طالبان کی بین الاقوامی قانونی حیثیت تعلیم اور گورننس کے شعبوں میں اصلاحات سے مشروط ہے: ایمبیسیڈر ابرار حسین

طالبان کی بین الاقوامی قانونی حیثیت تعلیم اور گورننس کے شعبوں میں اصلاحات سے مشروط ہے: ایمبیسیڈر ابرار حسین

بین الاقوامی قانونی حیثیت اور قبولیت حاصل کرنے کے لیے طالبان کی قیادت کو اسٹریٹیجک اصلاحات کے ذریعے گورننس، شمولیت اور تعلیم، خاص طور پر خواتین کی تعلیم سے متعلق مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بات سابق سفیر سید ابرار حسین، وائس چیئرمین، آئی پی ایس نے انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز ( آئی آر ایس) میں ‘افغانستان کی سیاسی-اقتصادی صورتحال اور علاقائی رابطوں پر اس کے اثرات’ کے موضوع پر 19 ستمبر 2023 کو منعقدہ ایک گول میز کانفرنس کے دوران کہی، جس کا مقصد افغانستان کے زمینی حقائق اور علاقائی ممالک کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کے ساتھ اس کے بدلتے ہوئے تعلقات کو سمجھنا تھا۔

گول میز کانفرنس سے آئی  آر ایس کے صدر اور سابق سفیر ندیم ریاض ، ڈاکٹر فرح ناز، اسسٹنٹ پروفیسر، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ)، اسلام آباد، سلمان جاوید، ڈائریکٹر جنرل، پاکستان افغان یوتھ فورم (پی ای وائے ایف)، اور نظام الدین خان، صحافی اور ایڈیٹر، ہم نیٹ ورک، نے بھی خطاب کیا۔ اس نشست میں سابق سفیروں، میڈیا کے نمائندوں، ماہرین تعلیم اور کارکنوں نے شرکت کی۔

حسین نے کا کہنا تھا  کہ افغانستان میں طالبان کی حکمرانی کو کسی حقیقی خطرے کا سامنا نہیں ہے۔ تاہم انہیں بہت سے اندرونی اور بیرونی چیلنجز درپیش ہیں جنہیں اصلاحات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے اگر طالبان حکومت بین الاقوامی قانونی حیثیت اور شناخت حاصل کرنا چاہتی ہے، جو کہ خواتین کی تعلیم کے خلاف اپنی ناخوشگوار پالیسیوں اور پابندیوں کی وجہ سے ابھی تک ممکن نظر نہیں آ رہا۔

حسین نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان میں گورننس، شمولیت اور تعلیم کے شعبے میں مختلف قسم کی سٹریٹجک اصلاحات کی ضرورت ہے ، جس میں لڑکیوں کی تعلیم پر خاص زور دیا جانا چاہیے، تاکہ بین الاقوامی برادری کے وسیع تر خدشات کو دور کیا جا سکے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے