اسلامی ریاست اور روح جمہوریت

اسلامی ریاست اور روح جمہوریت

اسلام کےنظامِ ریاست و حکومت کا محاکمہ کرتےہوئےاکثر مغربی ناقدین اپنی جن ذہنی الجھنوںکا اظہار کرتےہیںان میںسےزیادہ اہم اور بنیادی باتیںبظاہر صرف تین ہی ہیں۔ اولاً یہ خیال کہ اسلامی حکومت دراصل ایک تھیوکریسی ہےثانیاً یہ تصور کہ اسلام اور جمہوریت متضاد اصطلاحات ہیںاور ثالثاً یہ مغالطہ کہ اسلامی نظام دراصل ایک متشدد بادشاہت یا آمریت کا نام ہےجس میںعوام کی رائے،مشورہ اور تائید کی کوئی حیثیت نہیںہے۔ ان ذہنی الجھنوں کےعقلی اور نقلی دلائل کےساتھ علمی سطح پر جوابات اور تشریحات کی ذمہ داری دور حاضر کےمعروف مسلم علماء وقتاً فوقتاً ادا کرتےرہےہیںجن میںخصوصاً علامہ رشید رضا،علامہ اقبال،علامہ ابوالاعلیٰ مودودی اور علامہ محمد اسد سرفہرست نظر آتےہیں۔ ان حضرات اور ان کےزیر اثر علمی افق پر ابھرنےوالےجدید محققین مثلاً پروفیسر خورشید احمد نےاپنی متعدد تحریرات میںمثبت اور منفی ہر دو پہلوؤںسےان مسائل پر گفتگو کی ہےلیکن بعض پہلو مزید بحث و نظر کےمستحق ہیں۔ اس مختصر مقالہ میںان تین ملاحظات پر اختصار کےساتھ چند گزارشات پیش کی جا رہی ہیں۔
معروف مغربی نقاد Bernard Lewis نےاپنےکئی مضامین اور کتب میںاسلام اور جمہوریت کےحوالےسےیہ بات کہی ہےکہ
The Islamic state was in principle a theocracy… For believing Muslims, legitimate authority comes from God alone, and the ruler derives his power not from the people, nor yet from his ancestors, but from God and the holy law… Rulers made rules, but these mere considered, theoretically, as elaboration or interpretation of the
valid law – that of God promulgated by revelation.*
گویا Bernard Lewis کےخیال میںخلافت راشدہ کےقیام میںعوام کی رائےکا کوئی دخل نہ تھا اور خلیفہ اپنی ہر تعبیر اور رائےکو الہامی درجہ دیتےہوئےعوام پر زبردستی نافذ کر دیا کرتا تھا۔ اس تاریخی مغالطہ کےجائزےسےقبل مناسب ہو گا کہ اسلامی ریاست کےحوالےسےجو اصطلاح اوپر استعمال کی گئی ہےیعنی تھیوکریسی،پہلےاس کےمفہوم کو سمجھ لیا جائے۔
تھیوکریسی سےبالعموم وہ سیاسی اقتدار مراد لیا جاتا ہےجو ایک مذہبی طبقہ کےہاتھ میںہو۔ چنانچہ عیسائیت میںکلیسا اور ا س کےنمائندےکو روح مقدس (holy ghost) کےبراہ راست وجدانی یا روحانی طور پر رابطہ کی بنا پر اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی زبان سےاس فیصلہ کا اظہار کر سکےجو اس روحانی عمل کےنتیجہ میںذہن میںآئے۔ حقیقت یہ ہےکہ تھیوکریسی کا یہ تصور عیسائیت کی ایجاد نہ تھا بلکہ تاریخی طور پر اس کےاصل موجد اور صدیوںاس پر عمل کرنےوالےیہودیت کےعلمبردار مذہبی رہنما تھے۔ انسائیکلو پیڈیا آف ریلجن اینڈ ایتھکس کےمقالہ نگار رائڈر سمتھ کےبقول Josephus نےپہلی مرتبہ یہ اصطلاح استعمال کی۔ جوزیفس کا سنہ پیدائش ۳۸ میلادی ہےاور اس کا تعلق اعلیٰ یہودی مذہبی پیشواؤںکےخاندان سےتھا۔ یہودی تاریخ میںاس اصطلاح کا اطلاق کسی بھی ایسےقبائلی یا ریاستی طرز حکومت پر کیا جاتا تھا جو خدائی قانون پر عمل کرنےکا دعویٰ کرتا ہو۔ مصنف کےبقول "The idea of government by god
was the dominant one in Israelite poilty” (E.R.E vol 12, p. 287).
اسرائیلی تاریخ اور سیاست میںJahweh (یہودیت میںخالق کائنات کا اسم ذات جس کا صحیح تلفظ ’یح ویح‘ ہے) کی حکومت ایک مستقل تصور کی حیثیت رکھتی تھی۔ چنانچہ یہی مقالہ نگار آگےچل کر کہتا ہے:
For early Israel three things were indissoluble; Jahweh’s shrine, Jahweh’s book, Jahweh’s priest, the three together formed the
normal organ of theocracy (p 287).
اس تثلیث میںسب سےزیادہ مرکزی مقام ربائی کو حاصل تھا جس پر الوہی روح کا نزول ہوتا تھا۔ اس کےلیےمعروف الفاظ یہ تھے:
"The spirit of the Lord came upon so and so” (p. 287)
یہی روایت آگےچل کر عیسائیت میںرواج پا گئی:
—Its perfect preacher was Jesus. He accepted the phrase, the  Kingdom of God, and so looked for a theocracy, but He gave the phrase His own exposition and laid down the true method of the Kingdom’s Coming. (p338) There can be a perfect theocracy only when any man acts only under the guidence of the Holy
Spirit (p 289).
معروضی طور پر دوبارہ اس یہودی اصطلاح کی تعریف پر ایک نظرڈالی جائےتو اس کےتین عناصر ترکیبی نظر آتےہیں۔ اولاً خدائی عبادت خانہ (مثلاً حضرت سلیمان کا ہیکل) ثانیاً یح ویح کی کتاب (یعنی تورات) اورثالثاً یح ویح کی ہدایت کا ترجمان ربائی۔ عبادت گاہ اپنےتقدس کےباوجود کسی معاملہ میںزبان حال سےاظہار کرنےسےقاصر ہے۔ کتاب لازمی طور پر ہدایت کا سرچشمہ قرار دی جا سکتی ہےلیکن اصل فیصلہ کن مقام اُس تعبیر کا ہو گا جو Spirt of the Lord کےذریعہ ربائی سےظاہر ہو گی۔ یہی Spirit of the Lord  عیسائیت میںHoly Spiritکی شکل اختیار کر لیتی ہےاور چرچ یا کلیسا اور اس کا نمائندہ پوپ علاماتی طور پر Holy Spirit کی ترجمانی کا مقام حاصل کر لیتا ہےاور اس طرح تھیوکریسی تشکیل پاتی ہے۔
اسلام کےحوالےسےغور کیا جائےتو پہلی مشکل یہ پیش آتی ہےکہ اسلام کی پندرہ سو سالہ تاریخ میںہیکل سلیمان یا عیسائیت کےسیاق میںچرچ سےمشابہ کوئی ادارہ ڈھونڈےسےنہیںملتا۔ ہاںاس میںکوئی شک نہیںکہ قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو اسلامی نظام میںوہی مرکزیت حاصل ہےجو قانون کو دیگر نظاموںمیںحاصل ہوتی ہے،لیکن تیسری اکائی یعنی راہب،ربائی یا پادری اور پوپ کےمقابل کوئی مذہبی پیشوا حتیٰ کہ صحابہ کرام ؓ میںپائےجانےوالےمجتہدین اور مابعد کےادوار میںائمہ مسالک و مذاہب غرض کسی فرد کو بھی یہ مقام حاصل نہیںرہا کہ وہ Holy Spiritکی قسم کی کسی ہستی سےبراہ راست رابطہ کی بنا پر خود authenticityاختیار کر جائے۔ ہماری تاریخ یہ بتاتی ہےکہ اگر امام جعفر صادقؒ نےایک رائےقائم کی تو امام ابو حنیفہؒ نےان کےشاگرد ہونےکےباوجود ان سےاختلاف کیا اور یہی شکل ان کےتلامذہ امام حسن الشیبانی اور امام ابو یوسف نےان کےساتھ ان کی زندگی اور بعد میںاختیار کی اور بعض متقدمین اور فقہاء نےاپنےسےقبل کےاکثر علماء و فقہاء کےاجتہادات و آراء کو پس پشت ڈالتےہوئےنئےسرےسےاصول تعبیر و تفسیر کو اختیار کرتےہوئےقرآن و حدیث کی بناء پر جدید اجتہاد کی دعوت دی۔ امام ابن تیمیہ کا نام اس حوالےسےنمایاںاہمیت رکھتا ہے۔ اور ان تمام تعبیرات و تشریحات میںکسی ایک مجتہد یا امام نےبھی اپنی رائےکےلیےالوہی تقدس یا Divine sanction حاصل ہونےکا دعویٰ نہیںکیا،نہ انہیںبعد میںآنےوالوںنےیہ مقام بخشا۔
حقیقت واقعہ تو یہ ہےکہ ربائیوںیا راہبوںکےتقدس کو تو خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کےارشاد گرامی ’’لارہبانیہ فی الاسلام‘‘ نےقیامت تک کےلیےمغربی اصطلاح میںde-sacrilize کر دیا تھا۔ اس لیےکسی بڑےسےبڑےمجتہد اور امام کو وہ مقام عصمت حاصل نہ ہو سکا جو ایک انسان کی فکر،تعبیر  یا تشریح کو immunity فراہم کر دے۔
اس حقیقت واقعہ کی روشنی میںہمیںیہ دقت پیش آتی ہےکہ یہودی اور عیسائی تصور Theocracy کو کس طرح اسلام پر چسپاںکیا جائے؟ ہاںاگر اسلام کی تمام تاریخ،فقہی اور تفسیری ادب کو نظرانداز کرتےہوئےیہ فرض کر لیا جائےکہ اسلام میںبھی دینی عالم،فقیہ یا امام کا مقام وہی رہا ہےجو ماقبل کی مذہبی روایات میںتھا جب بھی یہ حقیقت کےبرخلاف ایک قیاس اور مفروضہ ہی رہےگا۔ تاریخی حقیقت نہیںبن سکےگا۔ اسلام میںتھیوکریسی کو تلاش کرنا بالکل ایسا ہی ہےکہ ایک گھٹاٹوپ اندھیرےکمرےمیںایک ایسی سیاہ بلی کو تلاش کیا جائےجو کمرےمیںموجود ہی نہ ہو۔
جب یہ بات ایسےافراد فرماتےہیںجن کا اوڑھنا  بچھونا اور ذریعہ معاش مسلمانوںاور اسلام پر ان کی تحقیقات ہوںتو مزید تشویش اور افسوس ہوتا ہےکہ کیا ان کی گوہر افشانی کا کوئی تعلق اس زمینی حقیقت سےبھی ہےجو قرآن و سنت اور امت مسلمہ کےپندرہ سو سال کےعمل میںمحفوظ ہے۔
دوسری فکری مشکل جو مغربی اہل قلم کی تحریرات میںبار بار ابھرتی ہےیہ ہےکہ کیا اسلام اور مغربی سیکولر جمہوریت بلکہ محض جمہوریت دو متضاد تصورات ہیں۔ یہ ایک دلچسپ معاملہ ہےکہ نہ صرف وہ بلکہ بہت سےمسلمان مفکرین بھی اس معاملہ میںذہنی خلفشار کا اظہار کرتےہیں۔ دور جدید کےصف اول کےمسلمان علماء علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ نےاسلام کی بنیادی سیاسی فکر کی وضاحت کرتےہوئےلادینی جمہوریت کو جس میںقوت کا مطلق سرچشمہ عوام کو قرار دیا جاتا ہے،رد کرتےہوئےاسلام کےنظام مشاورت کو روح جمہوریت کی اعلیٰ ترین شکل قرار دیا ہےاور سیاسی قوت میںشرکت کےعمل کو تاریخی اور نظری دونوںحیثیتوںسےعقلی تجزیہ کےساتھ ایک جدید لہجہ میںپیش کیا ہے۔ اگر صرف ان دو مفکرین کا مطالعہ کر لیا جائےجن کی تحریرات اس موضوع پر انگریزی میںبھی موجود ہیںتو یہ بات واضح ہو جاتی ہےکہ اسلام کا تصور جمہوریت یا سیاسی حکمرانی کےاصول سات نکات پر مبنی ہیں۔ اس میں اولین نکتہ اور ترجیحی اعتبار سےسب سےاہم قرآن و سنت کی بالادستی ہےلیکن اس کےساتھ ہی جو چیز اسلام کےنظام کو مغربی جمہوریت سےمشابہ کرتی ہےوہ فرد یا خاندان یا پارٹی کی جگہ قانون کی حکمرانی ہے۔
یہاںیہ بات واضح کر دینا ضروری ہےکہ مسلمانوںکی پندرہ سو سالہ تاریخ  میںقانون سازی کا حق نہ سلطان کو تھا نہ بادشاہ یا خلیفہ کو حاصل رہا بلکہ قانون اور فقہ کی تشکیل ایک مستقل اور آزاد ادارہ نےکی جس کی سربراہی آزاد اور غیر سرکاری افراد نےمعاشرتی قبولیت و احترام کی بنا پر کی اور ان کی مدون کی ہوئی قانونی اور فقہی آراء کو مختلف حکمرانوںنےنافذ کیا۔ یاد رہےان علماء کا مقام کبھی وہ نہیںرہا جو یہودیت میںربائی یا عیسائیت میںپادری کا تھا۔ ان کی آراء کی مقبولیت کی بنیاد کوئی روحانی قوت نہ تھی بلکہ محض اور محض عقل و نقل کی بنا پر دلیل اور برہان کی بنا پر اور حالات سےمطابقت کی بنا پر ان کی آراء کو مقامِ اہمیت ملا۔
اسلامی نظام سیاست و حکومت کی تیسری اہم خصوصیت سیاسی،معاشی،معاشرتی مسائل میںہر سطح پر شوریٰ کےنظام کا پایا جانا ہےجس کےذریعہ ایک ماہر اور ایک عام شخص مشاورت میںشرکت کےذریعہ فیصلہ کا جزو بنتا رہا۔ گویا فیصلےاور قانون کسی الہامی ادارےنےاوپر سےنافذ نہیںکر دیےبلکہ ایک وسیع تر مشاورتی عمل نےفیصلوںکی توثیق یا تردید کی۔ اس کی نمایاںترین شکل دور عباسی کا فتنہ خلق قرآن ہےجو حکمرانوںکی بےبسی اور وسیع تر شورائی عمل،حریت فکر اور آخرکار امت مسلمہ کےاجتماعی ضمیر کےغلبہ کو ظاہر کرتا ہے۔
چوتھی اہم خصوصیت اسلامی اصول حکمرانی کا مقاصد شریعہ کا تابع ہوتا ہے،یعنی جو بنیادی حقوق شریعت نےانسانوںکو دیےہیں،سیاسی نظام اور قوت حاکمہ ان کی پابند ہےاور ان میںسےکسی کےخلاف کوئی اقدام نہیںکر سکتی۔ اس میںانسانوںکی جان،عقل،دین،عزت و عصمت اور مال کےتحفظ کےساتھ مکمل عدلِ اجتماعی کا قیام شامل ہے۔
اسلام کےنظام سیاسی کی پانچویںخصوصیت عدلیہ کی آزادی ہےاور تاریخ یہ بتاتی ہےکہ سخت سےسخت بادشاہت کےدور میںبھی عدلیہ نےاپنےوقار اور آزادی کو مجروح نہیںہونےدیا اور اکثر وقت کےفرمانروا کو عدلیہ کےسامنےاپنا سرجھکانا پڑا۔
چھٹی اہم خصوصیت سیاسی نظام میںافراد کی اجتماعی فلاح کےلیےایسےادارےکا وجود ہےجس کا سیاسی استعمال نہیںکیا جا سکتا یعنی زکوٰۃ جو معاشرہ کےضرورت مند افراد کو بغیر ان کےحقوق کا استحصال کیےمعاشرہ میںمعاشی استحکام اور خود انحصاری دینےکا ایک قانونی،الہامی،اور معاشرتی ادارہ ہے۔ ان اصولوںکےنتیجہ میںساتویںصفت خود ابھر کر سامنےآتی ہےیعنی سیاسی معاملات میںاختلاف رائے۔ اجتماعی طور پر ایک رائےپر مجتمع ہونا اور بلا کسی خوف یا دباؤ کےاپنی رائےکو پیش کرنا اور ضرورت پڑنےپر احتجاج کرنا۔
ان اصولوںکی موجودگی اور عملی طور پر پندرہ صدیوںکا عمل ایک متلاشی حق اور حقیقت بین نگاہ پر اسلام کی روح جمہوریت واضح کرنےکےلیےکافی ہے۔ ہاںجو جان بوجھ کر ایک روشن اور تابناک سورج کا انکار کرنےپر آمادہ ہو اسےتو صرف اللہ تعالیٰ ہی کسی معجزہ سےہدایت دےسکتےہیں۔
اسلام اور مغربی جمہوریت کا مقابلہ کرتےوقت یہ بات بھی کہی جاتی ہےکہ مسلم دنیا میںبادشاہتیںاور فوجی آمریتیںپائی جاتی ہیںجو یہ ثابت کرتی ہیںکہ اسلام اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیںچل سکتے۔ اگر معروضیت کو بنیاد بنا کر مسلم دنیا کا جائزہ لیا جائےتو خود بعض مغربی اہل قلم سیاسی حقائق کا تجزیہ کرتےہوئےیہ بات کہنےپر آمادہ نظر آتےہیںکہ ان نام نہاد حکمرانوںکےوجود اور استحکام کی بنیاد اگر کوئی ہےتو صرف وہ ممالک اور ان کےسربراہان جو دن رات جمہوریت کےتقدس کی قسمیںکھاتےہیںاور خود کو اعلیٰ ترین جمہوری اقدار کا علمبردار قرار دیتےہیں۔ ان میںسرفہرست برطانیہ اور امریکہ ہیں۔ رابن رائٹ جو Los Angeles Time کی نامہ نگار ہے،اپنےایک مضمون میں(جس کےلیےاسےایک امریکی ادارہ کی طرف سےتحقیقی امداد ی گئی تھی) اس بات کا اظہار کرتی ہے:
If Algeria is any example, however there is an implicit exception: Any counrty where Islam is the winner of a democratic election.The lack of U.S response, at a time when the Bush adminsitration is active and outspoken in adovacating political pluralism, makes it apear that the White House prefers a police state to an Islamic
democracy .*
حقیقت یہ ہےکہ نہ صرف الجزائر بلکہ ترکی میںجب اسلام دوست وزیراعظم جمہوری ذریعہ سےبرسراقتدار آیا تو اس جمہوری روایت کا قتل ان ہی افراد کےہاتھ سےہوا جو ہر لمحہ جمہوریت کی تسبیح پڑھتےنظر آتےہیں۔ یہی وہ افراد اور ممالک ہیںجو عرب دنیا میںبادشا ہوںاور فوجی آمروںکی حمایت کرنےمیںسب سےآگےرہےہیں۔ یہی ممالک پاکستان میںاپنےمفاد کےتحفظ کےلیےفوجی حکمرانوںکی مستقل حمایت کرتےرہےہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ کیا اسلام مسلم ممالک میںفوجی آمروںاور بادشا ہوںکو حمایت فراہم کرتا ہےیا وہ بیرونی ممالک جو نام نہاد جمہوریت کےعلمبردار سمجھےجاتےہیں۔ الجزائر،ترکی ۔ دو واضح تاریخی اور عصری مثالیںہیںجن کا تجزیہ ظاہر کرتا ہےکہ ان دونوںممالک میںعوام الناس کی حقیقی رائےکو مکمل طور پر پامال کرتےہوئےاسلام دشمن طاقتوںنےجمہوریت کےمقابلےمیںفوجی آمریت کی حمایت کرنا اپنا فرض سمجھا۔ یہ حقائق ہمیںیہ سوچنےپر مجبور کرتےہیںکہ اپنی تردامنی اور چاک قبا کو نظرانداز کرتےہوئےجمہوریت کی پاکی ٔ داماںکی حکایت پر اصرار کہاںتک اخلاقی اور عقلی رویہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
مسلم دنیا میںبرپا تحریکات اسلامی نےبالعموم اپنےلیےایک دستوری جمہوری راستہ منتخب کیا ہےاور گزشتہ نصف صدی سےزیادہ کا عرصہ اس بات پر شاہد ہےکہ وہ پاکستان ہو یا ملائشیا،ترکی ہو یا انڈونیشیا،اردن ہو یا الجزائر،سوڈان ہو یا تیونس،سخت ترین آزمائشی حالات میںبھی تحریکات اسلامی نےجمہوری اور دستوری ذرائع کو ہاتھ سےنہیںچھوڑا۔ اس کےباوجود یہ کہنا کہ یہ تحریکات جمہوریت دشمن ہیںاور اس بنا پر ان سےمغرب کےسرمایہ دارانہ نظام کو سخت خطرہ ہے،معروضیت کےدعوںکےساتھ ایک مذاق ہی کہا جا سکتا ہے۔
ہمارےخیال میںجس مکالمےکا حوالہ بعض مغربی اہل علم دیتےرہتےہیںاس کا عملی آغاز رابن رائٹ کی طرح کھلا ذہن رکھنےوالےافراد کو،ان کی بعض آراء سےاختلاف کےباوجود،مز۰ید دعوت فکر دےکر ہی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن صرف ایک شرط کےساتھ کہ اسلام کی نمائندگی کرنےوالےحضرات معذرتوںاور جارحیت دونوںسےبچتےہوئےاسلامی تاریخی روایات اور قرآن و سنت پر مبنی تعلیمات کو بنیاد بناتےہوئےاس مکالمےمیںبرابر کےشریک ہوںاور محض ناظرین اور سامعین کا کردار ادا نہ کریں۔
عالمی طور پر مستقبل کا سیاسی نقشہ اسی وقت مستحکم ہو سکتا ہےجب انسانی حقوق کےدعوؤںکےساتھ ان پر تھوڑا بہت عمل بھی کر لیا جائےاور اسلام اور مسلمانوںکو لا تعلقی اور دشمنی کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ تعصب مذہبی ہو،سیاسی ہو یا ثقافتی انسان کی عقل کو فیصلہ کی صلاحیت سےمحروم کر دیتا ہےاور انسان ایسےاقدامات کر بیٹھتا ہےجو کسی بھی اخلاقی پیمانہ سےدرست قرار نہیںدیےجا سکتے۔ افغانستان پر امریکی جارحیت اور یورپ کی بعض اقوام کی طرف سےاس ظلم کی حمایت یا اس پر خاموشی،فلسطین اور کشمیر میںحقوق انسانی کی پامالی پر نہ صرف خاموشی بلکہ ظلم اور انسان کشی کی حمایت اور اسلامی جمہوری تحریکات کےخلاف آمرانہ قوتوںکی پشت پناہی،گویا ہر سیاہ عمل ایسےافراد کو نیکی کا ایک باب نظر آتا ہے۔
مغرب اور اسلام کا بےلاگ اور غیر متعصب مکالمہ ہی مستقبل کےسیاسی استحکام کےامکانات کو روشن بنا سکتا ہے۔ ہمیںامید ہےکہ اس حوالہ سےتمام stake holders اس کی اہمیت کو محسوس کرتےہوئےمکالمہ اور تفہیمی ذرائع کےاستعمال میںتاخیر سےکام نہیںلیںگے۔

اسلام اور جمہوریت پر یہ خصوصی شمارہ گو ایسےموقع پر طبع ہو رہا ہےجب وطن عزیز میںفرد واحد کی تجویز کردہ دستوری تبدیلیوںکےزیر سایہ ملک گیر انتخابات کےذریعہ فوج کو دستوری تحفظات کےساتھ سیاسی معاملات میںفیصلہ کن مقام دلانےکا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اس موقع پر بعض ایسےبنیادی سوالات (مثلاً پاکستان میںسیکولر نظام وغیرہ) دوبارہ اٹھائےجا رہےہیںجن کا تصفیہ پاکستانی قوم اس ملک کےقیام سےقبل اور بعد میںبارہا کر چکی ہےاور جسےبانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نےاپنےپُرعزم اور دوٹوک انداز میںواضح کر دیا تھا۔ قائداعظم اور قوم کی جدوجہد اگر اسی لیےتھی کہ برطانوی سیکولر نظام سےنکل کر مغربی سیکولر نظام کو نافذ کر دیا جائےتو اس سےبڑھ کر سادہ لوحی ہمارےخیال میںممکن نہیں۔ پاکستان کےحوالےسےسیکولرزم کی بات کرنا دستور پاکستان اور قوم کےمتفقہ فیصلہ کا مذاق اڑانےبلکہ قائداعظم کےخلاف بغاوت کرنےکےمترادف ہے۔ اس حوالےسےمغرب کی فکر کیا ہے؟ وہ اسلام کےنظام سیاست میںکیا خامیاںمحسوس کرتا ہے؟ اور کیا مغرب کےخیال میںہم مغربی جمہوریت کےساتھ نبھاؤ کر سکتےہیں؟ یہ اور اس سےمتعلقہ بعض بنیادی سوالات کو سمجھنےکےلیےہم نےمغربی مفکرین کےنمائندہ تصورات کا ایک انتخاب اس شمارےمیںکیا ہے۔ اس شمارےمیںہم نےایک ہی مصنف کےدو مضامین شامل کیےہیںجس کا سبب دونوںمضامین کا باہمی ربط اور موضوع کےمختلف پہلوؤںپر مغرب کی نمائندہ فکر سےواقفیت ہے۔ کوشش کی گئی ہےکہ خود مغربی مفکرین میںپائےجانےوالےمختلف رجحانات کی نمائندگی بھی ہو جائےاور اسلامی نقطہ نظر سےان شبہات کا ازالہ بھی پروفیسر خورشید احمد کےمضمون سےکر دیا جائے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے