پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو درپیش چیلنج اور معاہدہ برائے انقطاع فزائل مواد

پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو درپیش چیلنج اور معاہدہ برائے انقطاع فزائل مواد

 

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں ۱۹ جنوری ۲۰۱۲ء کو ’’پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو درپیش چیلنج اور معاہدہ برائے انقطاع فزائل مواد (FMCT)‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار ہوا۔ آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ اسددرانی، قائداعظم یونیورسٹی میں سیاسیات اور بین الاقوامی اُمور کے استاد ڈاکٹر ظفر نواز جسپال اور سابق سفیر جناب طارق عثمان حیدر مہمان مقرر تھے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے چیئر مین سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے صدارت کی۔ باخبر اور نمائندہ حاضرین میں دفاعی تجزیہ نگار، سابق سفیر، غیرملکی سفارت کار، اہلِ علم اور دانشور شامل تھے جنہوں نے گفتگو اورسوال و جواب کے سیشن میں بھی حصہ لیا۔ یہ سیمینار اقوام متحدہ کی سرپرستی اورمعاونت سے اس ماہ کے تیسرے ہفتہ میں منعقد ہونے والی کثیر جہتی ’’تخفیفِ اسلحہ کانفرنس‘‘ (Conference on Disarmament)کے مو قع پر منعقد کیا گیا، تاکہ اس میں شرکت سے قبل پاکستان اپنے مؤقف اور پالیسی کو حتمی شکل دے سکے۔

 

 

اس سیمینار کے اختتام پر ایک ۲۴ نکاتی دستاویز میڈیا کے لیے جاری کی گئی جس میں سیمینار کے شرکاء کے خیالات، مشاہدات اور سفارشات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
ا س سیمینار کی آراء اورسفارشات درج ذیل ہیں۔

۱۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام پاکستان کی قومی سا لمیت کا اہم اوربنیادی عنصر ہے۔

 

۲۔ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے جس کا ایٹمی پروگرام کمانڈ، کنٹرول اورسیکیورٹی کا بے مثال نظام رکھتاہے۔ جس میں اسٹریٹیجک برآمد پر کنٹرول، ہر اہم مرحلہ پر اندرونی نگرانی اوربوقتِ ضرورت نظر ثانی اوربہتری کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ اندرونی یا بیرونی خطرات کے حوالے سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام اوراس کے اثاثہ جات کی حفاظت اورسلامتی ہر شک و شبہ سے بالاتر بنائی گئی ہے۔

 

۳۔ اقوامِ متحدہ، آئی اے ای اے اورایٹمی تحفظ اورسلامتی سے متعلق اداروں نیز عدم پھیلاؤ کی سرگرمیوں اوربین الاقوامی اقدامات میں پاکستان کی شرکت اس مقصد سے پاکستان کے پختہ عزم اورصلاحیت کی دلیل ہے۔


۴۔
کچھ تنقیدی تاثرات پھیلائے گئے ہیں جبکہ بعض محض غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے ہمیں ان کا سامنا کرناہوگا۔

 

۵۔ بجلی کی پیداوار کا سول ایٹمی پروگرام، جوکہ سول پاور ری ایکٹرز آئی اے ای اے کے نظامِ تحفظ کے تحت کام کررہا ہے، پاکستان کی توانائی کی سیکیورٹی کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ نامیاتی ایندھن (فوسل فیول) کی کمی کے شکار ملک کی حیثیت سے پاکستان کو اپنی سماجی و معاشی ترقی کے لیے توانائی کی درآمد پر انحصار کرنا پڑتاہے۔

 

۶۔ ایٹمی پروگرام میں بجلی کی پیداوار کاحصہ زیادہ مؤثر بناناہوگا تاکہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری ہوسکیں۔ چونکہ بجلی کی پیداوار کا یہ سول پروگرام آئی اے ای اے کے حفاظتی نظام یعنی سیف گارڈڈری ایکٹرز کی بنیاد پر چل رہاہے، اس لیے بیرونی طورپر یہ ٹیکنالوجی کی منتقلی سے امتیازی انکار کی پالیسی کے تحت نہیں آتا۔

۷۔ پاکستان ایٹمی ری ایکٹر کے محفوظ آپریشن اورسہولیات کے عمل، مطلوبہ ڈھانچے اورطاقتورریگولیٹری نظام کے قیام، حصوں کی تیاری ، ایٹمی تحفظ اوربرآمد پر کنٹرول ، جیسے امور پرتجربہ اورمہارت رکھتا ہے، اس بنا پر پاکستان ایٹمی توانائی کے پر امن استعمال کے لیے بین الاقوامی حصہ داری میں نمایاں مقام رکھتاہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کو دیگر ممالک کے سول ایٹمی پروگرام کے نظامِ تحفظ اورمنصوبہ بندی کے معاملات میں باہمی تعاون کے مواقع کا جائزہ لینا چاہیے۔

۸۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن(PAEC)کے تحت پاکستان تعلیمی و تربیتی پروگراموں کا وسیع تجربہ اورصلاحیت رکھتا ہے نیز طب اورزراعت کے شعبوں میں ایٹمی تحقیق اورعلاج معالجہ کے مراکز اورسہولیات بھی رکھتاہے۔

۹۔ IAEAاورOICکی سرپرستی میں سول نیوکلیئر پروگرام کے پر امن استعمال اوردیگر ممالک کے ساتھ تعاون کے ذریعے زراعت، میڈیکل، تحقیق اورعلاج معالجے کے سلسلے میں نئی راہیں تلاش کی جاسکتی ہیں۔

۱۰۔ پاکستان کا اسٹریٹیجک ایٹمی پروگرام، جو کہ ایک قابل اعتماد کم سے کم سدِّجارحیت کی بنیاد پر استوار کیا گیا ہے، اس خطے میں امن اورسلامتی کو قائم رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس سے کسی ایک ملک کو ہدف بنانا مقصد نہیں ہے بلکہ یہ خالصتاً دفاعی نوعیت کا ہے اوراس سے کسی بھی جارحیت اورمہم جوئی کو روکنا مطلوب ہے۔کم سے کم سدِّجارحیت کا یہ پروگرام جامد نہیں ہے اورنہ ہی اس کا مقصد اسلحے کی دوڑ میں شامل ہونا ہے بلکہ اسے اس نہج پر استوار کیا گیا ہے کہ پاکستان کی سلامتی کو درپیش چیلنجوں کا سامنا کیا جاسکے۔

 

۱۱۔ یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی طویل عرصہ سے موجود اسٹریٹیجک ضبط و تحمل نظام یعنی (Strategic Restraint Regime (SRSکی پیش کش ___ جس کی بنیاد جنوبی ایشیا میں ایٹمی ضبط، روایتی توازن اورتنازعات کے حل پر ہے ___  میں حصہ دار بننے اوربات چیت کرنے کے بجائے بھارت اس کے برعکس خطوط پر آگے بڑھ رہاہے۔ جس میں اسٹریٹیجک صلاحیتوں اورروایتی ہتھیاروں میں بے دریغ اضافہ اورجارحانہ تصورات کی ترویج شامل ہے۔

 

۱۲۔ یہ بھی بد قسمتی ہے کہ بین الاقوامی برادری کے کئی ممبران نے جنوبی ایشیا میں اسٹریٹیجک ضبط و تحمل نظام(SRR)کے تصور کی حمایت کرنے کے بجائے بھارت کے اسٹریٹیجک اورروایتی اثاثوں اورصلاحیت میں اضافے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ امریکہ بھارت ایٹمی معاہدہ اورکئی امور میں NSGسے بھارت کو استثنادلوانا NPTمیں شامل ان ملکوں کا اپنی ذمہ داریوں سے کھلا انحراف ہے۔ انڈیا کے تمام پاور ری ایکٹرز کو حفاظتی نظام کا پابند نہ رکھنا نیزضرورت سے متجاوز اُس کا بریڈر ری ایکٹر پروگرام اوران پاور ری ایکٹرز سے نکلنے والے بڑی مقدار میں فزائل مواد کے ذخیروں کو حفاظتی نظام سے باہر رکھنا قابل ذکر انحرافات ہیں۔

 

۱۳۔ روس کی طرف سے ماضی میں بھارت کو فراہم کی گئی ری ایکٹرز کے حفاظتی نظام کے بغیرایٹمی آبدوزیں اوراب ایٹمی حملہ کی صلاحیت رکھنے والی ایسی آبدوزوں کی فراہمی جو کہ ایٹمی اسلحہ کے حامل بلاسٹک میزائل بردار بھی ہیں، NPTپر روس کے اقرار نامہ کی خلاف ورزی ہے۔ روس کی طرف براہموس کروز میزائل کی پیداوار میں معاونت بھی MTCRکے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

 

۱۴۔ امریکہ بھارت ایٹمی معاہدے کے تحت بھارت کے 8بھاری پانی کے قدرتی یورینیم ری ایکٹروں کو حفاظت سے ماوراء چھوڑ دیا گیا ے جبکہ یہ ری ایکٹر اسلحہ کے درجہ کے پلوٹونیم کی پیداوار میں مثالی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی 2000MWکی مجموعی صلاحیت ہو اوروہ 60فی صد صلاحیت پر بھی چلیں تو اسلحہ کے درجہ کا 1200کلو گرام پلوٹونیم پیدا کیا جاسکتا ہے جس سے سالانہ 240ایٹمی ہتھیار بنائے جاسکتے ہیں۔ توانائی کے ری ایکٹروں کو IAEAکی نگرانی سے باہر رکھنے کی اس سے پہلے کوئی مثال موجود نہیں ہے۔

 

۱۵۔ بھارت طمع پر مبنی بریڈر ری ایکٹر پروگرام اوراسلحہ کے درجہ کی پلوٹونیم کی پیداوار حاصل کرنے کی صلاحیت کو نمایاں اورمعنی خیز طور پر بڑھا رہاہے۔ کیونکہ بریڈر ری ایکٹرزکا مقصد توانائی پیدا کرنے کے لیے جوہری انفجار کی صلاحیت رکھنے والے مواد(فزائل مواد) کے استعمال کو وسعت دینا ہے اس لیے اس بات کا کوئی جواز نہیں ہے کہ اس پروگرام کو IAEAکی نگرانی سے باہر رکھا جائے۔

 

۱۶۔ بھارت کے وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں بیان دیا ہے کہ بھارت کے کسی بھی ایسے ایٹمی پروگرام کو نگرانی میں نہیں دیا جائے گا جس کی اہمیت اسٹریٹیجک نوعیت کی ہو۔ اس بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بھارت کے ایٹمی پروگرام کو نگرانی میں نہ دیے جانے کی اہمیت اس کے اسٹریٹیجک مقاصد ہیں چنانچہ خطے میں اور اس کے مضافات میں بھی ا س کے مضمرات کو سمجھا جانا چاہیے۔

 

۱۷۔ جوہری انفجار کی صلاحیت رکھنے والے مواد(فزائل مواد) پر بین الاقوامی پینل نے اپنی 2010ء کی تصنیف Nuclear Weapons: Country Perspectives on the Challenges to Nuclear Disarmament Reducing and Eliminating میں دیگر باتوں کےعلاوہ لکھا ہے کہ’’ IPFMکے انداز ے کے مطابق بھارت کے پاس اس وقت ہتھیاروں کا ذخیرہ بنانے کے لیے درکار پلاٹونیم تقریباً 700کلوگرام ہے جو کہ 140ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے کافی ہے۔ اسی طرح 6.8ٹن ری ایکٹر گریڈ پلاٹونیم بھی ہے،جو 850ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے کافی ہے۔‘‘

 

۱۸۔ عام طورپر یہ بات معروف نہیں ہے کہ ری ایکٹر درجہ کے پلوٹونیم کو جوہری ہتھیاروں کے لیے استعمال کیا جاسکتاہے۔ مزید برآں اس غیر حفاظتی نظام (Unsafeguarded)ذخیرے کا ایک قابلِ لحاظ حصہ ہتھیاروں کے درجہ کے پلوٹونیم کی طرح ہی ہوتا ہے، جیساکہ ایک امریکی اہل کار نے 1974 سے قبل یہ پیش گوئی کی تھی کہ بھارت اپنے زیر تعمیر دو ایٹمی ری ایکٹروں کی مدد سے 50سے 60ایٹمی ہتھیار بنانے کے قابل ہوجائے گا۔

 

۱۹۔ امریکہ اوراین ایس جی کو بھارت کو کوئی چھوٹ دینے سے پہلے یہ پابندی لگانی چاہیے کہ اس کے تمام بجلی اوربریڈر ری ایکٹر اوراس کے بجلی کے ری ایکٹرز سے نکلنے والے فزائل مواد کے ذخیرے کو حفاظت و نگرانی کے نظام (Safeguards)کے تحت کیا جائے گا اوریہ سب کسی بھی ٹیکنالوجی کے حصول، اضافی ایٹمی بجلی گھر اوریورنیم کی فراہمی سے پہلے کیا جائے گا۔
یہی مساوی رویہ پاکستان کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔ جنوبی ایشیا میں اسٹریٹیجک سطح پر ضبط و تحمل کو متعارف کرانے کا موقع ضائع کردیاگیا۔عدم پھیلاؤ اوراین پی ٹی کی پابندیوں کے بیان کردہ مقاصد حاصل کرنے کے بجائے بھارت کی اسٹریٹیجک صلاحیتوں کو ابھارنے اوراس کو تجارتی نفع پہنچانے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔

۲۰۔ چنانچہ پاکستان کو سامنا ہے:

  • فزائل مواد کے ذخیروں کے حوالہ سے گہری نامساوی تفریق کا،
  • بھارت کے ’’فعال‘‘ (Pro-active)یا ’’سردآغاز‘‘ (Cold Start)نظریے کے تحت ایک ایسی ممکنہ جارحیت کا جس کا مقصد پاکستان کی سر زمین پر قبضہ کرنا ہے،
  • بھارت کی اُبھرتی ایٹمی تثلیث کا ، جو آب دوزوں میں لے جانے والے بلاسٹک میزائل متعارف کرارہاہے،
  • جو مہلک ہتھیاروں کے نئے سے نئے نظام مسلسل شامل کرتا جارہاہے،
  • جو امریکہ، روس اوراسرائیل کے تعاون سے اینٹی بلاسٹک میزائل متعارف کرارہاہے ،
  • اورروایتی ہتھیاروں اورصلاحیتوں میں پاک بھارت بڑھتا تفاوت ، جو نتیجہ ہے اُن ممالک کی پالیسیوں کا جو پاکستان اوربھارت کے درمیان بہتر تعلقات کی تلقین تو کرتے رہتے ہیں لیکن ان کے عملی اقدامات اس کے برعکس ہیں۔

 

۲۱۔ یہ حالات پاکستان کی سلامتی کے لیے گہرے مضمرات کے حامل ہیں۔

 

۲۲۔ یہ سیمینارتخفیفِ اسلحہ کے کثیر جہتی پلیٹ فارموں پر پاکستان کے موقف کی بھرپور حمایت کرتاہے خصوصاً ’’تخفیفِ اسلحہ کا نفرنس‘‘(Conference on Disarmanent)میں پاکستان کے اصولی موقف کی تائید کرتے ہوئے ، اسے برقرار رکھنے پر زور دیتاہے۔

۲۳۔ تخفیفِ اسلحہ کانفرنس (CD)میں پاکستان کو اپنے اس موقف پر اصرار جاری رکھنا چاہیے کہ:

 

  • صرف ایسے معاہدہ برائے انقطاع فزائل مواد (FMCT) ہی پر بات ہو سکتی ہے جو اس وقت موجود فزائل مواد کے تمام ذخیروں اور اس پہلو سے غیر مساوی رویوں کے ازالہ سے بحث کرتا ہو، تاکہ سب کے لیے یکساں تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ یہی دراصل تخفیفِ اسلحہ کا اصل مقصد اور اس کی کامیابی ہوگی نہ کہ ایک ایسا معاہدہ جو صرف پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے ہو۔ وہ پاکستان جو ایٹمی اسلحہ کے اس کلب میں داخل ہونے والا اب تک آخری ملک ہے اور جسے بھارتی ایٹمی تجربات اور مسلسل دھمکیوں کے نتیجے میں یہ قدم اٹھانا پڑا تا کہ اسٹریٹیجک توازن کو برقرار رکھا جاسکے جو جنوبی ایشیا کے امن اور سلامتی کے لیے ناگزیر تھا۔
  • یہ سب اس تناظر میں ہونا چاہیے کہ اُن تمام اہم بنیادی چار پہلوؤں پر بھی ساتھ ہی ساتھ یکساں حیثیت کے مذاکرات ہوں گے جو یہی مقصد حاصل کرنے کے لیے ایک قانونی دستاویز تک پہنچنے میں مددگارہوں۔ ’’تخفیفِ اسلحہ کانفرنس‘‘ (CD)میں زیر غور دیگر تین اہم بنیادی مسائل یہ ہیں، ایٹمی تخفیفِ اسلحہ، منفی تحفظ کی گارنٹی اور خلائی کُرّے میں اسلحہ کی دوڑ کی ممانعت۔
  • ’’تخفیفِ اسلحہ کانفرنس ‘‘ (CD)کی تیاری کے مرحلہ کے اجلاس میں 21کے گروپ کے ۱۱ اگست ۲۰۱۱ء کے اعلامیہ سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کو اس کانفرنس (CD)میں تنہا نہیں کیا جا سکے گا، دیگر چیزوں کے علاوہ درج ذیل امور پر بھی: ایک جامع اور متوازن پروگرام کا منصوبہ جس میں تمام ممالک کے سیکیورٹی سے متعلق خدشات کا لحاظ کیا گیا ہو، CDکے اندر ایسے مذاکرات کے جلد انعقاد کا اہتمام جوایک مقررہ عرصہ میں ایٹمی ہتھیاروں کے مکمل خاتمے کے لیے ہو جس میں ایٹمی ہتھیاروں کا کنونشن بھی شامل ہے۔ جس کے تحت ایٹمی ہتھیار رکھنا،بنانا، ذخیرہ کرنا، منتقل کرنا اور ان کا استعمال بالکل ممنوع ہو۔ جو بالآخر ان تمام ہتھیاروں کے ضائع کرنے پر منتج ہو۔
  • یہ کنونشن، معاہدہ برائے انقطاع فزائل مواد (FMCT)کی تجویز اور این پی ٹی میں ایٹمی طاقتوں کی حیثیت اور کیفیت سے بالا تر ہونا چاہیے۔ این پی ٹی طاقتوں کو اپنا اخلاص ثابت کرنے کے لیے این پی ٹی کی عائد کردہ عمودی عدم پھیلاؤ کی ذمہ داریوں کوادا کرنا چاہیے۔

 

۲۴۔ ایک ذمہ دار جوہری ریاست کے طور پر پاکستان جوہری عدم پھیلاؤ کے مقاصد کی حمایت کرتا ہے اور آئندہ بھی بین الاقوامی سطح پر عدم پھیلاؤ کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کو مؤثر بنانے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ ایسا عدم پھیلاؤ کا تصور جو تمام ریاستوں کے درمیان عدم امتیاز، مساوات اور سب کی سلامتی کے اصولوں پر قائم ہو اور جہاں ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال کے یکساں مواقع سب کوحاصل ہوں۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے