’عصری تہذیبوں پر گفتگو: تین عالمی تہذیبوں کا تجزیہ‘

’عصری تہذیبوں پر گفتگو: تین عالمی تہذیبوں کا تجزیہ‘

الحاد ایک الگ تہذیب کی شکل اختیار کر چکا ہے: ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی

اسلام، عیسائیت اور دیگر عقائد پرمبنی تہذیبوں کو یہ سمجھنےکی ضرورت ہے کہ الحاد کوئی عالمی مذہب نہیں بلکہ ایک الگ تہذیب ہے۔ یہ نئی ترقی یافتہ تہذیب عالمگیریت کا دعویٰ کرتی ہے لیکن اسے دوسری انسانی تہذیبوں کے پھلنے پھولنے اور ایک ساتھ رہنے کے حق کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔

حالیہ دہائیوں کے دوران، الحاد، جس کی حمایت سیکولر اقدار اور عالمگیریت نے کی ہے، ایک ایسی تہذیب میں تبدیل ہوئی ہے جو دوسری عالمی تہذیبوں جیسے کہ اسلام اور عیسائیت سے مختلف ہے۔ یہ ایک مخصوص سیاسی اور سماجی ماحول میں ایک مخصوص تاریخی پس منظر سے نکلی ہے اور اسے اپنے نظریات، اور اقدار کو جبری طاقت کے ذریعے دوسری تہذیبوں پر مسلط کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے، جن میں سے ہر ایک کی اپنی اقدار، روایات اور عقائد ہیں۔

ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی، ایک تجربہ کار ماہرسیاسیات اور چیئرمین گیلپ پاکستان ،نےیہ گفتگو 28 فروری اور 14 مارچ 2023 کو  مباحثے کی نوعیت کےایک لیکچر میں کی، جس کا عنوان تھا ’  عصر ی تہذیبوں پر گفتگو: تین عالمی تہذیبوں کا تجزیہ ‘۔

اس گفتگو کا محور اسلام، عیسائیت اور الحاد میں حالیہ پیش رفتوں اور رجحانات اور عالمی تہذیبوں اور عصری دنیا کے فکری علمبرداروں کے درمیان تعاون اور/یا تصادم کے امکانات کا جائزہ لینا تھا۔

اس مباحثے میں آئی پی ایس کےفیکلٹی ارکان چیئرمین خالد رحمٰن؛ وائس چیئرمین ایمبیسیڈر (ر) سید ابرار حسین؛ ڈاکٹر شہزاد اقبال شام، سینئر ریسرچ فیلو؛ سید ندیم فرحت، ریسرچ فیلو؛ ڈاکٹر غلام حسین، آئی پی ایس کے ریسرچ فیلو اور اسسٹنٹ پروفیسر، بحریہ یونیورسٹی؛ کے علاوہ متعدد وزیٹنگ اسکالرز نذیر احمد مہر، بانی، ریسرچ انیشیٹو؛ ڈاکٹر ساجد خاکوانی؛ ڈاکٹر امیر عثمان؛ ڈاکٹر غزالہ غالب؛ ڈاکٹر صومیہ عزیز؛ ڈاکٹر میر اکبراور ڈاکٹر رشید احمد نے حصہ لیا۔

ڈاکٹر گیلانی نے لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ تہذیب اور مذہب کا انسان کی انفرادی اور اجتماعی شناخت کی تخلیق میں اہم کردار ہے۔ اس کے نتیجے میں، انسان نے نسلی، مذہبی، جغرافیائی اور لسانی وابستگیوں کی بنیاد پرکی گئی گروہ بندیوں کواپنی شناخت کا ذریعہ بنایا ہے۔ اس کے باوجود، 1920 کی دہائی میں عصری عالمگیریت کے دور میں، قومی ریاستوں کے قیام کے باعث ریاستی شناخت نے دوسری شناختوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اپنی معاشی اور جبری طاقت کی وجہ سے قومی ریاستوں پر مرکوز یہ عالمگیریت تہذیبی اور مذہبی شناخت کو یہاں تک بھی تسلیم نہیں کرتا ہے کہ ریاستی مردم شماری کے اعدادوشمار میں تہذیبی شناخت کو دستاویزی شکل دی جا سکے۔ ریاستی تشخص نے مذہبی شناخت کے ساتھ بہت محدود تعلق استواررکھا ہے کیونکہ مذہبی شناخت جو عملی طور پر ایک تہذیب بن جاتی ہے، جدیدیت کی نفی سمجھی جاتی ہے۔

سیکولر/ ملحدانہ سوچ کے علاوہ، تمام مذہبی اور تہذیب پر مبنی سوچ کے نمونے انسان کی انفرادی اور گروہی شناخت پر اپنابھرپور اثرکھوچکے ہیں۔ مزید یہ کہ دوسری تہذیبوں کو سیکولر فکر پر مبنی تہذیب کے حصے کے طور پر غلط سمجھا جاتا ہے۔

ڈاکٹر گیلانی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ باقی شناختیں عالمی سطح پر انسانی زندگی کا ایک اہم حصہ  ہیں، مثال کے طور پر عالمی آبادی کا 55 فیصد حصہ صرف دو عالمی تہذیبوں یعنی اسلام اور عیسائیت پر مبنی ہے، ان جداگانہ شناختوں کو اسی طرح تسلیم کیا جانا چاہیے جیسے وہ عصری عالمگیر دنیا  میں ریاستی شناخت کو مجروح کیے بغیر موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ تہذیبوں کو ریاست کا حصہ سمجھا جانا چاہیے نہ کہ ریاستی تشخص کی نفی کے طور پر۔

اس لیکچر کے بعد شرکاء نے بحث میں بھرپورحصہ لیا۔

مباحثے کا اختتام کرتے ہوئے، خالد رحمٰن نے اس موضوع پر وسیع تر گفتگو کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیا۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے