پاکستان اور وسطی ایشیا کے تعلقات

01pak centet

پاکستان اور وسطی ایشیا کے تعلقات

 انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں ہونے والی ایک علمی مجلس میں ”پاکستان اور وسطی ایشیا کے تعلقات 1991ء سے“ کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔ جس میں وسطی ایشیا کی ان پانچ ریاستوں سے پاکستان کے تعلقات زیرِ بحث آئے جو پہلے سوویت یونین کا حصہ تھیں اور اس کے بعد آزاد ریاست کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر موجود ہیں۔ ان ریاستوں سے الگ الگ بھی اور بحیثیت مجموعی تاریخی تناظر، حالیہ منظرنامہ  اور مستقبل کی صورت گری کے حوالے سے تبادلۂ خیال ہوا۔

6 جنوری 2016ء کو ہونے والی اس علمی مجلس میں جن شخصیات نے اظہارِ خیال کیا ان میں شامل ہیں، محمد خالد خٹک، جو وسطی ایشیا کے ریجن میں پاکستان کے پہلے سفیر تھے (الماتا، قازخستان)؛ جاوید حفیظ جو دوشنبے، تاجکستان میں پاکستان کے پہلے سفیر رہے؛ اس موضوع سے خصوصی دلچسپی اور اس میں مہارت رکھنے والے ڈاکٹر عظمت حیات ؛ اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمٰن۔

خالد خٹک نے وسطی ایشیا کا وہ جامع تاریخی پس منظر بیان کیا جو پاکستان کے نقطۂ نظر سے ہمیشہ  سامنے رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وسطی ایشیا کی ریاستوں کی آزادی کے فوراً بعد پاکستان میں شدید خواہش اور جذبہ پایا جاتا تھا کہ ان ریاستوں سے قریبی تعلقات قائم کیے جائیں۔ تاہم یہ خوش فہمی زمینی حقائق کی بنیاد پر قائم نہیں تھی، کیونکہ نہ تو پاکستان ان ریاستوں سے جغرافیائی طور پر براہِ راست منسلک تھا اور نہ سیاسی استحکام اور اقتصادی مضبوطی کے لحاظ سے یہ اس درجہ پر تھا کہ نئی آزاد ہونے والی ریاستیں خود اس کی طرف متوجہ ہوتیں۔

جاوید حفیظ نے اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کے حوالے سے بتایا کہ تاجکستان کی اہمیت یہ ہے کہ یہ پانی کے وافر قدرتی ذخائر یعنی گلیشیر وغیرہ کے لحاظ سے بہت امیر ہے اور پاکستان کو بجلی کی فراہمی کے لحاظ سے ایک اہم ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبہ کے ساتھ ساتھ باہمی تجارت کے لحاظ سے بھی اس ملک سے تعلقات بڑھائے جانے چاہییں۔

عظمت حیات کی پریزنٹیشن کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ برسوں تک پاک-ازبک تعلقات میں زیادہ ترقی نہ ہونے کا سبب پاکستان کا اندرونی عدمِ استحکام اور ساتھ ہی خطہ کا بھی عدمِ استحکام رہا ہے۔ تاہم انہوں نے زور دیا کہ دونوں ملکوں کو باہمی دلچسپی اور فائدے کے لیے نیز مستقبل کے تعاون کے لیے مشترکہ شعبوں کا تعین کرنا چاہیے جن میں توانائی کے وسائل، قدرتی معدنیات، برآمدات، ٹیکسٹائل، مشینری اور ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے قابلِ ذکر ہیں۔

اس علمی مجلس میں اس خطے کے چند نمایاں مشترکہ منصوبے اور ادارے بھی زیرِ بحث آئے، جن میں پاکستان، چین، کرغزستان اور قازخستان راہداری (PTFT)؛ ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا پائپ لائن (TAPI)؛ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO)؛ اور آزاد ریاستوں کی دولتِ مشترکہ (CIS) شامل ہیں۔ پاکستان کے نقطۂ نظر سے ان کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے