‘ایکسپلورنگ ریلیجئیس کنورژن: آ ڈِسکشن آن آئی پی ایس بیس لائن اسٹڈی’

‘ایکسپلورنگ ریلیجئیس کنورژن: آ ڈِسکشن آن آئی پی ایس بیس لائن اسٹڈی’

مذہبی تبدیلی ایک بہت ہی پیچیدہ اور غیرمعمولی صورتِ حال ہے جو جس سے مختلف قسم کے پہلو منسلک ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں اس متنازعہ مسئلے کو متنوع زاویوں سے دیکھنےکی ضرورت ہے۔ اسے صرف مذہبی نقطۂ نظر سے ہی نہیں  دیکھنا چاہیے  بلکہ اس سےملحق معاشرتی ، معاشی ، تاریخی، سیاسی اور دیگر اہم عوامل کو بھی مدّ نذر رکھنا چاہیے۔

یہ ایک ویبنار کے شرکاء کے درمیان مشترکہ اتفاق رائے پر مبنی بحث کا خلاصہ ہے  جو  ‘Exploring Religious Conversions: A Discussion on IPS Baseline Study’ کے عنوان سے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں 17 دسمبر 2020 کو منعقد ہوا۔

 اس مباحثے کا مقصد انسٹی ٹیوٹ کے کیے گئے مطالعہ ‘Forced Conversions or Faith Conversions: Rhetoric and Reality‘ پر اس میدان کے ان قومی اور بین الاقوامی  ماہرین سے تنقیدی آراء حاصل کرنا تھا ، جو پاکستان میں بڑے پیمانے پر تشہیر کر دیے گئے اس موضوع پر تحریری مواد اور رپورٹوں کا تنقیدی جائزہ لیتے رہتے ہیں۔اسی طرح اس مقاصد میں محقق کےنسل انسانی پر فہم و ادراک اور متعلقہ موضوع کے ساتھ اس کی وابستگی کے باعث اس کا براہ راست  انٹرویوبھی مطمع نظر تھا۔

 اس سیشن کی صدارت ایگزیکٹو صدر آئی پی ایس خالد رحمٰن نے کی۔ اس اجلاس سے جن لوگوں نے خطاب کیا ان میں آئی پی ایس کے ریسرچ فیلو اور اس مطالعہ کا آغاز کرنے والےمصنف غلام حسین صوفی، (CNRS) Centre National de la Recherche Scientifique, Paris کے سینئر ریسرچ فیلو مائیکل بوئیون، سنٹر فور سوشل سائنسز اینڈ ہیومینیٹیز ( CSH) نئی دہلی کے سربراہ محقق  ڈاکٹر جولین لیویسکی سنیل، جندال اسکول آف گورنمنٹ اینڈپبلک پالیسی جندل گلوبل یونیورسٹی  نئی دہلی  کے ایسوسی ایٹ پروفیسر  ڈاکٹر سمیت مہاسکر،   نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز (این آئی پی ایس)  قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد رد،  اور ریسرچ انیشی ایٹو پاکستان  کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر   ڈاکٹر نذیر مہر  شامل تھے جبکہ جرمنی کے شہر گٹینجن سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی و ثقافتی ماہر بشریات اور جنوبی ہندوستان کی کچی آبادیوں پر کی گئی تحقیق پرمبنی   کتاب کے ایوارڈ یافتہ مصنف ڈاکٹر نتھانیئل روبرٹس کا تبصرہ ، سینئر آئی پی ایس ریسرچ آفیسر سید ندیم فرحت نے پڑھ کر سنایا۔

 سیشن کی کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے غلام حسین نے اس مطالعے کی ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالی ۔ انہوں نے سامعین کو آگاہ کیا کہ پاکستان میں جبری طور پر مذہب کی تبدیلی کا معاملہ نہ صرف محققین، ماہرین تعلیم، پالیسی سازوں اور عوام کے لیےبہت اہمیت کا حامل ہے بلکہ ریاست اور پاکستان کی حکومت کے لیے بھی بہت اہم ہے  اس لیےاسےنظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ایک محقق کی حیثیت سے وہ سمجھتے ہیں کہ کسی کے لیےبھی مشہور عام قصے کہانیوں کی رو میں بہ جانا آسان ہےلیکن ان کی رپورٹکا مقصد لوگوں کو عام فہم سوچ کی نسبت اس مسئلے پر ایک مختلف نقطۂ نظر پڑھنے پر مائل کرنااور ان میں یہ فہم پیدا کرنے کا تھا کہ کس طرح  مقامی اور عالمی سطح پر ایک بیانیہ تخلیق کیا جارہا تھا اور مخالفین کے ذریعہ بین الاقوامی فورموں پر ملک کے نام کو بار بار بدنام کرنے کے لیے اس کی تشہیر کی جا رہی تھی۔

 محقق نے پینلسٹ کو بتایا کہ اس سیشن کے انعقاد کا مقصد متعلقہ اسکالرز اور دانشوروں کے ساتھ تبادلۂ خیال کرنا تھا تاکہ مطالعہ کےموادپرمؤثر تنقیدی آراء حاصل کی جا سکیں،  اس مطالعہ  میں کسی بھی ادارہ جاتی یا مقامی تعصب کی نشاندہی ہو سکے، ایسا مضمون یا موضوع علم میں لایا جا سکے جسے چھیڑا نہ جا سکا ہو یا جس کی  غلط تشریح کی گئی ہو ، نظریاتی پوزیشن اور تجرباتی ثبوتوں کے مابین کسی ہم آہنگی کے فقدان کو سامنے لایا جا سکے، مبینہ طور پر مرتکب افراد اور متاثرین سے رجوع کرنے کے بہترین طریقوں سے متعلق تجاویز کو سامنے لانا آسان ہو اوربھراس طرح کے نازک معاملات کے لیے کیے جانے والے انٹرویوز میں جن  امور اور پہلوؤں  کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہوتا  ہے انہیں نظر میں رکھا جا سکے۔

 صوفی نے ان مختلف مسائل اور چیلنجوں پر بھی روشنی ڈالی جن کا سامنا انہیں اس مطالعہ کے دوران  کرنا پڑا ۔ انہوں نے کہا کہ اس میں خاص طور پر طریقۂ کار، موضوع کی ماہیت اور اس کی حدود کے علاوہ  محل وقوع پر ایک اضطراب  کی سی کیفیت کے معاملات  شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے کام کےعمل میں بنیادی اعداد و شمار کا ایک بڑا حصہ جمع کرنے کےلیے انہوں نے تمام متعلقہ فریقین کو  اعتما د میں رکھنے کی کوشش کی جن میں مبینہ مجرم ، متاثرین ، مذہبی علماء،  اقلیتوں کے اسکالرز ، قوم پرست وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے ان شخصیات، این جی اوز اور ان کے نمائندوں کو بھی نظر میں رکھا جو مختلف فورمز پر اس مسئلے کو اٹھا رہے تھے اور معلومات ذخیرہ کرنے کے لیے ان سےرابطہ کرنے اور تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں ان کی طرف سے زیادہ ردعمل نہیں ملا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ مطالعہ جاری ہے اور ابھی یہ صرف عارضی مراحل میں ہے کیونکہ ابھی بھی اس سلسلہ میں دیگر فریقین جن میں پولیس، جج ، وکلاء ، منتظمین، پناہ گاہوں کے قیدیوں اور متعلقہ قانون سازوں سے شواہد اکٹھےکرنے کی ضرورت ہے۔  انہوں نے شرکاء کو یہ بھی بتایا کہ وہ حال ہی میں 18 دن کے وسیع تر عملی کام کے بعد جنوبی سندھ سے واپس آئے ہیں جس میں انہوں نے  80 سے زائد انٹرویوز  کیے ہیں جن کا تجزیہ کیا جائے گا اور ان پینلسٹس کی سفارشات کے ساتھ ساتھ رپورٹ کے تفصیلی ایڈیشن میں  انہیں بھی شامل کیا جائے گا۔

 معززپینلسٹس نے مطالعہ کو مزید بہتر اورجاندار بنانے کےلیے اپنی آراء اورتجاویز پیش کیں۔ ان سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مذہب کی تبدیلی جنوبی ایشیا کا ایک پیچیدہ اور حساس  مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ بہت احتیاط سے کام لیا جانا چاہئے۔ پینلسٹس کی رائے تھی کہ اگرچہ  جس مسئلے کا بنیادی خاکہ مطالعہ میں زیرِ بحث ہے اس کا تعلق بنیادی طور پر پاکستان میں اقلیتوں کی سماجی و معاشی صورتحال سے ہے  لیکن اس رجحان کے تاریخی تناظر کو بھی دھیان میں رکھنا چاہیے اور اسے مستقبل کے کام کاحصہ بنایا جانا چاہیے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ جہاں مباحثہ شدہ علاقوں میں صنفی تناسب بھی ہندوستان میں یوپی اور ہریانہ کی طرح مذہب کی تبدیلی کے پیچھے ایک عامل ہوسکتا ہے، وہیں سندھ میں اونچی اور پسماندہ ذات کے ہندوؤں کے مابین کسی بھی قسم کی تفاوت کا بھی مطالعہ کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ جاننا مفید ہوگا کہ کیا ان کے مابین کسی قسم کا تعلق موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مذکورہ بالا کے علاوہ ،تجزیہ کرتے وقت اسلام قبول کرنے کے عمومی عالمی رجحان کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔

 مجموعی طور پر  پینلسٹس نے بیس لائن مطالعہ میں کیے گئے کام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب ملک میں اس طرح کی جامع تحقیق اور اتنے بڑے اعداد و شمار جمع کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ کی اصل اہمیت اس موضوع پر تحقیق، اعداد و شمار اور تجزیہ کو ایک ساتھ لانے میں تھی اور کچھ حصوں میں بہتری کی ضرورت کے باوجود یہ قابل تعریف کوشش ہے۔

 ایگزیکٹو صدر آئی پی  ایس خالد رحمٰن نےاجلاس کا اختتام کرتے ہوئےشرکاء کو یہ بتایا کہ انسٹی ٹیوٹ کی تیار کردہ اصل رپورٹ  چار سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے لیکن انسٹی ٹیوٹ نے مزید مشاورت کے ساتھ نتائج کو مزید بہتر اورجاندار بنانے کے لیے بنیادی مطالعہ  کو سامنے لانے  کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے اس اجلاس کو اس لحاظ سے بہت اعتماد بخش قرار دیا کہ اس میں ایسے لوگوں نے حصہ لیا  ہےجو سچائی کو جاننا اور اسے منظرعام پر لانا چاہتے ہیں۔ ایک تھنک ٹینک کی حیثیت سے حقیقت کو ڈھونڈنا اور اجاگر کرنا انسٹی ٹیوٹ کا عزم رہا ہے ۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اسی جذبے کے تحت اس اجلاس کا انعقاد کیا گیا ہے تاکہ کی گئی کوشش پر اس موضوع کے ماہرین سے آراء کو جمع کیا جا سکے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے