5اگست کے بعد مسئلہ کشمیر پر رپورٹنگ بالخصوص بھارتی میڈیا کے حوالہ سے

5اگست کے بعد مسئلہ کشمیر پر رپورٹنگ بالخصوص بھارتی میڈیا کے حوالہ سے

post-5-augہندوستانی میڈیا مسئلہ کشمیر کی رپورٹنگ میں متعصب ہے اور خاص طور پر بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 اور A-35 کی منسوخی کے بعد ہندوتوا کے سخت گیر موقف کا ترجمان بن کر رہ گیا ہے۔

 post-5-august

ہندوستانی میڈیا کا جنگی جنون  تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔

ہندوستانی میڈیا مسئلہ کشمیر کی رپورٹنگ میں متعصب ہے اور خاص طور پر بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 اور A-35 کی منسوخی کے بعد ہندوتوا کے سخت گیر موقف کا ترجمان بن کر رہ گیا ہے۔

یہ ”5اگست کے بعد مسئلہ کشمیر پر رپورٹنگ بالخصوص بھارتی میڈیا کے حوالہ سے “ کے عنوان سے ہونے والے ایک سیمینار میں مقررین کی رائے تھی جو کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (CPNE) اور رفاہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیا سائنسز (RIMS) کے تعاون سے 23اکتوبر 2019ء کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (اسلام آباد) کے زیرِ اہتمام منعقد ہوا۔

مقررین نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا کو جمہوریت کا نگہبان سمجھا جاتا ہے لیکن ہندوستانی میڈیا حکومت کا بھونپو بنا ہوا ہے۔ اس کے غیرمعقول جارحانہ طرزِعمل نے نہ صرف جنگ کے ہسٹیریا کو بھڑکایا ہے جبکہ پُرامن صحافت کی ناکامی اس خطے کو تباہ کن صورتِ حال کی طرف لے جاسکتی ہے۔

اجلاس سے سید فخرامام چیئرمین پارلیمنٹری کمیٹی برائے کشمیر اور علی محمد خان وزیرمملکت برائے پارلیمانی امور نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے خطاب کیا۔ صدارت کے فرائض میجر جنرل (ریٹائرڈ) سردار محمد انور خان سابق صدر اور وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر (AJ&K) نے ادا کیے۔ دیگر مقررین میں ڈاکٹر فرحان مجاہد چاک کشمیری کینیڈین دانشور اور قطر یونیورسٹی میں شعبہ بین الاقوامی امور میں ایسوسی ایٹ پروفیسر، سردار تجمل الاسلام ایگزیکٹو ڈائریکٹر کشمیر میڈیا سروسز (RMS)، ڈاکٹر عاصمہ شاکر خواجہ اسسٹنٹ پروفیسر فیکلٹی آف پیس اینڈ کنفلیکٹ اسٹڈیز نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (NDU) اسلام آباد، بریگیڈئر (ریٹائرڈ) سید نذیر آئی پی ایس ایسوسی ایٹ، فرزانہ یعقوب سابق وزیر آزاد جموں و کشمیر اور آئی پی ایس ایسوسی ایٹ، محسن رضا خان ڈائریکٹر نیوز ٹی وی ٹوڈے، سردار خان نیازی ایڈیٹر روزنامہ پاکستان اور نائب صدر کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (CPNE)، طارق حبیب سربراہ ”تحقیقاتی سیل“ اور ”کشمیر بحران سیل“ دنیا نیوز اور نامہ نگار انادولو نیوز ایجنسی (ترکی) اور رحمان اظہر اینکرپرسن اور خصوصی نمائندہ ایکسپریس نیوز شامل تھے۔ اجلاس میں افتتاحی کلمات آئی پی ایس کے ایگزیکٹو صدر خالد رحمٰن نے پیش کیے۔

سید فخرامام نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے کشمیریوں کے پیچھے کھڑا ہے اور وہ کبھی بھی ہندوستانی قبضے کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں ان کا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر پر بھارتی میڈیا کی کوریج کو پیشہ ورانہ صحافت کے ساتھ مذاق قرار دیا۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر پر بین الاقوامی میڈیا کے طرزِ عمل میں تبدیلی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ ہندوستانی بیانیے کو اختیار نہیں کیے ہوئے۔

علی محمد خان نے اپنی تقریر میں بھارتی میڈیا کے منفی کردار پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صرف ایک مضبوط پاکستان ہی تنازعہ کشمیر کے حل کو یقینی بناسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ہندوستانی معاشرے میں موجود فالٹ لائنوں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں، یونیورسٹیوں اور میڈیا ہاؤسز کو اپنا کردار سمجھنا چاہیے اور کشمیریوں کو جکڑے جانے والے اقدامات کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے اس کا جواب دینا چاہیے۔

نہ صرف ہندوستان کا قومی میڈیا بلکہ کارپوریٹ ملکیت میں چلنے والے نجی میڈیا گروپ بھی کشمیر کی صورتِ حال کو جزوی طور پر بیان کررہے ہیں اور حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف اس بیان کو اختیار کیے ہوئے ہیں جو سرکاری پالیسی ہے۔ یہی بات شیخ تجمل الاسلام نے بھی مشاہدہ کی اور اس بات پر یقین کا اظہار کیا کہ بھارت میں نہ تو جمہوریت ہے اور نہ ہی اس کا میڈیا ریاستی کنٹرول سے آزاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی میڈیا جھوٹی معلومات اور جعلی خبروں کو پھیلانے کا ماہر ہے۔ ڈاکٹر فرحان چاک نے کہا کہ بی جے پی سے متاثرہ میڈیا یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ بھارت کو جنگ جویانہ وطن پرستی کا شکار کرکے تنازعات کو جنگ میں تبدیل کر دے اور علاقائی امن خطرے میں ڈال دے۔ انہوں نے کہا کہ صحافتی اور شفافیت کی اقدار کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ  مقبوضہ کشمیر پر گرفت برقرار رکھنے کے لیے اختیار کیے گئے بھارتی جھوٹ کی غیرقانونی حیثیت کو بیان کیا جائے۔ انہوں نے غالب ہندوستانی بیانیہ کو چیلنج کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

آئی پی ایس کے ایگزیکٹو صدر خالد رحمٰن نے کہا کہ میڈیا ہائبرڈ جنگ کا سب سے اہم ذریعہ ہے اور بھارت میں میڈیا کو جموں و کشمیر کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ آرٹیکل 370 اور A-35 کو منسوخ کرنے کے بعد جموں و کشمیر میں مکمل طور پر بلیک آؤٹ ہے تاہم ہندوستانی حکومت ایک معمول کی صورتِ حال کی تصویر پیش کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ یہ جنگی رویہ صرف حکومت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ جنگی جنون والا بھارتی میڈیا بھی پاکستان کے خلاف نفرت کو ہوا دینے میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔

ڈاکٹر عاصمہ خواجہ نے کہا کہ ہندوستان میں عوام اطلاعات کے تصوراتی خلا میں رہ رہے ہیں اور اس خلا میں جو چاہے پیش کیا جاسکتا ہے۔ یہاں ترقی، باہمی مفادات وغیرہ پر توجہ مرکوز نہیں کی جاتی ہے۔ صرف حکومت کے جنگی خبط کو پھیلانے کے لیے جنگ جویانہ ذہنیت عام کرنے پر توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔

فرزانہ یعقوب نے جھوٹے پروپیگنڈے کو پھیلانے کے لیے میڈیا کے موثر استعمال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی خبریں، فلمیں اور سوشل میڈیا اپنی شکست کو بھی فتوحات کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستانیوں نے سوشل میڈیا پر کشمیر کو ٹرینڈ دینے میں اچھا کام کیا جس پر بھارت نے پاکستانیوں کے بہت سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پابندی بھی عائد کردی۔

سردار خان نیازی نے کہا کہ جہاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم پاکستان کی تقریر نے اپنے اثرات مرتب کیے، یہ انتہائی ضروری ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کو زندہ رکھنے کے لیے موثر سرگرمیوں کے ذریعے اس عمل کو جاری رکھا جائے۔ پاکستانی میڈیا کو بھی اس ذمہ داری کو ادا کرنا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے پروگراموں، مضامین، کالموں اور سوشل میڈیا میں اس کو آگے لے کر چلا جائے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے