آئی پی ایس کے مہمان چینی اسکالر کا پنجاب یونیورسٹی لاہور میں لیکچر

pu1 title

آئی پی ایس کے مہمان چینی اسکالر کا پنجاب یونیورسٹی لاہور میں لیکچر

آئی پی ایس کے چین سے آئے ہوئے مہمان اسکالر پروفیسر ژاؤ جیاں منگ نے ۷فروری ۲۰۱۴ء کو مرکز برائے مطالعہ جنوبی ایشیا (CSAS) پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ایک لیکچر دیا جس کا موضوع تھا ’’چین بھارت تعلقات: پاکستان کے لیے مضمرات‘‘۔

پروفیسر ژاؤ نے چین اور بھارت کے درمیان تعلقات کی ساٹھ سالہ تاریخ پر نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک طویل عرصہ سے جاری اپنے سرحدی تنازعہ کو ابھی تک حل نہیں کر پائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ رجائیت پسند ہیں اور بحرِ ہند اور جنوبی چین کے سمندری علاقوں میںفوجی خدشات اور اقتصادی و تذویراتی مقابلے کی فضا کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک اپنی اقتصادیات کو ترقی دیتے ہوئے ایک دوسرے کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے پروفیسر ژاؤ نے کہا کہ اس کا آغاز اقتصادی تعاون سے ہوا تھا لیکن بعد میں موسمیاتی تبدیلی، دہشت گردی اور کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کے معاملات کو بھی دائرۂ کار میں شامل کر لیا گیا۔ چنانچہ سنگین تنازعات کے باوجود چین اور بھارت ۲۰۱۰ء میں تذویراتی شراکت دار بن گئے اور ان کی تجارت جو کہ ۲۰۰۰ – ۲۰۰۲ ء میں ۲بلین ڈالر کا حجم رکھتی تھی، ۲۰۱۱ء میں 73.90 بلین ڈالر تک پہنچ گئی اور ۲۰۱۳ء میں مزید بڑھتے ہوئے ۸۰بلین ڈالر پر جا پہنچی ہے۔
چین اور بھارت کے درمیان مستقبل کی تجارت پر بات کرتے ہوئے پروفیسر ژاؤ نے کہا کہ دونوں ممالک کی تجارت میں اتنا دم خم ہے کہ وہ۲۰۱۵ء میں اس کا حجم ۱۰۰ بلین ڈالر سے اوپر لے جا سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف دونوں ممالک کے لیے متعدد غیرمعمولی مواقع پیدا ہوں گے بلکہ اس کے نتیجے میں خطے میں استحکام بھی آئے گا۔
پروفیسر ژاؤ نے علاقائی صورتِ حال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ BCIM تجارتی راہداری، کن منگ انی شی ایٹو(Kunming Initiative) اور انان (Yunnan’s) کی ’’برج ہیڈ حکمتِ عملی‘‘ اور بھارت کے ’’مشرقی گیٹ وے‘‘ جیسے منصوبوں کو باہمی تعلقات کے فروغ کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
آسیان فری ٹریڈ ایریا، آسیان-چائنا فری ٹریڈ ایریا اور آسیان-انڈیا فری ٹریڈ ایریا کو مربوط کرنے سے سب سے بڑے فری ٹریڈ ایریا کی حیثیت سے ایک راہداری تشکیل پا لے گی۔ چنانچہ چین کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ مثبت سفارتی تعلقات کو بحال رکھے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی کوششوں کے ٹھوس فوائد خطے کے کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔
چین اور بھارت کے درمیان ان تعلقات کے پاکستان پر مضمرات کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ژاؤ نے کہا کہ ثقافتی انقلاب کے اختتام پر چین نے دو ٹانگوں پر چلنے کی پالیسی اختیار کی تھی جس کی وجہ سے چین نے بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے شروع کیے۔ پروفیسر ژاؤ نے کہا کہ یہی صورتِ حال پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی موجود ہے۔ اگرچہ ابھی تک مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نہیں نکل سکا تاہم پاکستان اور بھارت بہت سے شعبوں میں تعاون کرتے ہوئے اقتصادی محاذوں پر ترقی کی راہیں کھول سکتے ہیں۔
پروفیسر ژاؤ نے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو بہتر کرنے میں باہمی تجارت کو سب سے اہم نکتہ قرار دیا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک طویل سرحد کے ہوتے ہوئے فائدہ مند تجارت کے بہت سے مواقع ضائع کردیے گئے ہیں۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہاکہ علاقائی سطح پر بہت سے ایسے شعبے موجود ہیں جہاں بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں۔ توانائی کا شعبہ خطے میں تجارتی معاملات کے لیے مرکزی حیثیت کا حامل ہو سکتا ہے جب کہ ایران-پاکستان-بھارت (IPI)، ترکمانستان-افغانستان-پاکستان- انڈیا (TAPI) اور ساؤتھ ایشیا فری ٹریڈ ایریا (SAFTA) جیسے منصوبے دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ آئی پی ایس کے مہمان اسکالر نے اس توقع کا اظہار بھی کیا کہ افغانستان میں تعاون بھی ایسے مواقع پیدا کر سکتا ہے جن سے دونوں ممالک کے درمیان بندھن مضبوط ہو سکے۔
ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمن نے اپنی اختتامی تقریر میں کہا کہ دنیا کے موجودہ منظر نامے میں تنازعات زمین پر لڑی جانے والی جنگوں سے طے نہیں ہو پاتے بلکہ اپنے مؤقف کی بیانیہ حیثیت کو مؤثر بنانے سے ان کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی نئی قیادت نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے ضمن میں مثبت اشارے دیے ہیں۔ تاہم اس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ پاکستان کشمیر پر اپنے مؤقف سے دست بردار ہو جائے گا۔ یہ تنازعہ درحقیقت انصاف کا ایک مسئلہ تھا لیکن ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیوں کو غلط انداز میں پیش کے جانے کے باعث اسے ایک علاقائی مسئلہ بنادیا گیا ہے۔
پاک چین تعلقات کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ دونوں ممالک کی دوستی وقت نے ثابت کی ہے۔ جہاں اقتصادی ترقی نے خطے میں چین کے کردار کو نمایاں کر دیا ہے وہاں عمومی طور پر جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان کا کردار بھی افغانستان کے بحران اور اس کی بحالی کے عمل میں انتہائی اہمیت کا حامل ٹھہرتا ہے۔ چنانچہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ زمینی حقائق کو سمجھا جائے اور پاکستان اور چین کے درمیان باہم دلچسپی کے اُمور میں بیانیہ پہلو سے بھی منصوبہ بندی کی جائے۔
اس لیکچر کو طلبہ کی ایک کثیر تعداد نے سنا جو پروگرام کے اختتام پر سوال و جواب کے مرحلے میں انتہائی فعال نظر آئے۔
نوعیت:    روداد توسیعی لیکچر
مقام:    پنجاب یونیورسٹی، لاہور
تاریخ:    ۷فروری ۲۰۱۴ء

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے