سیمینار: امریکہ کا نظام اِنصاف

سیمینار: امریکہ کا نظام اِنصاف

 

امریکہ کے نظام اِنصاف کی حقیقت کاجائزہ لینے کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے زیر اہتمام ایک سیمینار منعقد ہوا۔ جس میں ماہرین نے امریکی نظام اِنصاف کا تنقیدی جائزہ لیا۔ مقررین نے کہا کہ اس ضمن میں امریکہ ہمیشہ دو پالیسیاں وضع کرتا ہے ایک بیانیہ اور دوسری عملی۔ بیان کردہ پالیسی وائٹ ہاوس کی جانب سے اعلیٰ اقدار اور اصولوں پر مبنی خوبصورت الفاظ کے ساتھ سامنے آتی ہے جب کہ عملی اور اطلاقی پالیسی سی آئی اے کے تحت ادنیٰ مقاصد کے حصول کے لیے زیرِ عمل لائی جاتی ہے۔ آج کل ان دونوں پالیسیوں میں اخفاء اور پردہ داری کا تعلق بھی ختم ہو گیا ہے۔
’’امریکہ کا نظام اِنصاف : حرکیات اور عمل‘‘ کے موضوع پر منعقدہ اس سیمنار میں جن مقررین نے اظہار خیال کیا اُن میں چھ مرتبہ منتخب ہونے والی سابق رکن امریکی کانگریس سینتھیا میک کینی، انٹرنیشنل ایکشن سنٹر کی شریک ڈائریکٹر سارا فلونڈرز اور امریکہ میں قیدڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی شامل تھیں۔ سیمینار کی صدارت پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ اور سفیر ایم۔اکرم ذکی نے کی اور سابق سینیٹربیرسٹر سعدیہ عباسی نے سیمینار کی نظامت کے فرائض انجام دیے۔
میک کینی نے امریکی تاریخ سے کئی ایسے واقعات کے حوالے دیے جن سے امریکہ کے بیان کردہ آزادی، مساوات اور انصاف جیسے عظیم تصورات کی نفی ہوتی ہے، انہوں نے کہا کہ امریکی عوام کو بار بار اپنی امیدوں اور آرزؤں کے ٹوٹنے کے دُکھ جھیلنے پڑے ہیں خصوصاََ مالکم ایکس، مارٹن لوتھر کنگ اور رابرٹ ایف کینیڈی جیسی اہم شخصیات کے قتل کے واقعات جن کا آج تک سراغ نہ لگایا جا سکا۔

انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ ایف بی آئی، سی آئی اے اور قانون نافذ کرنے والی دیگر ایجنسیاں نہ صرف امریکی دستور بلکہ قومی اور بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مسلسل ارتکاب کر رہی ہیں اور یہ سب کچھ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر کیا جارہا ہے۔اور یہ سب کچھ نیا نہیں بلکہ امریکی تاریخ اس کے تسلسل کی گواہی دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’ اسلامی بنیاد پرستی‘‘ ایک سیاسی ہتھیار ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے دلیل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

DSC 0536

انہوں نے زور دیا کہ ا مریکہ کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو اپنی بنیادی اقدار یعنی جمہوریت ، انسانی حقوق، انصاف، سچائی اور حق پرستی وغیرہ پر مصالحت نہ کرے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ غلط رویوں اور اقدامات کے خلاف ہمہ جہت اور مسلسل مزاحمت مطلوبہ تبدیلی ضرورپیداکرے گی۔
امریکی نظا مِ انصاف پر گفتگو کرتے ہوئے سارا فلونڈرز نے کہا کہ امریکہ دنیا کی سب سے زیادہ قیدی رکھنے والی آبادیوں میں سے ایک ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں انصاف نہیں ہے ۔ امریکہ میں قیدیوں کی زندگی گزارنے والی آبادی ترقی یافتہ صنعتی ممالک کی کسی آبادی سے دس گنا زیادہ ہے۔ یہ قیدی جن حالات میں رہنے پر مجبور ہیں وہ ہرگز قابل اِطمینان نہیں ہیں ۔ اِن کے ساتھ مملکت کے غلام مزدوروں کی حیثیت سے برتاؤ کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مملکت کو مجرمانہ پالیسیوں پر چلایا جا رہا ہے ۔ امریکی نظامِ انصاف دراصل نظام ناانصاف ہے۔ جن لوگوں کے ہاتھ میں معاملات ہیں وہ قانون کی نظرمیں جنگی مجرم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم امریکہ میں جو کچھ رکھتے ہیں وہ ’’ قیدی صنعتی کمپلیکس ‘‘ہے، جو کالے رنگ کے لوگوں اور اب مسلمانوں کی محکومی پر مبنی ہے۔

 

DSC 0488 DSC 0495

 

سارا فلونڈرز نے کہا کہ ڈرون حملوں کی پالیسی انتہائی غیر معمولی نوعیت رکھتی ہے۔ اسی طرح عافیہ صدیقی کا معاملہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح معصوم شہریوں کو پکڑ ا جاتا ہے اور ان واقعات کو امریکی میڈیا سے غائب کر دیا جاتا ہے ۔ عافیہ کا کیس امریکی میڈیا میں آنے ہی نہیں دیا گیا اور وہاں کے لوگ اس کیس سے صحیح طور پر واقف ہی نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم وہ میڈیا رکھتے ہیں جو جنگ فروخت کرتا ہے، یعنی جنگ کو فروغ دیتا ہے تاہم ہماری 80 فیصد آبادی جنگ نہیں چاہتی ۔ یہ جنگیں امریکی عوام کے لیے ایک بڑی مصیبت لاتی ہیں ۔ ان کی قیمت وہاں کے لوگ صحت ، تعلیم اور سماجی بہبود کی خدمات میں کمی کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔
عافیہ صدیقی کے مقدمہ کے گواہ کی حیثیت سے انہوں نے اس مقدمہ کو’’ انصاف کا قتل ‘‘ قرار دیا ۔ انہوں نے پاکستان میں امریکی سفیر کے الفاظ یاد دلائے کہ حکومتِ پاکستان نے کبھی عافیہ صدیقی کی واپسی کے لیے ہمیں تحریری درخواست نہیں دی۔
امریکی پالیسیوں میں تضادات کا ذکر کرتے ہوئے اکرم ذکی نے یاد دلایا کہ امریکہ ہمیشہ دو پالیسیاں رکھتا ہے ایک بیان کرنے کی اور دوسری عمل میں لانے کی۔بیانیہ پالیسی وائٹ ہاؤس کی جانب سے اعلیٰ اقدار اور اصولوں پر مبنی خوبصورت بیانات کی شکل میں سامنے آتی ہے جبکہ عملی طور پر اختیار کی جانے والی پالیسی سی آئی اے کی قیادت میں اپنے گھٹیا مفادات کے حصول کے لیے اپنائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان دونوں پالیسیوں کا فرق اُس وقت ختم ہو گیا جب بُش سینئرقامریکہ کا صدر منتخب ہوا۔ یوں دراصل امریکہ کا خفیہ ادارہ سی آئی اے وائٹ ہاوس میں داخل ہو گیا۔
اکرم ذکی نے بُش دور کو لا قانونیت اور ناانصافی کا دور قرار دیااور کہا کہ آمریت اور انصاف میں تنازع ازل سے چلا آرہا ہے تاہم تاریخ نے ہمیشہ انصاف کی برتری اور اس کی فتح کی گواہی محفوظ کی ہے۔

 

DSC 0504 2 DSC 0480

انہوں نے کہا کہ اگر آپ ویت نام کی جنگ سے آج تک امریکی جنگوں کے نقصانات کو جمع کرکے دیکھنا چاہیں تو دیکھیے کی امریکی معیشت کو کیسے طریقے سے تباہ کیا گیا ہے۔
یہ تمام جنگیں غلط مفروضوں کی بنیاد پر شروع کی گئیں اور امریکی عوام کو مسلسل جھوٹ سنایا گیا۔ آج افغانستان میں لڑنے والاکوئی امریکی سپاہی یہ نہیں سمجھتا کہ وہ اس ملک کے دفاع کے لیے لڑ رہا ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ امریکی ہوم لینڈ سیکیورٹی کے ادارے میں دولاکھ پچاس ہزار افراد بھرتی کیے گئے ہیں یہ ادارہ ہر امریکی شہری کی جاسوسی کے لیے کھڑا کیا گیا ہے۔
اکرم ذکی نے واضح کیاکہ خود کو ہمیشہ درست سمجھنے کا زعم ، دشمن کو پہلے گولی مار دینے اور پھر بات چیت کرنے کی نفسیات ، استعمال کر کے پھینک دینے کا صارفی رجحان اور اسٹاک مارکیٹ کی طرح ہر چیز کو بدلتی قیمت کے ساتھ دیکھنا آج امریکی ریاست کی اخلاقی و نفسیاتی خصوصیات کے طور پر اُبھر کر سامنے آئی ہیں۔

 

3 DSC 0532

 

اُنہوں نے کہا کہ جب بھی کسی نے ظلم اور جبر کے خلاف آواز اُٹھائی ہے، اُسے اپنی جان سے جانا پڑا ہے ۔ امریکہ جیسے ملک میں یہ واقعات بار بار ظہور پذیر ہوتے رہے ہیں۔ ایڈ ورڈکینیڈی ، رابرٹ کینیڈی، مارٹن لوتھر کنگ جو نیر وغیرہ شخصیات انصاف کی علمبردار تھیں جو جبرکی قوتوں کے ذریعے قتل کر دی گئیں جن کی نمائندہ سی آئی اے اورایف بی آئی ہیں ۔ انہیں ختم کرنے کا الزام ان ایجنسیوں ہی پر ہے۔ انہوں نے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’’ انسانی روح نے کبھی بھی جبر کو قبول نہیں کیا۔‘‘

نوعیت: روداد سیمینار
تاریخ:۴ دسمبر ۲۰۱۲ء

 

 

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے