عالمگیر مالیاتی بحران: انسدا د کا عالمی منصوبہ

financialcrisis t1

عالمگیر مالیاتی بحران: انسدا د کا عالمی منصوبہ

 عالمی مالیاتی بحران سے بچائو کے لیے دنیا بھر کے ماہرین فکر مند ہیں اور اس سلسلہ میں مختلف تجاویز اور منصوبے سامنے آر ہے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں ۱۰اپریل ۲۰۱۴ء کو ایک سیمینار ہوا جس کا موضوع تھا: ’’عالمگیر مالیاتی بحران: انسداد کا عالمی منصوبہ‘‘۔ اس سیمینار میں ماہرین نے ’’عالمی انسدادِ بحران منصوبے‘‘ پر گفتگو کی اور اسے ایک جامع دستاویز قرار دیا جس کی بنیاد پر ان ہمہ گیر چیلنجوں سے بہتر طور پر نمٹا جا سکتا ہے جو عالمگیر مالیاتی بحران کے ساتھ سامنے آنے والے ہیں۔ ’’عالمی انسدادِ بحران منصوبہ‘‘ ایک دستاویز ہے جو آئندہ ماہ (۲۱تا ۲۳مئی) آستانہ، قازخستان میں منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی عالمی انسدادِ بحران کانفرنس میں منظور کی جا ئے گی۔ اس دستاویز میں دنیا بھر کو درپیش معاشی اور مالیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے عمدہ اہداف اور حکمتِ عملیاں پیش کی گئی ہیں، اقوام متحدہ جن کی تائید کرتا ہے۔

آئی پی ایس میں منعقدہ سیمینار ’’عالمگیر مالیاتی بحران:  انسداد کا عالمی منصوبہ‘‘ کی صدارت منصوبہ بندی کمیشن پاکستان کے سابق چیف اکانومسٹ فصیح الدین نے کی۔ اس میں اظہارِ خیال کرنے والوں میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن، نامور ماہرین معاشیات ثاقب شیرانی، ڈاکٹر ناہید ضیا خان اور پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال شامل تھے۔

ماہرین نے اس منصوبے کی مزید بہتری اور تبدیلی کے لیے چند تجاویز کے ساتھ بحیثیت مجموعی اس کی تائید کی اور قرار دیا کہ اس میں تجویز کردہ حکمتِ عملیوں سے اس بحران کے دوبارہ نمودار ہونے کے خطرے سے کسی حد تک بچا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ احساس پایا جاتا ہے کہ ان اقدامات سے بحران کی شدت میں کمی تو آ سکتی ہے لیکن اس بحران کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔

سیمینار میں اظہار خیال کرتے ہوئے ماہرین نے کہا کہ عالمی معیشت جن مسائل سے دوچار ہے، وہ ’’مالیاتی بحران‘‘ سے بڑھ کر ایک بحران ہے۔ لفظ ’’مالیاتی بحران‘‘ ان ناکامیوں اور گہرے منفی مضمرات کا احاطہ نہیں کر سکتا جو حقیقت میں درپیش ہیں۔ یہ محض سرمایہ داری نظام کی ناکامی نہیں بلکہ اس ناکامی نے ان تمام خامیوں اور خرابیوں کو بھی ظاہر کر دیا ہے جو منڈی، مالیاتی اداروں، ریاستوں، عالمگیر حکمرانیت اور شراکتی جمہوریت میں چھُپی ہوئی ہیں۔

وزارتِ مالیات، حکومتِ پاکستان کے سابق مشیر ثاقب شیرانی نے خیال ظاہر کیا کہ وہ معاشی نظام ہی دنیا کو اس عالمی تباہی سے دوچار کرنے کا ذمہ دار ہے جو ’’ایکویٹی پر قرض کی پاکیزگی‘‘ اور ’’ترقی کے اقدام کے طور پر ترقی کی تقدیس‘‘ کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ مسئلہ کا حل روایتی طور طریقوں میں نہیں بلکہ نئے متبادل ماڈلز میں تلاش کرنا ہو گا۔ تاہم نظر یہی آتا ہے کہ عالمی ادارے ابھی تک اس قابل نہیں ہوئے کہ وہ اپنی حدود سے باہر آکر سوچیں اور دنیا کو متبادل ماڈل فراہم کر سکیں۔

فصیح الدین نے عالمی انسدادِ بحران منصوبے کو اپنے موضوع پر ایک جامع دستاویز قرار دیا۔ انہوںنے اس مسئلہ پر کئی تجاویز بھی پیش کیں جن میں مجوزہ پالیسی اقدامات کی ترجیح اورترتیب میں بہتری لانا، مجوزہ ٹاسک کے لیے نظام الاوقات مقرر کرنا، عمل درآمد کے لیے ملکوں کی ذمہ داری کا تعین کرنا اور نفاذ اور جائزے کے نظام کو وضع کرنا شامل ہیں۔

فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی میں سوشل سائنسز کی ڈین فکلٹی ڈاکٹر ناہید ضیاء خان نے موجودہ مالیاتی بحران کو ایک بڑے سونامی سے تشبیہ دی جو وارننگ کے ساتھ آرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی معاشرہ معاشی ڈھانچہ کی ایک گہری تبدیلی کا طلب گار ہے، خصوصاً انسانی وسائل کی ترقی، قدرتی سرمائے کے تحفظ اور انسان کے پیدا کردہ طبعی سرمائے میں کیفیت اور کمیت دونوں پہلوئوں سے ترقی کی ضرورت ہے۔

 
فاسٹ اسکول آف مینجمنٹ لاہور کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال نے موجودہ مالیاتی ڈھانچے اور عمارت کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کی ضرورت کا اظہار کیا جو قیاس آرائی پر مبنی ایسے اقدامات کا ذمہ دار ہے جن پر قابو نہیں پایا جا سکتا اور جو مختلف شکلوں میں اور بار بار ظاہر ہونے والے اس مالیاتی بحران کا پیش خیمہ بنا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اسلامی مالیات اور بنکنگ ایک قابلِ عمل متبادل ماڈل کے طور پر سامنے آنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے تجویز کیا کہ اس معاشی نظام کو اختیار کیا جائے، جسے اسلامی مالیات اور اسلامی معاشیات کے ماہرین نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وضع کیا ہے اور جو چند متعین معاہدات کی تشکیل و ترقی میں کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اور جسے تخلیقِ زر اور حقیقی معاشی سرگرمی میں قرض دینے کے طریقوں کے ساتھ مربوط کیا جا سکتا ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن نے کہا کہ موجودہ معاشی اور مالیاتی عالمی نظام میں کچھ ایسی لازمی کمزوریاں ہیں جنہیں اگر نظر انداز بھی کر دیا جائے تب بھی یہ نظام کوئی بہتر نتائج نہیں دکھا سکتا۔ دوسری طرف نئے ابھرتے پروگراموں میں جو اچھے نکات سامنے آ رہے ہیں انہیں یقینا اختیار کیا جا سکتا ہے نیز مؤثر اور مقبول بنایا جاسکتا ہے۔

سیمینار کے شرکاء نے متفقہ طور پر قرار دیا کہ موجودہ عالمی مالیاتی بحران صرف معاشی نہیں بلکہ یہ اخلاقی نوعیت کا بحران ہے۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ متبادل نظام کی تشکیل و ترتیب اور تعمیر کا راستہ اختیار کیا جا ئے، ایک ایسا نظام جو معاشی اخلاقی اقدار پر مبنی ہو۔
نوعیت:      روداد سیمینار
تاریخ:     ۱۰اپریل ۲۰۱۴ء

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے