آئی پی ایس کے ورکنگ گروپ برائے کشمیر (WGK IPS-) کاگیارہواں اجلاس

آئی پی ایس کے ورکنگ گروپ برائے کشمیر (WGK IPS-) کاگیارہواں اجلاس

ماہرین قانون نے آئی پی ایس کے ورکنگ گروپ برائے کشمیر  (IPS-WGK) کے  گیارہویں اجلاس میں اس بات پر اتفاق کا اظہار کیا کہ مسئلہ کشمیر کو موجودہ بین الاقوامی ماحول میں معقول انداز میں پیش کرنے کے لیے قانونی دفعات اور فورمز کا انتخاب ،زبان اور متعلقہ اصطلاحات ، پیش کیے گئے حقائق اور اعداد و شمار کا بہترین اور درست چناؤ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

 IPS-WGK11-Pic

ماہرین قانون نے آئی پی ایس کے ورکنگ گروپ برائے کشمیر  (IPS-WGK) کے  گیارہویں اجلاس میں اس بات پر اتفاق کا اظہار کیا کہ مسئلہ کشمیر کو موجودہ بین الاقوامی ماحول میں معقول انداز میں پیش کرنے کے لیے قانونی دفعات اور فورمز کا انتخاب ،زبان اور متعلقہ اصطلاحات ، پیش کیے گئے حقائق اور اعداد و شمار کا بہترین اور درست چناؤ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

۱۷ ستمبر ۲۰۲۰ء کو ہونے والےاس اجلاس  کی صدارت ایگزیکٹو پریذیڈنٹ آئی پی ایس خالد رحمٰن نے کی جبکہ کلیدی خطاب بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی  اسلام آباد کی شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد مشتاق احمد نے کیا ۔ دیگر شرکاء میں آئی پی ایس کی ایسوسی ایٹ اور  IPS-WGK  کی جنرل سیکرٹری فرزانہ یعقوب، ایمبیسیڈر(ر) سید اشتیاق حسین اندرابی، ایمبیسیڈر (ر) تجمل  الطاف،  ایمبیسیڈر (ر) سید ابرار حسین، بریگیڈیئر (ر) سید نذیر مہمند،  جموں و کشمیر لبریشن سیل (JKLC) کے ڈائریکٹر راجہ سجاد خان اور  Legal Forum for Oppressed Voices of Kashmir (LFOVK)  کے بین الاقوامی قوانین کے  ماہر ایڈووکیٹ ناصر قادری  اور دیگر افراد شامل تھے۔

ڈاکٹر مشتاق احمد نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے بین الاقوامی قوانین اور ان کی دفعات  کے ساتھ کھیل رہی ہیں، بعض اوقات تو وہ ان مفادات کو پورا کرنے کے لیے ایک بھرپور بیانیہ بھی ترتیب دیتے ہیں اور پھر ضرورت پوری ہونے پر اسے واپس لے لیتے ہیں۔مثال کے طور پر ۱۹۶۰ کی دہائی میں ایک وقت تھا جب آزادی یا حق خودارادیت جیسی اصطلاحات  ان کے ہاں احترام کے ساتھ استعمال ہو رہی تھیں۔ تاہم ان کی ترجیحات میں آنے والی تبدیلیوں نے وقت کے ساتھ ساتھ ان کے خیالات کو  کافی حد تک تبدیل کر دیا۔ کم از کم ۹/۱۱  کے واقعہ کے بعدانہیں وہی آزادی پسند اب دہشت گرد دکھائی دینے لگ گئے ہیں۔

اسپیکر نے  اس بات کی  نشاندہی کی کہ بین الاقوامی قوانین میں ہونے والی تبدیلیوں اور ترامیم  کے باعث قوائد و ضوابط میں ابہام اور دوہرے معیار کو جگہ مل گئی ہے۔  انھوں نے نئی قانونی راہوں اور آپشنز کے لیے بھی راہ  ہموار کردی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب پاکستان ان تبدیلیوں پر پوری نظر رکھے اور عالمی سطح پرہونے والی پیش رفت میں مواقع  کو اپنے لیے استعمال کرے۔

پاکستان کے لیے موجود قانونی آپشنز پر بات کرتے ہوئے مقرر نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو یہ حقیقت اجاگر کرنا ہے کہ کشمیر کا معاملہ مقبوضہ ہونے کا ہے اور بھارت اس میں قابض طاقت ہے۔  لہٰذا اس معاملے کو جنیوا کنونشن میں موجود قانونی دفعات اور حدود کی روشنی میں دیکھنا چاہیے جس کے مطابق غیرقانونی قبضہ، آبادیاتی تبدیلیاں ، ڈومیسائل قانون ، حراستی قتل ، ۳۵ -اے اور ۳۷۰   کی طرح کے آرٹیکلز کی یکطرفہ منسوخی جیسے اقدامات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی حتمی تبدیلیوں کو جرم گردانا گیا ہے۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا مؤقف یہ ہونا چاہیے کہ  وہ نہ تو آرٹیکل ۳۵-اے اور ۳۷۰ کو اور نہ ہی ان کے اطلاق کو تسلیم کرتا ہے اور نہ اس کا مؤقف ان غیرقانونی دفعات کے خاتمے پر منحصر ہے جس کے باعث مقبوضہ ریاست اب ایک الحاق شدہ ریاست بن چکی ہے اور جس نےمحض کشمیریوں کے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے۔

اسپیکر نے پاکستان کو یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) کی کچھ دفعات کے استعمال پر غور کرے کیونکہ اس سے ہندوستان پر بھرپور دباؤ پیدا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ICJ میں کسی معاملے کی پیروی کرنے کے لیے بہت سارے وقت اور وسائل کی ضرورت ہوتی ہے لیکن فورم سے مشاورتی رائے لینے میں کوئی مجبوری یا کوئی بڑی رکاوٹ نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے قانون کے مطابق اگر کی گئی انکوائری اس کے مینڈیٹ میں ہو تو پوچھے جانے والے کسی بھی سوال  پر رائے لی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے متعلقہ ایک مثال ۲۰۰۳ء  میں سامنےآئی جب ICJ نے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں دیوار کی تعمیر کی قانونی حیثیت کے بارے میں مشاورتی رائے دی۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس مسئلے کو اٹھانے  سے روکنے کی کوشش کی گئی تھی  لیکن چونکہ UNGA میں ویٹو کا نظام موجود نہیں ہے اس لیے اکثریت سے یہ قرار داد  منظور کی گئی کہ تعمیر ہو جانے کی صورت میں اس کے قانونی نتائج پر  ICJ سے پوچھ لیا جائے۔  ICJنے اس کے جواب میں اپنے فیصلے میں ایک بار پھر اس بات کی تصدیق کی کہ یروشلم سمیت وہ تمام علاقے  جن پر ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے قبضہ کیا تھا، مقبوضہ علاقوں کے زمرے میں آتے ہیں اور اگر قابض طاقت ان علاقوں میں دیوار بنانے کی کوشش کرتی ہے تو قبضے کے قوانین، انسانی حقوق کے قوانین اور مسلح تنازع کےقوانین کے مطابق اس کے قانونی نتائج برآمد ہوں گے۔

اسپیکر نے مؤقف اختیار کیا کہ پاکستان کو بھی براہ راست ICJ کے پاس معاملہ لے جانے کی بجائے اسی طرح کا راستہ اختیار کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ اگرچہ انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ اس طرح کے اقدام کے لیے خاطر خواہ بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ لابنگ کی ضرورت ہوگی۔

شرکاء نے ڈاکٹر مشتاق احمد کے اٹھائے گئے نکات کو تسلیم کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اگر اس معاملے کو بین الاقوامی سطح پر مؤثر انداز میں آگے بڑھانا ہے تو اس امر کی ضرورت ہے کہ  ملک میں ماہرین قانون کی کوششوں کو مستحکم اور یکجا کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب پاکستان میں ان تمام معاملات کو اپنے نقطۂ نظر سے دیکھا جاتا ہے تو مغرب بھی تو ان تمام مسائل کو اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آہنگی کا نقطہ تلاش کیا جائے جو کہ صرف اس صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب ہم دنیا کے سامنے اپنا مقدمہ مؤثر اور بھرپور انداز میں پیش کریں۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے