پاکستان میں بھاری سرکاری قرضوں، سود کی لاگت اور افراط زر سے نمٹنے کا حل: مکمل ریزرو بینکنگ ماڈل

پاکستان میں بھاری سرکاری قرضوں، سود کی لاگت اور افراط زر سے نمٹنے کا حل: مکمل ریزرو بینکنگ ماڈل

پاکستان میں قرضوں کی فراہمی کے بڑے مسئلے کو حل کرنے کے لیے مکمل ریزرو بینکنگ کی تجویز

پاکستان میں قرضوں کی فراہمی کے مسئلے کو مکمل ریزرو بینکنگ کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، جس سے مہنگائی، حکومتی قرضے اور سود کی لاگت کا خاتمہ ممکن ہے۔ مکمل ریزرو بینکنگ مالی استحکام، اقتصادی ترقی، اور جامع خوشحالی کی طرف تبدیلی کی نمائندگی کرتی ہے، جبکہ اسلامی معاشیات کے اصولوں اور اسلامی بینکاری کی حقیقی بنیادوں سے  بھی اس کا تعلق واضح ہے۔ یہ تجویز چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور معروف اقتصادی تجزیہ کار  قانت خلیل نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں ‘پاکستان میں بھاری سرکاری قرضوں، سود کی لاگت، اور افراطِ زر سے نمٹنے کاحل: مکمل ریزرو بینکنگ ماڈل’ کے عنوان سے26 جنوری 2024 کو ہونے والی نشست میں پیش کی۔ دیگر مقررین میں چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن، سابق ممبر پلاننگ کمیشن ڈاکٹر طاہر حجازی، اور دیگر ماہرینِ اقتصادیات و مالیات شامل تھے۔

پاکستان کی معاشی تحدیات سے نمٹنے کے لیے اپنی تجویز میں قانت خلیل صاحب نے مکمل ریزرو بینکنگ کو دور رس اثرات کے ساتھ تبدیلی کے حل کے طور پر اپنانے کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ حیرت انگیز طور پر حکومتی ریونیو کا 60 فیصد فی الحال سود کی ادائیگیوں کے لیے مختص کیا گیا ہے، جس کی وجہ قرض کی فراہمی پر بڑھتے ہوئے اخراجات ہیں، جو کہ 2003-4 میں 200 بلین روپے سے کم تھے اور اب 2023-24 میں 7300 بلین روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ اس کا ۹۰ فیصد غیر ملکی قرضوں کی بجائے ملکی قرضوں کی مد میں جاتا ہے۔

سپیکر نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ مسلسل بڑھتے ہوئے ملکی قرضوں کے باعث حکومت پاکستان کو اسٹیٹ بینک کی  شرح سود  پالیسی کی وجہ سے بھاری سود کے اخراجات کی ادائیگی کے لیے بینکوں سے بڑے قرضے لینے پڑے۔ پیسے کی سپلائی میں اضافے اور بیرونی تجارتی کھاتے میں بڑے خسارے کی وجہ سے روپے کی قدر میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی ہے ۔

انہوں نے اظہار ِ افسوس  کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی افراط زر کو روکنے کے لیے لاگو کی گئی زیادہ سود کی پالیسی کے مثبت نتائج برآمد نہ ہوئے ۔ انہوں نے پاکستان اکنامک سروے 2022-23 کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ شرح سود اور مہنگائی میں  بیک وقت اضافہ ہو رہا  ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی غیر پیداواری پالیسی پر ورلڈ بینک کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نےاس جانب  اشارہ کیا کہ مالیاتی خسارے کو بینک قرضے کے ذریعے پورا کرنے سے مالیاتی بنیاد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جس سے افراط زر میں نمایا  اضافہ ہوا ہے۔

فریکشنل ریزرو بینکنگ سائیکل پر بات کرتے ہوئے خلیل نے کہا کہ حکومت پاکستان کا اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے بجٹ میں قرض لینے پر بہت زیادہ انحصار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 5 فیصد ریزرو ریشو کا اثر 20گنااثر ہوتا ہے، اور یہ ناپائیدارمالیاتی توسیع کی وجہ بنتی  ہے۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ ان مسائل کا جدید معاشی حل بڑھتے ہوئے حکومتی قرضوں اور شرح سود سے نمٹنے کے لیے مکمل ریزرو بینکنگ ہے۔ اس ماڈل کے تحت اسٹیٹ بینک ڈپازٹس کے خلاف 100 فیصد ریزرو برقرار رکھے گا اور مرکزی اور کنٹرول شدہ رقم کی روانی  کو یقینی بنائے گا۔ مزید برآں ادائیگی اور کریڈٹ کی توسیع کے عمل، یا ڈپازٹ اور انویسٹمنٹ بینکنگ، مکمل طور پر الگ ہو جائیں گے۔ جمع شدہ رقم قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال نہیں کی جا سکے گی۔ بلکہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے کٹوتی سرمایہ کارانہ  بینکوں میں موجود سیونگ اکاوَنٹس سے کی جائے گی۔

امید ہے کہ یہ ماڈل زیادہ ہموار مالیاتی نظام کے ذریعے سود کی شرحوں میں کمی کے ساتھ بھاری حکومتی قرضوں کے بوجھ کو ختم کرنے میں معاون ہوگا۔ خلیل  نے کہا کہ فریکشنل ریزرو سسٹم، جو کہ رقم کی فراہمی میں اتار چڑھاؤ کی بنیادی وجہ ہے، کو ایک مکمل ریزرو سسٹم کے ساتھ مؤثر طریقے سے تبدیل کیا جا سکتا ہے، جس سے ایک مستحکم معاشی ماحول پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مکمل ریزرو بینکنگ کے تصور کا تفصیلی جائزہ لینے سے یہ واضح  ہوتا ہے کہ یہ ماڈل اسلامی معاشیات کے اصولوں اور اسلامی بینکاری کی   بنیادوں کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے۔

طاہر حجازی نے ذکر کیا کہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستانیوں کی محض ایک قلیل تعداد کے پاس بینک اکاؤنٹس ہیں۔ ان اعدادوشمار سے بآسانی مالیاتی رسائی کو بڑھانے کی ضرورت اجاگر ہوتی ہے۔ مجوزہ بینکنگ ماڈل مشکلات اور خطرات سے خالی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، مختلف لابیز اس کی راہ میں حائل ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے شرح سود میں منافع کے اشتراک کو ضم کرنے جیسے دیگر موضوعات کا احاطہ کرنے کے لیے عمیق تحقیق اور گفتگو کی ضرورت کا احساس دلایا ۔

خالد رحمٰن نے صدارتی کلمات پیش کیے۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ مکمل ریزرو بینکنگ ماڈل کے نفاذ کے مسائل پر توجہ دی جانی چاہیے، اور ماہرین کو موجودہ تحدیات سے نمٹنے کے لیے متبادل آپشن تیار کرنا ،نیز  ان پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے۔ انہوں نے ایک ایسا قانونی ڈھانچہ تیار کرنے پر زور دیا جو بینکنگ سسٹم کے لیے زیادہ سازگار ہو، جو کاروبار کو سہولت فراہم کرے، قابلِ ترقی بنائے، اور وسائل کے حقیقی استعمال کے ذریعے انفرادی ضروریات کا حل پیش کرے۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ مکمل ریزرو بینکنگ  منزل بہ منزل آگے بڑھتے ہوئے پاکستان کے مالیاتی شمولیت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ رحمٰن نے مزید کہا کہ آئی پی ایس اس آئیڈیا پر بات چیت اور تحقیق میں سہولت فراہم کرے گا تاکہ اسے مزید بہتر بنایا جا سکے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے یہ قابلِ عمل اور قابلِ قبول ہو سکے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے