‘غزہ پر جنگ: بحیرہ احمر میں حرکیات’

‘غزہ پر جنگ: بحیرہ احمر میں حرکیات’

مسئلہِ فلسطین مسلم دنیا کی اجتماعی ترجیح ہونی چاہیے: آئی پی ایس سیمینار

غزہ کا تنازع محض سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ بنیادی طور پر ایک انسانی المیہ ہے، جس سے متعلق مسلم دنیا کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر سطح پر متفقہ ردّعمل کے ذریعے مدد فراہم کرے۔ مسئلہ فلسطین صرف زبانی اظہارِ یکجہتی کا نہیں بلکہ امت مسلمہ کی مربوط اور اجتماعی طاقت کا متقاضی ہے۔

اس بات کا اظہار خلیجِ یمن سے متعلق  امور کے ماہر اور موخا سنٹر برائے تزویراتی مطالعات ،ترکی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عتیق جار اللہ الجربی نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) اسلام آباد میں  ‘غزہ پر جنگ: بحیرہ احمر میں حرکیات’ کے موضوع پرمارچ 4، 2024 کو منعقد ایک تقریب کے دوران کیا۔  معروف دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سید نذیر کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس میں آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن، پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام، پروفیسر ڈاکٹر شہزاد اقبال شام، پروفیسر ڈاکٹر طغرل یامین اور دیگر  مقررین نے شرکت کی۔

ایک صدی سے زائد عرصے پر محیط فلسطین کے بحران کی تازہ ترین صورتِ حال میں تیس ہزار سے زائد عام شہری شہید ہو چکے ہیں جب کہ لاکھوں افراد کو قحط جیسی صورتِ حال اور بے سروسامانی کا سامنا ہے۔ فلسطین کی دینی اہمیت کے باوجود  اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے خلاف مسلمانوں کے اتحاد کی راہ میں اب بھی مسلمانوں اور بالخصوص عرب دنیا میں موجود اختلافات حائل ہیں۔ مسلم دنیا بکھری ہوئی ہے جب کہ ان کے مخالفین مشترکہ مقاصد کی جستجو میں متحد ہیں۔

ڈاکٹر عتیق کا کہنا تھا  کہ عرب دنیا میں کمزوریاں اور ٹوٹ پھوٹ ایک مربوط ردعمل میں رکاوٹ ہے۔ اس میں مشرق وسطیٰ میں اسلام سے وابستگی کی بنیاد پر متحرک تحریکوں اور متعلقہ سیاسی قیادت کے درمیان مثبت رابطے اور اتحاد کا فقدان بھی ایک اہم پہلو ہے ۔ انہوں نے تجویز کیا کہ ان تنظیموں کو اپنے اپنے ملک کی حکومت کے ساتھ مؤثر رابطہ قائم کر کے فلسطین کے حوالے سے مشترکہ قومی موقف وضع کرنا چاہیے اور اس کی طرف اجتماعی طور پر متحرک ہونا چاہیے۔ یمن اس کی  ایک مثبت مثال ہے، جہاں اندرونی تضادات کے باوجود، اسلام پسند تحریکوں اور ریاستی قیادت نے غزہ پر اپنے موقف کو یکجا کیا ہے۔

مہمان مقرر کا کہنا تھا کہ  فرقہ وارانہ کشیدگی، خاص طور پر ریاستی سطح پر سنی اور شیعہ اختلافات نے اس تقسیم کو مزید بڑھا دیا ہے، جس سے اسرائیل کو مسلمانوں کی اندرونی تقسیم سے فائدہ اٹھانے اور فلسطینی قوم پرستوں اور حماس کو بدنام کرنے کا موقع ملا ہے۔ بعض  مسلم ریاستیں حالات کی اسلامی نوعیت اور اہمیت سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے اپنا ردّعمل طے کرتے ہوئے محدود سیاسی، معاشی  یا فرقہ وارانہ عوامل کو ترجیح دیتی نظر آتی ہیں۔

انھوں نے مسلم ریاستوں پر زور دیا کہ وہ فوری انسانی ضروریات کو ترجیح دیتے ہوئے باہم اختلافات کو بالاے طاق رکھیں اور فلسطینی کاز کے لیے کھڑے ہوں۔ بحیرہ احمر میں حوثیوں کی جاری کارروائیاں جہاں نئے خدشات کا باعث بن رہی ہیں، وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ عالمی رائے عامہ کو غزہ میں جاری نسل کشی سے نظریں پھیرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ عوامی  سطح پر بیداری اور اظہارِ یکجہتی کی سرگرمیوں سے لے کر بین الاقوامی سفارت کاری تک ہر سطح پر آواز اُٹھانا اور فلسطین کی بقا اور حقوق کے لیے جدوجہد ہی واحد اجتماعی ترجیح ہونی چاہیے۔

اختتامی کلمات میں بریگیڈیئر (ر) سید نذیر نے اس بات پر زور دیا کہ  فلسطینی عوام کی جدوجہد خود ارادیت اور تسلیم شدہ انسانی حقوق پر استوار ہے۔ اگرچہ بین الاقوامی میڈیا اور عالمی طاقتیں موجودہ صورتِ حال کا  ذمہ دار حماس کو قرار دے رہی ہیں لیکن دنیا کو اسرائیل کے غیر انسانی طرزِ عمل اور انسانی حقوق کی  واضح پامالی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ گزشتہ چار ماہ کے دوران ہونے والے واقعات نے قابض اور جابر اسرائیلی حکومت کے لیے امریکی اور یورپی طاقتوں کی اس غیر مشروط اور انسانیت مخالف پشت پناہی کو بھی بے نقاب کر دیا ہے جس کی وجہ سے اسرائیل عالمی سطح پر ہونے والے کسی بھی احتساب یا دباؤ سے بے خوف ہو کر فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ جنگ مزید  پھیل سکتی ہے اور موجودہ صورتِ حال میں مسلمانوں کا کمزور طرزِ عمل خود ان کے لیے بھی تباہی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ سینئر تجزیہ کار نے مسلم ریاستوں پر زور دیا کہ وہ کسی مفاہمت یا جھوٹی مصلحت کا شکار نہ ہوں اور فلسطین کے خلاف جاری جارحیت کے خلاف ایک مربوط اور متفقہ موقف کے لیے متحد ہو جائیں۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے