‘سیاسی اور حکومتی نظام’ – چیئرمین آئی پی ایس کی اِپری گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ میں آئی پی ایس کی رپورٹ پر پریزینٹیشن
چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن کو 3 دسمبر 2024 کو اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ (آئی پی آر آئی) کی جانب سے "گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ” کے عنوان سے ایک سیمینار میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا، جس میں اسی عنوان کے ساتھ پاکستان کو درپیش مسائل پر بصیرت، تجزیے اور ماہرین کی سفارشات پیش کرنے والی ایک کتاب کی تقریبِ رونمائی بھی کی گئی۔
اس تقریب میں پارٹنر اداروں کی جانب سے اس کتاب کے لیے تیار کردہ رپورٹس بھی پیش کی گئیں، جن میں آئی پی ایس کی رپورٹ بھی شامل تھی۔
اس موقع پر "سیاسی اور حکومتی نظام” کے عنوان سے آئی پی ایس کی رپورٹ کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے خالد رحمٰن نے بتایا کہ رپورٹ میں تناسبی نمائندگی کے انتخابی نظام کو اپنانے کی تجویز دی گئی ہے، کیونکہ موجودہ ‘فرسٹ پاست دی پوسٹ’ نظام مؤثر ثابت نہیں ہوا اور نہ ہی یہ معاشرے کے تمام طبقوں کی موّثر نمائندگی کرتا ہے۔
انہوں نے تناسبی نمائندگی کے انتخابی نظام کی اہمیت پر زور دیا، جو دنیا کے ۹۰ سے زائد ممالک میں رائج ہے۔ پاکستان میں اس نظام کو اپنانے کی تجویز دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈویژنز کی انتظامی تقسیم کو قومی اسمبلی کے حلقے کے طور پر متعین کیا جائے اور امیدواروں کو پارٹی کی بنیاد پر منتخب کیا جائے، جہاں وہ پارٹی کے پروگرام اور ایجنڈے کی بنیاد پر ووٹ حاصل کریں گے۔ اس کے نتیجے میں نمائندگی ووٹوں کے تناسب سے ہوگی۔
رحمٰن نے سیاسی تربیت کے لیے سیاسی نرسریز جیسے کہ طلباء یونینز کی بحالی کی ضرورت پر بھی زور دیا، جو پچھلے 20-25 سالوں سے پاکستان میں موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی قیادت کی تربیت کے لیے عملی کوچنگ کی کمی نے ابھرتے ہوئے رہنماؤں کو اس عملی تربیت سے محروم کر دیا ہے، جو حکمت عملی سے فیصلے کرنے، تنازعات کے حل، رواداری، مذاکرات اور خدمت کے امور میں مہارت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔
اسپیکرنے افسوس کا اظہار کیا کہ مقامی حکومت کے انتخابات کی عدم موجودگی اور بے قاعدگی نے بھی اس معاملے کو خراب کیا ہے، حالانکہ اس کی آئینی اور قانونی جگہ موجود ہے۔ جب یہ پلیٹ فارم دستیاب تھے، تب بھی انہیں مناسب طور پر بااختیار نہیں بنایا گیا ، جس نے انہیں مؤثر طریقے سے کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔
رحمٰن نے کھیلوں کے ذریعے نوجوانوں کی کردار سازی پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ کھیل کھلاڑیوں کو مقابلہ کرنے، مضبوط رہنے اور ناکامی کا سامنا کرنے کا ہنر سکھاتا ہے۔ نوجوانوں اور مستقبل کے رہنماؤں میں ان خصوصیات کو پروان چڑھانا ایک زیادہ مستحکم اور مؤثر سیاسی نظام میں معاونت کرے گا، جو بالآخر حکومتی چیلنجز پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
مقرر نے ساختی اصلاحات، مقامی اداروں کو بااختیار بنانے، ہر سطح پر سیاسی قیادت کی پرورش کرنے اور ایک زیادہ جامع نقطہ نظر اپنانے کا مطالبہ کیا تاکہ ایک مؤثر سیاسی نظام تیار کیا جا سکے جو طویل عرصے تک قائم رہے۔
آخر میں رحمٰن نے ڈھانچوں میں اصلاحات، مقامی اداروں کے اختیار ات میں اضافے اور ایک زیادہ جامع سیاسی نقطہ نظر کی حمایت کی تاکہ پاکستان میں ایک مستحکم اور طویل مدتی سیاسی نظام قائم کیا جا سکے۔
جواب دیں