‘بدلتی ہوئی مقامی حرکیات میں ہندوستانی عزائم پر سوچ وچار ‘

‘بدلتی ہوئی مقامی حرکیات میں ہندوستانی عزائم پر سوچ وچار ‘

حالیہ بھارتی انتخابات میں طاقت کی بدلتی ہوئی حرکیات مستقبل میں آنے والی تبدیلی کا اشارہ دیتی ہیں

بھارت میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کو ملنے والا دھچکا ملک میں طاقت اور اثر و رسوخ کی بدلتی ہوئی حرکیات میں ایک علامتی تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے، لیکن فی الحال یہ حرکیات زیادہ معنی خیر نہیں ہیں اور محض تبدیلی کے عمل کے آغاز  کا  عندیہ دیتی ہیں۔

اگرچہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انڈیا الائینس کی پیشرفت کی وجہ سے بی جے پی کی مقبولیت میں کمی آئی ہے، لیکن اصل میں زیادہ تر مسائل کے بارے میں اپوزیشن کا نقطہ نظر بنیادی طور پر بی جے پی کا آئینہ دار ہی ہے۔ 1965 اور 1971 کی جنگیں اور کانگریس کے دور میں بابری مسجد کا انہدام جیسے تاریخی واقعات اس مماثلت کو ظاہر کرتے ہیں۔ مزید برآں، ووٹوں کی دوبارہ تقسیم بی جے پی کے اثر و رسوخ میں حقیقی کمی کے بجائے بڑی حد تک مسلم-دلت اتحاد سے منسوب کی جا رہی ہے۔

اگرچہ مخلوط حکومت میں بھی  بی جے پی کے اندر طاقت کی مرکزیت میں نمایاں کمی کا امکان نہیں ہے، لیکن بی جے پی پر قانون سازی کے چیک اور بیلنس میں اضافہ کے ساتھ سول سوسائٹی کی کردار میں بھی اضافہ کی توقع ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ سیاسی منظر نامہ "نظر رکھنے” کے مرحلے میں ہے، جس میں اتحاد کے لیے اندرونی اور بیرونی دونوں طرح سے مضبوط اور کمزور کرنے والے عوامل کارفرما ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) اسلام آباد کے زیر اہتمام ‘انڈین ایمبیشنز ان چینجنگ ڈومیسٹک ڈائنامکس’ کے عنوان سے منعقدہ سیشن کے دوران کیا گیا۔ سیشن کی صدارت آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن نے کی، اس کی نظامت وائس چیئرمین آئی پی ایس سفیر سید ابرار حسین نے کی، جبکہ اس نشست سے پالیسی تجزیہ کار اور اسٹریٹیجِسٹ ڈاکٹر سید محمد علی ، انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد کے انڈیا اسٹڈی سنٹر کے  ڈائریکٹر ڈاکٹر خرم عباس ، سینٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹجک سٹڈیز آزاد جموں کشمیر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عاصمہ شاکر خواجہ، اور دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سید نذیر نے خطاب کیا ۔

محمد علی نے نوٹ کیا کہ ہندوستان کا تزویراتی رویہ شناختی سیاست سے شدید متاثر ہے، جو اس کے اشرافیہ میں عدم تحفظ کے احساس سے پیدا ہوتا ہے۔ اس عدم تحفظ کی جڑ اس تصور میں ہے کہ  مسلمانوں اور انگریزوں جیسے غیر ہندو حکمرانوں نے ایک متحدہ جنوبی ایشیا پر کامیابی سے حکومت کی، لیکن  ہندو رہنما ایسا نہیں کر سکے۔ شناخت کی اس سیاست نے تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ہندوستان کو ایک غالب ہندو سپر پاور کے طور پر قائم کرنے کے لیے دو طرفہ عزائم کو فروغ دیا ہے۔

محمد علی نے مزید کہا کہ اس اسٹریٹجک مقصد کے یہ طور طریقے ہندوستانی پارلیمنٹ میں ایک مضبوط اپوزیشن کی آواز سے متاثر ہو سکتے ہیں۔البتہ ہندوستان اپنی معلومات، سفارت کاری، معیشت اور فوجی طاقت کی ٹُول کٹ کے ذریعے اس اسٹریٹجک مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ عناصر اجتماعی طور پر علاقائی اور عالمی سطح پر اپنا تسلط جمانے کی ہندوستان کی کوششوں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر خرم عباس نے اتحادی سیاست کی وجہ سے مودی حکومت کے اندر ابھرتے ہوئے چیک اینڈ بیلنس پر بی جے پی کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے والی ایک اہم تبدیلی کے طور پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تبدیلی مودی کو اتحادیوں کی منتخب حمایت کرنےپر مجبور کر سکتی ہے۔ تاہم، آئینی ترامیم اور سیٹوں کی حد بندی کے بارے میں اپوزیشن کے سخت تحفظات بی جے پی کے لیے چیلنج  ہیں۔

مسلمانوں سے متعلق مودی کی پالیسیوں کے بارے میں انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اگرچہ حکمت عملی میں تبدیلی کے باعث ان کا نقطہ نظر ظاہری طور پر مختلف دکھائی دے سکتا ہے، لیکن ان کے بنیادی پالیسی کے مقاصد میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں  دیتی۔ مسلم اور دلت ووٹ بینک کا حالیہ اتحاد مودی کو مستقبل کے انتخابات میں ان اقلیتوں کو خوش کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہے۔

ڈاکٹر اسماء نے اس بات پر زور دیا کہ انتخابات کے بعد ہندوستان کے اسٹریٹجک رویے میں کوئی خاص تبدیلی آنے کا امکان نہیں ہے کیونکہ اس کی جڑیں ایک ہزار سال پر محیط اسٹریٹجک ثقافت سے جڑی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی تزویراتی ثقافت علاقائی اور شناخت پر مبنی نوعیت کی ہے۔ اس تناظر میں پاکستان سے متعلق مودی کے آپشنز یا تو اپنی لیگیسی قائم کرنے کے لیے پرامن ہاتھ بڑھانا، یا اپنی عوام میں عدم تحفظ پیدا کرنے کے لیے جھوٹے فلیگ آپریشن کرنا، یا پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے اسٹریٹجک پراکسی کا استعمال کرنا ہو سکتا ہے۔

اس کی توثیق کرتے ہوئے بریگیڈیئر سید نذیر نے روشنی ڈالی کہ اپوزیشن کے باوجود بی جے پی پارلیمنٹ میں اب بھی غالب ہے۔ اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے مودی کو سماجی عدم استحکام اور معاشی ناہمواری جیسے مسائل کو ٹھیک کرنے کے لیے کام کرنا پڑ سکتا ہے۔

خالد رحمٰن نے نوٹ کیا کہ ہندوستان کا موجودہ سیاسی ماحول ایک پیچیدہ اور ابھرتے ہوئے منظر نامے کی حیثیت رکھتا ہے، جو طاقت کی حرکیات میں علامتی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ البتہ کسی قطعی نتیجے پر پہنچنا ابھی قبل از وقت ہے کیونکہ ہندوستان کی اسٹریٹجک ثقافت میں کسی بڑی تبدیلیوں کا امکان نہیں ہے۔ اس طرح بی جے پی کے اندر اقتدار کی مرکزیت جاری رہنے کی توقع ہے، اگرچہ یہ ایک بہتر قانون سازی کی نگرانی اور سول سوسائٹی کے اضافی کردار کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس اتحاد کے اندر موجود مضبوط اور کمزور عناصر کی موجودگی کی وجہ سے تبدیلی کے اس دور پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے