”جیو پولیٹکس آف میری ٹائم سلک روڈ : پاور شفٹ یا کمپی ٹیٹو کو ایگسزٹنس“

”جیو پولیٹکس آف میری ٹائم سلک روڈ : پاور شفٹ یا کمپی ٹیٹو کو ایگسزٹنس“

’سمندری راستوں کی بے انتہاحساسیت ریاستوں کو مسابقتی بقائے باہمی کی پالیسی اپنانے کے لیے تحریک فراہم کرتی ہے‘: ماہرین

 Geopolitics-of-Maritime-Silk-Road

’سمندری راستوں کی بے انتہاحساسیت ریاستوں کو مسابقتی بقائے باہمی کی پالیسی اپنانے کے لیے تحریک فراہم کرتی ہے‘: ماہرین

چین کے مطابق، میری ٹائم سلک روڈ(ایم ایس آر) بنیادی طور پر ایک اقتصادی اقدام ہے جس کا کوئی سٹریٹجک مقصد نہیں ہے۔ یہ چین اور ان ممالک کے درمیان باہمی انحصار کو بڑھاتا ہے جو اس اقدام کا حصہ ہیں۔تاہم اس کے ساتھ ساتھ، جیسے جیسے چین اقتصادی طور پر زیادہ مضبوط ہوتا جا رہا ہے، وہ باہمی انحصار کو ہتھیار بنا کر، یعنی ایک دوسرے پر انحصار کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر، ان ممالک کی پالیسیوں پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔ اس سے چین کو طاقت کے عناصر کو مضبوط کرنے، عالمی نظام کے ڈھانچے کو از سر نو تشکیل دینے اور موجودہ جمود کو تبدیل کرنے میں بعض جیو پولیٹکل اور جیو اکنامک فوائد مل سکتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جیو پولیٹکل کشیدگی کے ساتھ ساتھ کچھ اقدامات کی خلاف ورزیاں بھی سامنے آرہی ہیں۔

سیکیورٹی روابط اور تزویراتی فضا کے واحد خطرے کونمایاں کرنے کے لیے امریکہ نے اسٹریٹجک معاملات کو ایشیا پیسیفک پالیسی سے انڈو -پیسیفک پالیسی کی طرف منتقل کر دیا ، علاقائی سلامتی کی بحث کو ہوا دی اورکوآڈ کو دوبارہ منظم کیا۔ مزید برآں، جیسا کہ امریکہ کا مقصد ایک معیاری اتحاد کے ذریعے چین پر قابو پانا ہے، اس نے متبادل اقتصادی منصوبے شروع کیے، جیسے کہ بلڈ- بیک -بیٹراور انڈو- پیسیفک اکنامک فریم ورک ، جن میں چین شامل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ، امریکہ طاقت کا توازن قائم کرنے کے لیے علاقائی ممالک کی مضبوط اور سٹریٹجک فیکلٹی کو بھی تقویت دے رہا ہے۔ اس سے نہ صرف اس کا جمود برقرار رہے گا بلکہ دوسرے سمندروں میں چین کے سٹریٹجک مقاصد اور اثر و رسوخ کا بھی مقابلہ ہو گا۔ اگرچہ مسابقتی حکمت عملی ابھر رہی ہے اور ریاستیں اپنے قومی مفاد کے حصول کے لیے زیادہ طاقت ور ہونے کے جتن کر رہی ہیں لیکن بڑے پیمانے پر بحری تصادم کا کوئی امکان نہیں ہے، جس کی وجہ سمندری تجارتی راستوں پرریاستوں کا انحصار ہونا ہے۔

میری ٹائم  کے شعبے میں ترقی پذیر تزویراتی منظر نامے کو سمجھنے کے لیے، ’جیو پولیٹکس آف میری ٹائم سلک روڈ: پاور شفٹ یا کمپی ٹیٹو کو ایگسزٹنس‘ کے عنوان سےایک سیمینار منعقد ہوا ۔ اس سیمینار کا انعقاد آئی پی ایس اور میری ٹئم اسٹڈی فورم(ایم ایس ایف) نے3مارچ 2022 کو مشترکہ طور پر کیا ۔

اس سیمینار کی صدارت وائس ایڈمرل افتخار احمد راؤایچ آئی (ایم) (ریٹائرڈ)نے کی اور کموڈور جواد اختر کھوکھر، مشیر، میری ٹائم افیئرز، وزارت منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ ڈاکٹر ملیحہ زیبا خان، اسسٹنٹ پروفیسر، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد نے کلیدی خطاب کیا، جبکہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، ملائیشیا کے ریسرچ اسکالر، لوکمان کراداگ اور نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز کے لیکچرر عطال خان نے متعلقہ موضوعات پر اپنی پریزنٹیشنز پیش کیں۔. پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام، کموڈور (ر) بابر بلال حیدر اور سینئر آئی پی ایس ایسوسی ایٹ امان اللہ خان نے بھی اجلاس میں شرکت کی اور بحث مباحثہ میں حصہ لیا۔سیمینار کے اختتام پر وائس چیئرمین آئی پی ایس ایمبیسیڈر (ر) سید ابرار حسین نےشرکاء کا شکریہ ادا کیا۔

سیمینار کا آغاز کرتے ہوئے، وائس ایڈمرل افتخار راؤ نے کہا کہ عالمی معیشت میں بحر ہند کی اہمیت کی وجہ سےایم ایس آرکی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ زمینی اور سمندری راستے کو جوڑنا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ پاکستان کو اس قابل بنائے گا کہ وہ بی آر آئی کے دونوں اطراف سے مستفید ہو سکے۔ انہوں نے خلیجی خطے اور سوئز کینال کی وجہ سے مغربی بحر ہند کی اہمیت پر مزید زور دیا۔

ڈاکٹر ملیحہ زیبا نے اپنی کلیدی تقریر میں کہا کہ دنیا بھر میں رابطے کا تصور ابھر رہا ہے کیونکہ دنیا مختلف سڑکوں اور راہداریوں کے ذریعے آپس میں جڑی ہوئی ہے۔ سمندر کے ذریعے رابطہ بھی اس ترقی پذیر رجحان کا مرکز ہے اور جب سے چین نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو(بی آر آئی) منصوبے کا آغاز کیاہے، اس نقطۂ نظر نے اور بھی زیادہ توجہ حاصل کرنا شروع کر دی ہے۔ایم ایس آرکے ذریعے، چین حقیقت پسندانہ مقاصد کی پیروی نہیں کر رہا  اوررابطوں کے متعدد چینلز کو وجود میں نہیں لا رہا ہے۔ایم ایس آرکی وجہ سے، چین میری ٹائم شعبے میں  تبدیلی کے خواہشمند ایک کردار کے طور پر ابھر رہا ہے اور امریکہ کے قائم کردہ بلیو آرڈر کے جمود کو ہلا کر رکھ رہا ہے۔جبکہ، فوجی میدان میں روایتی اور غیر روایتی خطرات موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ معاشی پہلو سے، قوم کو انسانی سلامتی اور انسانی ترقی پر جامع ترقی کی ضرورت ہے۔ مزید برآں، انہوں نے ان خطرات پر روشنی ڈالی جن کاایم ایس آرکو سامنا ہے، جیسے پاپولزم، ہائبرڈ جنگ، اور مقامی آبادی کی شکایات۔

اپنی کلیدی تقریر کا اختتام کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ ایم ایس آرپیچیدہ باہمی انحصار کو جنم دے کر جمود کو چیلنج کر رہا ہے۔ تاہم، جیو پولیٹیکل مقابلہ غیر روایتی سیکورٹی چیلنجوں کو بڑھا سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ مسابقتی بقائے باہمی ایم ایس آرکی ایک بڑی خصوصیت رہے گا۔

ڈاکٹر ملیحہ کی کلیدی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے، راؤ نے مسابقتی بقائے باہمی کے تصور سے اتفاق کیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف ممالک کے اندرچین کےاقتصادی منصوبوں اورسرمایہ کاری کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں مغرب بھی اقتصادی اور تعمیری  ترقی کے لیے  متبادل راستے  تعمیر کرنے پر مجبور ہو رہا ہے۔ انہوں نے مزید تبصرہ  کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح سرد جنگ کے دوران بحر ہند میں ’غیر ملکی مداخلت نہیں‘ کا ہندوستانی تصور صرف ایک مثبت مقصد کے لیے بحر ہند میں غیر ملکی موجودگی کی اجازت دینے کے موقف میں بدل گیا۔ یہ تبدیلی سرد جنگ کے بعد ہندوستان کے اٹھان کے بعد ہوئی۔ ہندوستان کو خطے میں سیکورٹی فراہم کرنے والا  ملک بنانے میں امریکہ کے اثر و رسوخ اور مفادات کا ہندوستان کے تسلط پسندانہ عزائم سے گہرا تعلق ہے۔ انہوں نے مزید زور دیا کہ ان وجوہات کی بناء پر پاکستان کو سمندر میں ہونے والی پیش رفت پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔

لوک مین کارادگ نے نشاندہی کی کہ کس طرح مغربی بحرالکاہل میں چین کی بحری سرگرمیاں سیکیورٹی کے مسائل اور جیو پولیٹیکل اثرات پیدا کر رہی ہیں۔ سپیکر کے مطابق میری ٹائم سلک روڈ انیشیٹو اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا جب تک مشرقی اور جنوبی بحیرہ چین کے علاقائی تنازعات اور سلامتی کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ علاقائی طاقت کی سیاست اور چین پر قابو پانے کی بین الاقوامی کوششوں  کے پس منظر میں ایم ایس آرکے مستقبل پر اپنے خیالات پیش کرتے ہوئے، انہوں نے طاقت کی منتقلی کی وجہ سے ہونے والیساختی تبدیلیوں پر بھی بات کی۔

عطال خان نے بحر منجمد شمالی اور قطبی تجارتی راستے کی تبدیلی کے بارے میں اپنے نتائج بھی بتائے۔ انہوں نے اس پر بھی  توجہ دلائی کہ کس طرح شمالی سمندری راستہ نہر سویز کا متبادل بن گیا ہے، جس سے بحرالکاہل اور یورپ کے درمیان تجارتی فاصلہ 9700 کلومیٹر کم ہو گیا ہے۔ اس کی بنیاد پر، انہوں نے قطبی شاہراہ ریشم کے زیادہ سے زیادہ نتائج حاصل کرنے کے لیے منجمد شمالی ، منجمد شمالی میں جہاز رانی کے راستوں اور اس حوالہ سے بین الاقوامی مضمرات اوران کی حدود کی جیو اکنامکس   کو بڑی وضاحت سے بیان کیا۔

کموڈور بابر بلال نے بھی اس موضوع پر اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ چینی پوری دنیا میں اپنے سٹیشن قائم کر رہے ہیں یعنی بحرالکاہل، بحراوقیانوس، بحر منجمد شمالی، بحر ہند اور انٹارکٹیکا کے خطے میں۔ انہوں نے اس پرمزید گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح چین نے تمام اہم سمندری راستوں کو اپنی تجارتی اور اقتصادی تحریک کے لیے استعمال کیا ہے اور میانمار، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، عمان، جبوتی وغیرہ سمیت اہم بندرگاہوں والے تمام ممالک میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین کی مشرقی بندرگاہیں آبنائے ملاکا کے راستے استعمال کرتی رہیں گی اور بحیرہ جنوبی چین میں اپنی موجودگی برقرار رکھیں گی۔ جبکہ، اسی دوران، چین کا مغربی علاقہ بندرگاہوں کی طرف زمینی راستہ استعمال کرے گا۔ یہ کاروباری لحاظ سے کام کا فریم  ورک ہے اور چین اپنے کاروبار کو ان بندرگاہوں سے دوسری بندرگاہوں کی طرف نہیں موڑ سکتا۔ بحریہ کا کردار اور سیکیورٹی چیلنجز خود بخود اس کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ بحریہ کا کردار تجارت کے تحفظ کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا دیگر مقصد کے لیے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے