’اسٹیٹ بینک ترمیمی بل 2021ء کی سمجھ بوجھ‘

’اسٹیٹ بینک ترمیمی بل 2021ء کی سمجھ بوجھ‘

معاشی پالیسی کے ماہرین کی طرف سے متنازعہ اسٹیٹ بینک ترمیمی بل 2021 کے محرکات پر اٹھائے گئے سوالات

 STATEBANK-BILL

معاشی پالیسی کے ماہرین کی طرف سے متنازعہ اسٹیٹ بینک ترمیمی بل 2021 کے محرکات پر اٹھائے گئے سوالات

اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) کو خود مختار بنانے کے لیے حکومت کا حالیہ اقدام پاکستان پر مسلط آئی ایم ایف کے ایجنڈے کا ایک حصہ ہے کیونکہ اس میں شفافیت کا فقدان ہے اور یہ قومی مفاد کے منافی  بھی ہے۔

یہ معاشی اور مالی پالیسی کے ماہرین کا متفقہ نکتۂ نظر تھا جو 5اپریل 2021ء  کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ایک ویبنار میں پیش کیا گیا جس کا عنوان تھا ‘Understanding State Bank Amendment Bill 2021’۔

اس پروگرام کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر عبد الصبور ، ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز ، پی ایم اے ایس ایریڈ زرعی  یونیورسٹی  راولپنڈی نے کی۔

مقررین اور مباحثہ کاروں میں آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن؛ وائس چیئرمین ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) سید ابرار حسین؛   کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈویلپمنٹ،  انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی کی ڈین ڈاکٹر شاہدہ وزارت؛ سابق چیف اکانومسٹ  پلاننگ کمیشن ڈاکٹر پرویز طاہر؛ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور معاشی پالیسی کی تجزیہ کار کانت خلیل؛  معاشی امور سے متعلق کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی راجہ کامران اور سابق صدر راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (RCCI) امان اللہ خان  شامل تھے۔

مجوزہ ترامیم پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر پرویز طاہر نے موجودہ اسٹیٹ بینک ایکٹ کے دیباچے سے لفظ ’قومی مفاد‘ کے خاتمے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ مجوزہ بل میںSBP کے لیےافراطِ زر  پر قابو پانے کی ذمہ داری بیان کی گئی ہے  جو کہ پہلے ہی اس سلسلے میں ناکام ہوچکا ہے۔  انہوں نے مزید کہا کہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں پر قابو پانا ایک صوبائی موضوع ہے اور اس کا اسٹیٹ بینک سے کوئی لینا دینا نہیں، وہ صرف مرکزی افراطِ زر پر قابو پاسکتا ہے جس میں حالیہ برسوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے۔

ان کا یہ بھی مؤقف تھا کہ پاکستانی حکومت مجوزہ ترمیم کے ذریعہ آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کو اس سے کہیں زیادہ دے رہی ہے جتنا کہ یہ ادارے کسی  خودمختار ریاست سے حقیقت میں مطالبہ کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا مؤقف تھا کہ اداروں کی آزادی صرف اور صرف جامع پالیسیوں کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی پالیسیاں اپنی بنائی ہوئینہیں ہیں  بلکہ احکامات کے ماتحت  ہیں کیونکہ اہم اداروں کو چلانے والے زیادہ تر عہدیدار ”امپورٹڈ“ ہیں جو دنیا کے اس حصے میں نوآبادیاتی عہد کو جاری رکھنے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیٹ بینک کو مکمل خودمختاری دینا ، پاکستان کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ماتحت بنانے کے مترادف ہے۔

مرکزی بینکوں کی خود مختاری کے حوالہ سےرجحان کی وضاحت کرتے ہوئے  کانت خلیل نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مجوزہ خودمختاری کو عالمی رجحان کے مطابق قرار دیا۔ تاہم ، ان کا کہنا تھا کہکئی مطالعات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ خودمختاری کسی ملک کی معاشی نمو اور قیمتوں میں استحکام کی ضمانت نہیں ہوتی۔انہوں نے پاکستان میں سود کی شرح میں مزید کمی کی بھی تجویز پیش کی جو ٹیکس محصولات کا 45 فیصد قرضے کی ادائیگی میں دے دیتا ہے۔ یہ عدد ترقی یافتہ مارکیٹوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے جہاں یہ 5 فیصد سے بھی کم ہے۔

راجہ کامران نے اس بات پر تنقید کی کہ جس انداز میں مجوزہ قانون کو پیش کیا گیا اور اس کی منظوری بغیر کسی بحث و مباحثے کے  کابینہ نے دی ، اس نے اس کے مسودے کو مشکوک بنا دیا۔ انہوں نے سوال  اٹھایا کہ متعلقہ فریقین کو اس اقدام کے لیے اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ بل کا اصل مسودہ عوام یا متعلقہ فریقین کے جائزے کے لیے بھی دستیاب نہیں تھا۔

ڈاکٹر عبد الصبور نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری دوسرے تمام اداروں کی ترقی پر منحصر ہے۔ تاہم ، جب تک حکومت طرزِ حکمرانی میں اصلاحات متعارف نہیں کراتی ،اس وقت تک یہ پیشرفت ایک  خواب ہی رہے گی۔

انہوں نے کہا ،جب تک ملک تمام معاشی محاذوں پر ترقی نہیں کرتا ، ریاستی ادارے کبھی مضبوط نہیں ہوں گے۔ انہوں نے انسدادی طریقۂ کارتیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا  تاکہ غیر ملکی ادارے ملک کے اداروں کی کمزوریوں کا استحصال کرنے کے قابل نہ ہوں۔

اجلاس کے اختتام پر  خالد رحمٰن نے کہا کہ بادی النظرمیں یہ  ایک مسلط کردہ اقدام ہے جس میں اس سوچ کی جھلک نظر آتی ہے جو سابق وزیر اعظم معین قریشی کے دورِ اقتدارمیں اٹھائے جانے والے اقدامات میں تھی۔

ان کا خیال تھا کہ کچھ سرکاری عہدیداروں نے اس بل کو بدترین ارادوں سے پیش کیا ہے تاکہ وہ اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے ماتحت ادارےمیں تبدیل کردیں یا وہ خود کو ملک سے زیادہ آئی ایم ایف  کا وفادار ظاہر کر سکیں۔

انہوں نے تمام معاملات میں شفافیت کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا کیونکہ اس کی عدم موجودگی غیر معمولی قیاس آرائیوں کو جنم دے رہی ہے جو قومی مفاد کے  لیے نقصان دہ ہے۔

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے