کشمیر: مسئلہ، عالمی منظر نامہ اور ناگزیر پالیسی

کشمیر: مسئلہ، عالمی منظر نامہ اور ناگزیر پالیسی

مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر عالمی برادری کو خاموشی ختم کرنا ہوگی۔ وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر

kashmir-issue-international-seminar 

مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر عالمی برادری کو خاموشی ختم کرنا ہوگی۔ وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر

مقبوضہ کشمیر میں بھارت دھمکی اور جبر کو ریاستی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ یہ اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی مجرمانہ خاموشی کو ختم کرے اور بھارت کو اس جارحیت اور مظالم سے روکے جن پر 5 اگست 2019ء کے بعد نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

یہ مطالبہ آزاد جموں وکشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے ”کشمیر: مسئلہ، عالمی منظر نامہ اور ناگزیر پالیسی“ کے عنوان سے 26 نومبر 2019  کومنعقدہ ایک بین الاقوامی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس سیمینار کا اہتمام انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (IPS) اسلام آباد نے پالیسی ریسرچ فورم آزاد جموں و کشمیر (PRFJK) اور میری ٹائم اسٹڈی فورم (MSF) کے اشتراک سے کیا تھا۔

اس بین الاقوامی سیمینار کی صدارت سابق سینیٹر جاوید جبار کی۔ اس تقریب سے قومی اور بین الاقوامی مقررین نے بھی خطاب کیا جن میں  ایگزیکٹو صدر آئی پی ایس خالد رحمٰن، لندن سے تعلق رکھنے والے  تاریخ اور سیاسی معیشت کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر راجروین زوانبرگ، بھارت سے تعلق رکھنے والے  یوگنڈا اور برطانوی پالیسی ساز ڈاکٹر یش پال امرچند ٹنڈن،  امریکہ کی یونیورسٹی آف سینٹرل میسوری میں سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر آکس کلازانڈیس، استنبول یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ہلیل ٹوکر، بھارتی مقبوضہ کشمیر کے سینئر صحافی حال مقیم انقرہ سید افتخار گیلانی، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (NDU) کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر عاصمہ شاکر خواجہ، اسکول آف پولیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسر ڈاکٹر نذیر حسین، کابل میں مقیم ماہرتعلیم اور سیاستدان پروفیسر ڈاکٹر فضل الہادی وزین، سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل آف پاکستان اور صدر MSF ڈاکٹرسید محمد انور، سینئر سیکورٹی تجزیہ کار اور رکن آئی پی ایس نیشنل اکیڈمک کونسل ایئرکموڈور (ریٹائرڈ) خالد اقبال اور آئی پی ایس ایسوسی ایٹ اور سابق رکن آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی فرزانہ یعقوب شامل تھیں۔

فاروق حیدر نے کشمیری عوام کو درپیش صعبتوں اور تکلیفوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 100 دن سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کا محاصرہ کرتے ہوئے کرفیو نافذ کیا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ساتھ ساتھ قومی اور بین الاقوامی معاہدوں کی دھجیاں بکھیر دیں۔ اس عرصے کے دوران ہندوستانی فوج نے کشمیری رہنماؤں سمیت ہزاروں شہریوں کو گرفتار کیا ہے اور گھروں کی تلاشی کے نام پر نہتے کشمیری نوجوانوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک روا رکھا ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ وحشیانہ تشدد، عصمت دری، اجتماعی قتل، جبری گمشدگی، پیلٹ گن کے استعمال اور انسانوں کو ڈھال کے لیے استعمال کرنے کے واقعات کی وسیع پیمانے پر اطلاعات مل رہی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب باقاعدہ  قابض ریاست کی پالیسی کے طور پر کیا جارہا ہے جس میں اس کے تمام اداروں بشمول مقننہ، ایگزیکٹوز، عدلیہ اور مسلح افواج نے بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جہاں ایک طرف ذرائع ابلاغ کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے اور صحافی اپنے بولنے کے حق پر احتجاج کر رہے ہیں وہاں دوسری طرف بھارتی میڈیا متعصبانہ اور جعلی رپورٹنگ کے فن میں مہارت دکھا رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے حالات میں امن و آتشی کی بالکل جھوٹی تصویر پیش کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی پامالی کے ساتھ ساتھ معاشی و اقتصادی حالات بھی  ابتر ہوتے  جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں شدید بحران کھڑا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق  مقبوضہ وادی میں  ستمبر تک ان حالات کی وجہ سے ہونے والے مالی نقصان کا تخمینہ  ایک سو بلین  روپے تک لگایا گیا ہے۔

حیدر نے اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے  مزیدکہا کہ ہندوستان نے آرٹیکل A-35 اور 370 کے خاتمے کے بعد جو عارضی انتظامات کیے ہیں وہ آنسو پونچھنے سے زیادہ کچھ نہیں اور یہ سب کچھ صرف اس لیے کیا جارہا ہے کہ وادی میں آبادی کی شرح کو تبدیل کرنے کی راہ ہموار کی جاسکے جو کہ نہ صرف بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ جنیوا کنونشن کے تحت جنگی جرم بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کی مقبوضہ وادی میں 70 سال سے زائد عرصہ قابض رہنے کے بعد بھی اپنے ناپاک ارادوں  کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بھارت کو وادی میں موجود  اپنی افواج کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کرنا پڑا جو کہ اس بات کا واضح ثبوت ہے  کشمیری عوام اس سب کے حق میں نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ اس جیسے اقدامات کے ذریعے کشمیر کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئ   لیکن کشمیری عوام کے ہمت، حوصلے اور عزم کے سامنے یہ کوشش بھی ناکام ثابت ہو گی۔

حیدر نے مسلہِ کشمیر کے جلد از جلد پر زور دیتے ہوئے مزید کہا کہ اس  مسلے کے حل کی ذمہ داری اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر ہے کہ وہ کشمیر کے ساتھ یتیمی کا سلوک بند کرے ،   اس وقت زیرقبضہ علاقے میں پائے جانے والے حالات کی اصل صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ایک بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے اور کشمیری عوام کے حقِ رائے دہی کو یقینی بنائے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر عالمی برادری پُرامن سیاسی ذرائع سے مسئلہ کشمیر کو عوام کی خواہشات اور منصفانہ استصوابِ رائے کی ذریعے حل کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو کشمیری عوام  کی طرف سے کسی شدید ردِ عمل کو بعید از قیاس نہیں مانا جا سکتا۔

سابق سینیٹر سیاستدان  اور محقق جاوید جبار نے کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کے موقف کو دہراتے ہوئے موجودہ حکومت کی طرف سے اسے

عالمی سطح پر ازسرنو زندہ کرنے پر تعریف کرتے ہوئے اسے پاکستان کی ۷۳ سالہ تارخ میں ایک زندہ حقیقت قرار دیا۔ انکا کہنا تہا کہ پاکستان نے مشکلات کے باوجود ایک بہر پور جنگ لڑی ہے تاہم اب مودی کی سیاست میں بھارت نے اپنا اآخری پتہ کھیل دیا ہے, اس کھیل کو الٹ دینے کے لئے ایک بھر پور جہدو جہد کی ضرورت ہے۔

اس موقع پر موجود دیگر قومی اور بین الاقوامی ماہرین نے بھی برصغیر میں قیام امن اور استحکام کے لیے کشمیر کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس بات سے باخبر کیا کہ اگر اس مسئلے کو جلد حل نہ کیا گیا تو کشمیر کا تنازعہ حالات میں مزید ابتری کا سبب بن سکتا ہے ۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے