سابق وزیرِ اعظم افغانستان گلبدین حکمت یار کا آئی پی ایس میں خصوصی خطاب

سابق وزیرِ اعظم افغانستان گلبدین حکمت یار کا آئی پی ایس میں خصوصی خطاب

افغانستان میں ایک غیر جانبدار ، خودمختار حکومت ہی امریکی انخلاء کے بعد داخلی خانہ جنگی روکنے کا واحد راستہ ہے: گلبدین حکمت یار

سینئیر افغان سیاسی رہنما اور حزبِ اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں دیر پا امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ جلد از جلد ملک سے امریکی افواج کا انخلاء ہو اور افغان نظریات، افکار اور روایات کی مطابقت سے بغیر کسی بیرونی دخل اندازی کے ایک آزاد، خود مختار اور غیر جانبدار حکومت کا قیام عمل میں لایا جائَے جبکہ ایسا نہ کرنے کا نتیجہ ایک اور داخلی خانہ جنگی کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی دعوت پر ہونے والے اپنے تین روزہ دورے کے اختتام پر انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی منعقدہ ایک نشست میں خارجہ پالیسی کے تجزیہ کاروں، پیروکاروں، صحافیوں، اور ذرائع ابلاغ کے نمائیندوں سمیت دیگر حاضرین کی ایک بڑی تعداد سے خطاب میں کیا۔ اس نشست کی صدارت آئ پی ایس کے ایگزیگٹیو صدر خالد رحمٰن نے کی، میزبانی آئ پی ایس کے سینئیر ایسوسی ایٹ ایمبیسیڈر [ر] سید ابرار حسین نے کی جبکہ پاکستان میں افغانستان امور پر خصوصی نمائیندے ایمبیسیڈر [ر] محمد صادق بھی اس موقع پر موجود تھے۔

حکمت یار کا کہنا تھا کہ افغانیوں نے ملک میں جاری جنگ کے دوران بیرونِ ملک، بالخصوص ترکی اور خلیج میں سرمایہ کاری کی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستان کو بھی افغان سرمایہ کاروں اور کاروباری افراد کی طرف سے سرمایہ کاری کو آسان بنانے لے لیے سہولیات فراہم کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں یورپی ممالک کی طرح پاسپورٹ کی بنیاد پر بالخصوص بینک اکاونٹ کھولنے، پراپرٹی کی خرید و فروخت، اور لمبے عرصے کے لیے ویزے کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔

اپنے دورے کے دوران پاکستان میں اعلیٰ سطح کی قیادت سے ملاقات کرنے والے سینئیر افغانی رہنما کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکّام سے ان کی اس بارے میں بات بھی ہوئَ ہے اور وہ پُر امید ہیں کہ اس سلسلے میں کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ 1990 کے عشرے میں دو دفعہ افغانستان کے وزیرِ اعظم رہنے والے افغان سیاسی رہنما کا کہنا تھا کہ یہ انصاف کا تقاضہ ہے کہ افغانستان کے لیے سالہا سال قربانیاں دینے والے  افراد کو ملک چلانے کا حق دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام افغان گروپس کو کسی غیر جانبدارانہ مقام پر ایک دوسرے سے مذاکرات کرنے کا موقع ملنا چاہیے جبکہ مذاکرات کا ایجنڈا افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء اور افغانستان میں ایک خود مختار حکومت کا قیام ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ دیگر قومی مسائل جیسے آئین اور نظامِ حکومت قیامِ امن کے بعد بھی زیرِ بحث آ سکتے ہیں۔ ایسے تمام مسائل داخلی معاملات ہیں اور کسی بیرونی طاقت کو اس میں دخل اندازی کرنے کا کوئے حق نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو افغاستان میں بغیر کوئَ مقصد حاصل کیے ہوئے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور وہ کابل میں موجود نا اہل حکومت کو اس کی وجہ گردانتی ہے۔ اب امریکہ کا اپنے انخلاء کی پالیسی کو تبدیل کر دینا بھی ایک سنگین غلطی ہو گی۔

حکمت یار کا یہ بھی خیال تھا کہ بد قسمتی سے کچھ ممالک امریکی فوج کے انخلاء ک صورت میں افغانستان میں پیدا ہونے والے کسی قسم کے خلاء سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں. انہوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ امریکہ روس سے جنگ کے بعد افغانستان میں اپنی پُتلی حکومت بنانے والی غلطی نہیں دہرائےگا۔

ان کا یہ بھی خیال تھا کہ افغانستان کی زمین کو امریکہ کی روس کے خلاف، انڈیا کی پاکستان کے خلاف اور ایران کی سعودیہ کے خلاف رقابت میں نہیں استعمال کرنا چاہیے۔ انہوں نے انڈیا اور ایران کی موجودہ کمزور افغان حکومت کی حمائیت کرنے پر بھی حیرت کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں خانہ جنگی بھارت سمیت کسی کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہو گی۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ بھارت کی موجودہ افغان حکومت کی حمائِت کرنے کی ایک وجہ تنازعہِ کشمیر بھی ہو سکتا ہے لیکن بھارت کو اس تنازعہ کو افغانستان میں کسی صورت منتقل نہِیں کرنا چاہیے۔

حکمت یار کا کہنا تھا کہ کہ وہ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کی حمائیت کرتے ہیں اگرچہ اس کے طریقہ کار کے بارے میں ان کی اپنے کچھ تحفظات بھی ہیں۔ البتہ اس میں یہ بات قابلِ تحسین ہے کہ اس کے ذریعے امریکی افواج کا انخلاء عمل میں آ رہا ہے اگرچہ اس کی مدّت کچھ کم ہونی چایئے تھی۔

ان کا یہ بھی خیال تھا کہ زیادہ تر سیاسی پارٹیاں افغان حکومت کی حمائِت نہیں کر رہیں کیونکہ موجودہ حکومت مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہے۔

حکمت یار نے یہ بھی کہا کہ تمام فریقین کو مذاکرات میں شامل کئے بغیر افغاستان میں امن ممکن نہیں ہے جبکہ حزبِ اسلامی اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا مقصد پائیدار اور دیر پا عمل کا قیام ہے۔

 انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان کے معاملے پر امریکہ کا ساتھ دیا لیکن امریکہ پھر بھی بھارت کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کے اپنے مفاد اور طریقہ کار ہوتے ہیں۔

حکمت یار نے کہا کہ ان کا پاکستان کا دورہ ایک ایسے وقت پر عمل میں آیا ہے جبکہ افغانستان میں مذاکرات ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔ اس دورے میں انہوں نے یہ محسوس کیا ہے کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کا شدید خواہشمند ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت نے انہیں یقین دلایا ہے کہ تمام باہمی مسائل آہستہ آہستہ باہمی رضا مندی سے حل کر لیئے جائیں گے۔

انہوں امن کے اس عمل میں پاکستان کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بغیر یہ سب شائید ممکن نہیں تھا۔

 اس سے پہلے خالد رحمٰن نے اپنی ابتدائی تقریر میں کہا کہ گلبدین حکمت یار 1980 کی دہائ میں سوویت یونین کے خلاف مزاہمت کرنے والے اوّلین رہنماوں میں سے ایک تھے اور انہوں نے میدانِ جنک سے لے کر سیاسی میدانوں تک افغانستان کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کے قیام کے خواہاں تمام فریقین کو ایک صفحے پر آنے کی ضرورت ہے، اور اس ضمن میں یہ ایک اچھا اقدام ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے رہنما اور قائدین اس طرح کی تعمیری گفتگو میں شریک ہو رہے ہیں۔

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے