا بق جنرل سیکریٹری وزارت خارجہ محمّد اکرم ذکی نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ افغانستان اور اس خطے میں امن کا خواہاں نہیں ہے۔ درحقیقت وہ مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء میں "تخلیقی عدم استحکام” کی پالیسی کو فروغ دے کر اپنے علاوہ اسرائیل اور بھارت کے مفادات کا فروغ چاہتا ہے۔ ان مذموم مقاصد میں وہ برزنسکی کے اس قول پر اپنی پالیسی مرتب کرتا نظر آتا ہے کہ ” دس لاکھ افراد کو قائل کرنے میں توانائی سرف کرنے کی بجائے انہیں قتل کر دینا آسان ہے”۔

۲۹ ستمبر ۲۰۱۶ کو آئی پی ایس میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس کا عنوان تھا  "نائن الیون اور دہشت گردی کیخلاف جنگ کے ۱۵ سال” جبکہ مقررین میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹینٹ جنرل رئٹائرڈ اسد درانی اور سابق سفیر ضمیراکرم شامل تھے جبکہ مزاکرے کی میزبانی کے فراِض آئی پی ایس کے ایسوسی ایٹ ائیر کموڈور رئیٹائرڈ خالد اقبال نے سر انجام دیے۔ مقررین کی رائے میں جنرل مشرف کو امریکی مطالبات اور افغانستان میں فوجی اقدامات کے لیے امریکہ کا ساتھ دینے پر مجبور کیا گیا کیونکہ بھارت انہی مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنے اڈے نیٹو کو فراہم کرنے پر تیار ہو چکا تھا اور پاکستان کو روایتی انداز میں بدنام اور تنہا کرنا چاہتا تھا۔ ضمیراکرم جو کہ امریکہ کے ساتھ ہونے والے ان معاملات کے راز دار ہیں انہوں نے بتایا کہ پاکستان اس وقت یہ احساس کر چکا تھا کہ امریکہ کے فوجی حملے کے بعد طالبان کی حکومت قائم نہیں رہ سکے گی۔ پاکستان نے امریکہ کو یقین دہانی کروائی تھی کہ پاکستان القاعدہ کے خلاف تو لڑائی میں امریکہ کی مدد کرے گا لیکن طالبان کے خلاف نہیں۔ امریکہ کو یہ بھی باور کرایا گیا تھا کہ وہ افغان جنگجو سرداروں کیساتھ معاملات طے کرنے سے بچے کیونکہ وہی اپنے ملک میں اس ساری افراتفری کے ذمہ دار ہیں۔ مزید یہ کہ نئی افغان قیادت افغان روایات کے مطابق لائی جائے۔

بد قسمتی سے پاکستان کے یہ تینوں نکات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی ڈھکوسلی منصوبہ بندیوں کے باعث طالبان ابھی بھی اپنی جنگ لڑ رہے ہیں اور ان کا پاکستان پہ انحصار اس حد تک کم ہو چکا ہے کہ اب پاکستان امن عمل کی تکمیل کے لیے ان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال نہیں کر سکتا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی وزارت خارجہ میں مستقبیل بینی اور دیرپا پالیسی پلاننگ کا حد درجہ فقدان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ڈھکے چھپے انداز کی بجائے بھارت اور امریکہ سے اپنے معاملات میں واضح اور دو ٹوک ہونا چاہیے اور انہیں لگی لپٹی بغیر یہ بتا دینا چاہیے کہ یہ ہمارے لیے ممکن ہے اور یہ کچھ ممکن نہیں۔ جنرل رئیٹائرڈ اسد درانی نے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کی اس بات کی قطعی ضرورت نہیں تھی کہ پاکستان اپنی فوج فاٹا اور لال مسجد جیسے معاملات مین استعمال کرتا کیونکہ اسی کے باعث یہ جنگ جنگل میں آگ کی طرح ملک کے اندرپھیلتی گئی۔ انہوں نے کہا کہ مشرف کی اس پالیسی نے خود کش بمباری کے عنصرکو جنم دیا۔ تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ امریکہ کیساتھ رہنے کا مشرف کا ابتدائی فیصلہ عملیت پسندانہ تھا۔ مقررین نے ایک فعال خارجہ پالیسی کی تشکیکل پر زور دیا اور مودی کے جنگی جنون اور پاکستان کو تنہا کرنے کی اعلانیہ پالیسی کے جواب میں راہیں متعین کرنے کے لیے زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کو بالکل واضح انداز میں سمجھا دینا چاہیے کہ وہ ایک ایٹمی طاقت کے ساتھ اس طرح کی جارحانہ پالیسی اختیار کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے