‘پاکستان کے وجود میں آنے کے بیانیے کی تجدید اور مطالعہِ پاکستان’

‘پاکستان کے وجود میں آنے کے بیانیے کی تجدید اور مطالعہِ پاکستان’

ملک کی حقیقی تہذیبی شناخت کی عکاسی کے لیے پاکستان اسٹڈیز کے نصاب پر نظر ثانی کی جانی چاہیے۔

مطالعہِ پاکستان سے متعلق نصاب اور گفتگو کو پاکستان کے وجود میں آنے،  ترقی کرنے، اور اتحاد کو فروغ دینے کے حوالے سے ایک درست اور مقامی تناظر کی عکاسی کرنی چاہیے۔ فی الحال نصاب اس مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ ایک تہذیبی ریاست کے طور پر پاکستان کے تشخص کی صحیح معنوں میں نمائندگی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے بیانیے تیار کیے جائیں جو اس وژن سے ہم آہنگ ہوں۔ لہٰذا پاکستان اسٹڈیز کے نصاب کی یا تو تجدید کی جانی چاہیے، یا پھر اسے بند  ہی کر دینا چاہیے۔

یہ بات معروف سماجی سائنسدان اور گیلپ پاکستان اور گیلانی ریسرچ فاؤنڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز (آئی پی ایس) ، اسلام آباد میں 10 جولائی 2024 کو  منعقدہ ایک سیشن ‘پاکستان کے وجود میں آنے کے بیانیے کی تجدید اور مطالعہِ پاکستان’ کے دوران کہی۔ فورم میں آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن، سابق سفیر اور وائس چِئیرمین آئ پی ایس سید ابرار حسین، آئی پی ایس کے ہیڈ آف آبریشنز سیّد ندیم فرحت، سینئر ریسرچ فیلو آئی پی ایس شہزاد اقبال شام، ماہرین تعلیم اور طلباء نے شرکت کی۔

فی الوقت تقریباً 500,000 سے زیادہ طلباء انٹرمیڈیٹ تک پاکستان اسٹڈیز پڑھتے ہیں، پھر بھی یہ بیانیہ کچھ ایسا ہی بن گیا ہے جیسا کوئی ا مریکی استاد پاکستان کے بارے میں پیش کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر گیلانی نے استدلال کیا کہ یہ نقطہ نظر قومی وقار اور اتحاد کو فروغ دینے کے لیے ضروری مقامی بیانیے کو کمزور کرتا ہے۔

انہوں نے پاکستان سٹڈیز کے مضمون کی تجدید کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس پر نظر ثانی کی جائے یا اسے بند کر دیا جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے پاکستان اسٹڈیز کے ادبی ماخذات اور اس کے ارد گرد کی گفتگو پر نظر ثانی کی اہمیت پر زور دیا۔ ڈاکٹر گیلانی نے اچھی طرح موجودہ لٹریچر کا جائزہ لیا، 40 کتابوں کی جانچ پڑتال کی اور انہیں ڈیجیٹل لائبریری کے طور پر پیش کیا۔ اس ڈیجیٹل لائبریری کا مقصد ایک زیادہ درست اور مقامی بیانیہ کی ترقی میں معاونت کے لیے جامع وسائل فراہم کرنا ہے۔

آج کی دنیا میں، جہاں چین اور بھارت جیسی تہذیبی ریاستیں منفرد مقام رکھتی ہیں، پاکستان کے تاریخی سفر کو حقیقی معنوں میں سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ڈاکٹر گیلانی نے نشاندہی کی کہ پاکستان اسٹڈیز گزشتہ برسوں میں قومی اتحاد پیدا کرنے کے اپنے اصل مقصد سے ہٹ کر، پاکستان مخالف خیالات کا ایک پلیٹ فارم بن گیا ہے۔ انہوں نے استدلال کیا کہ پاکستان ایک تہذیبی ریاست ہے اور اس کی شناخت کی نمائندگی ایسے بیانیے کے ذریعے کی جانی چاہیے جو اس سے ہم آہنگ ہوں۔ اس لیے اس موضوع کی تجدید کی ضرورت ہے۔

شرکاءنے پاکستان اسٹڈیز کو محض گریڈز کے لیے پڑھنے کے بجائے ٹول کٹس، نقشہ جات اور باقاعدہ طریقہ کار کے ذریعے پڑھانے کی وکالت کی۔ اس میں طلباء کو ایسے عملی اور انٹرایکٹو لرننگ ٹولز کے ساتھ انگیج کرنا شامل ہوگا جو پاکستان کی تاریخ اور شناخت کے بارے میں ان کی سمجھ کو بہتر بنا سکیں۔

سیشن کے اختتام پر شہزاد شام نے کہا کہ پاکستان سٹڈیز کی تجدید صرف علمی مواد کے حوالے سے نہیں بلکہ طلباء میں ایک متحد اور باخبر نقطہ نظر کو فروغ دینے کے بارے میں ہے، جو پاکستان کی حقیقی تاریخ اور بحیثیت قوم اس کے جاری سفر کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تجدید ایسے باخبر اور قابل فخر شہری پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے جو پاکستان کے مستقبل میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے