معیشت کا موجودہ بحران اورمتبادل پروگرام کی ضرورت

معیشت کا موجودہ بحران اورمتبادل پروگرام کی ضرورت

۲۵ مئی ۲۰۱۲ء کو نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوجیز اسلام آباد اورآئی پی ایس نے یونیورسٹی کے مرکزی کیمپس میں ’’معیشت کا موجودہ بحران:متبادل پروگرام کی ضرورت‘‘ کے موضوع پر ایک مشترکہ سیمینار کا انعقاد کیا۔ سابقہ چیف اکانومسٹ حکومتِ پاکستان اورآئی پی ایس کے سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ فصیح الدین اورپروفیسر عتیق الظفر سیمینار کے مقررین تھے، جبکہ ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمن نے صدارت کے فرائض سرانجام دیے۔ اس موقع پر NUMLکی فیکلٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے سربراہ ڈاکٹررشید احمدخان بھی موجود تھے۔ انہوں نے اجلاس کے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔
سیمینار کے انعقاد کا مقصد یونیورسٹی کے گریجویٹ طلبہ میں چند سال قبل شروع ہونے والے عالمگیر اقتصادی بحران کے اسباب اوراس کے مختلف پہلووؤں سے متعلق آگاہی پیدا کرنا تھا۔ مزید یہ مقصد کہ اب تک جاری اس بحران کو حل کرنے کے لیے ایک متبادل پروگرام پیش کیاجائے تاکہ مستقبل میں کسی ایسے ہی بحران کے باعث عالمگیر اقتصادی نظام کو لگنے والے شدید جھٹکوں سے بچاؤ کی تدبیر کی جاسکے۔
شرکاء کو اس عالمگیر اقتصادی بحران کی شدت اور اس کے اہم پہلوؤں سے آگاہ کرتے ہوئے جناب فصیح الدین نے کہا کہ ۹۰کی دہائی میں عالمگیریت اورآزاد منڈی کی تحریک، ۱۹۹۷ء کے مشرقی ایشیا کے اقتصادی بحران اوربنکنگ سیکٹر کی مالیاتی خدمات کا کسی نگرانی کے عمل اورتحقیق و تفتیش کے بغیر مارکیٹ میں پھیلاؤ، امریکہ میں آنے والے بینکنگ بحران اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے مالی بگاڑ اورحرص وہوس ، مالیاتی خسارے اوریورو کے علاقائی زون میں موجود قرضوں کے بحران جیسے عوامل اس عالمگیر معاشی بحران کے اسباب تھے جنہوں نے ترقی پذیر ممالک کی اقتصادیات کو شدید طورپر متا ثر کیا۔
انہوں نے اس بحران کی شدت کا ذکرکرتے ہوئے بتایا کہ اس کے نتیجے میں GDPکی بین الاقوامی بڑھوتری میں زوال کی نشاندہی اس سے ہورہی ہے کہ یہ ۲۰۱۲ء میں ۳ء۳ فی صدکی سطح تک نیچے آگیا ہے۔ بین الاقوامی تجارت ۸ء۳ فی صد رہ گئی۔ مالیاتی مارکیٹ منہدم ہوکر رہ گئی ۔ ترقیاتی عمل اورملازمتوں کے تعلق کو شدید دھچکا لگا، نوجوانوں کو روزگار نہ ملنے کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا جو کہ امریکہ میں ۹ فی صد اورسپین میں ۲۰ فی صد بیروزگاری کی شرح کی نسبت دوگناصورت میں سامنے آیا۔ آمدنی اوردولت میں عدم مطابقت اورتفاوت دیکھنے میںآیا جس کے نتیجے میں امراء اورمعاشرے کے طاقتور عناصر کے وسائل بالکل غیر متناسب انداز میں بڑھتے چلے گئے۔
فصیح الدین کی رائے تھی کہ جب یہ بحران اپنے عروج پر تھا تو دنیا کے اس بحران سے جلد نکلنے کا امکان نظر نہیں آرہاتھا۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے بہت ہی بنیادی مسائل کے حل کی کوئی سنجیدہ کوشش بھی نظر نہیں آرہی تھی جن میں غیر مساویانہ آمدنی، روزگار اورنظام پر نگرانی کا عمل شامل تھا۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ترقی پذیر معیشتوں پر اس بحران کے اثرات کا عمل جاری رہے گا۔
موجودہ مالیاتی نظام کا متبادل پیش کرتے ہوئے پروفیسر عتیق الظفر نے کہا کہ اسلام کا مالیاتی نظام اس طرح کے مالیاتی بحرانوں سے بچنے کا بڑا مضبوط اورمربوط حل دیتاہے۔ انہوں نے اس کا خاکہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اسلامی مالیاتی نظام غرر (دھوکہ، بے یقینی)، قمار(جُوا) اورمیسر(لاٹری)کے خلاف رکاوٹ ہے۔ اس کے تحت قرضے پر خریدی ہوئی چیز قرض پر فروخت کرنا اوردو فریقین میں ہونے والا بے ضابطہ معاہدہ قابل قبول نہیں۔ سود سے متعلق قرآنی آیات اورفیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے عتیق الظفر نے بتایا کہ ربا امیر اورغریب کے درمیان فرق مزید بڑھا دیتاہے اورمعاشرے میں برائیوں کو جنم دیتاہے۔ انہوں نے اس المیے کی نشاندہی کی کہ ہم معاشرے کی چھوٹی چھوٹی برائیوں سے بچنے کی راہیں تجویز کرتے رہتے ہیں اوراس بڑی برائی پر ہماری کوئی توجہ نہیں جو معاشرے کو طاعون کی طرح چمٹی ہوئی ہے۔ پروفیسر عتیق الظفرنے اسلامی بنکنگ میں اہم مالیاتی معاہدوں سے متعلق شرکاء کو بتایا۔ ان میں معجل یا مرابحہ، مساقات، بیع سلم، استسناع، مشارکہ، مضاربہ اوراسلامی انشورنس نظام یعنی تکافل شامل ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمن نے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں سود پر مبنی اقتصادی نظام ہر صورت میں صرف سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کرتاہے اورامیراور غریب کے درمیان فرق کو مزید بڑھادیتاہے جس کے نتیجے میں معاشرے کے اندر عدم مطابقت میں اضافہ ہوتاہے۔ انہوں نے شرکاء کی توجہ اس ابھرتے ہوئے رجحان کی طرف دلائی جو کہ مسلم معاشروں بشمول پاکستان میں موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کا متبادل تلاش کرنے کے لیے پیدا ہورہاہے۔ انہوں نے متبادل نظام کی اہمیت اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اس جانب بھی توجہ دلائی کہ اپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلانے کی سوچ بھی اس بحران کے پیدا ہونے اوربڑھنے کے بڑے اسباب میں سے ایک ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اس طرح کے بحران سے بچنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے