آئی پی ایس کی قومی مجلسِ علمی کا سالانہ اجلاس

IPSNAC17 thumb-150x150

آئی پی ایس کی قومی مجلسِ علمی کا سالانہ اجلاس

IPS-NAC-2017-18

ریاستی اداروں کے درمیان چپقلش پراظہارِتشویش

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کی قومی مجلسِ علمی کے اراکین نے اپنے سالانہ اجلاس میں پاکستان کے ریاستی اداروں کے درمیان جاری مسلسل چپقلش پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئےاسے قوم کے لیے شدید نقصان دہ قرار دیا ہے۔

 مذکورہ مجلس کے اراکین میں ملک بھر سےمختلف شعبوں کےنامور ماہرین، دانشور، علماء اورمحققین شامل ہیں اور اسکے قیام کا سہرا آئی پی ایس کے سَر ہے جوکہ گزشتہ ۳۸ سالوں سے ملک بھرمیں تحقیق کے ذریعے بامعنی پالیسی سازی اور گڈ گورننس کے لیے مسلسل کوشاں اور قومی مفادات کے تحفّظ کا خواہاں ہے۔

۱۱ اکتوبر ۲۰۱۷ کو منعقد ہونے والے اس اجلاس میں سابق سینیٹراور چیئرمین آئی پی ایس پروفیسر خورشید احمد سمیت سابق چیف ماہرِاقتصادیات، پلاننگ کمیشن آف پاکستان، فصیح الدین نے بذریعہ آڈیو لنک خطاب کیا۔ اجلاس کے شرکاء میں سابق ڈپٹی چیئرمین، پلاننگ کمیشن آف پاکستان سعید احمدقریشی، سابقہ سیکریٹری خارجہ امور اور سابق سفیر شمشاد احمد خان، سابق وفاقی سیکریٹری اور سابق چیئرمین نیشنل ٹیرف کمیشن مسعود داہر، سابق ایڈیشنل سیکریٹری ریاض الحق، سابق سیکریٹری پانی اور بجلی مرزا حامد حسن، چیئرمین رویت ہلال کمیٹی اور صدرتنظیم المدارس پاکستان مفتی منیب الرحمٰن، جنرل سیکریٹری پاکستان شریعت کونسل مولانا زاہدالراشدی، ریکٹریونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ایم ٹی) ڈاکٹر حسن صہیب مراد، وائس چانسلر رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی ڈاکٹر انیس احمد، ریٹائرڈ ایئر کموڈورخالد اقبال سمیت ایگزیکٹو پریزیڈنٹ آئی پی ایس خالدرحمٰن نے شرکت کی۔

پروفیسرخورشیداحمدنےاپنےخطاب میں قومی اتحادکےفروغ کےلیے مفید راہوں کےتعین پرزوردیتےہوئےکہاکہ قیامِ پاکستان جمہوری جدوجہدکانتیجہ تھااورملک کوترقی کی راہ پر گامزن کرنےکے لیے یہی حکمتِ عملی اپنانےکی ضرورت ہے۔ پاکستان کوآج سخت چیلنجوں کاسامناہےجس سےنمٹنےکےلیے قوم کے افراد سمیت ریاستی اداروں کو اپناکرداربخوبی ادا کرناہوگا۔ تمام ذمہ داران کو اہم قومی فیصلوں اور پالیسی سازی کے دوران قومی مفاد کو بالاتررکھناچاہیے۔ پالیسی سازی کے ذمہ داران کو زمینی حقائق اورمقاصدکی سمجھ بوجھ ہونا بھی ضروری ہے۔

مزیدبراں قومی پالیسیوں کےبنیادی ڈھانچےکےمتعلق اظہارِخیال کرتے ہوئےان کا کہناتھاکہ پالیسی سازی کےدوران پاکستان کی نظریاتی شناخت، تحفظِ آزادی، خودمختاری اور عوامی فلاح وبہبودکوملحوظِ خاطررکھاجائے۔

شرکاء نے دیرپا قومی استحکام کے لیے سیاسی، خاندانی اورادارتی نظام کی مظبوطی کو کلیدی قراردیا۔ اس ضمن میں انہوں نےتعمیرِاستعداداورسرکاری اداروں کی آپس میں باہمی ہم آہنگی کی ضرورت کو بھی اجاگرکیا۔ ملک بھر میں رائج علاقائی، سیاسی، ثقافتی اور فرقہ ورانہ تقسیم پر اظہارِتشویش کرتے ہوئےقوم کے ان مختلف گروہوں کے درمیان ہم آہنگی کوفروغ دینےکےلیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت پر زوردیا گیا۔

 اجلاس میں حکومتِ پاکستان کی موجودہ معاشی پالیسیوں کو بھی تنقیدکانشانہ بنایا گیا۔ اس موقع پراپنی رائےکااظہارکرتےہوئےمفتی منیب الرحمٰن کا کہناتھاکہ میڈیاکوعوام میں مایوسی پھیلانےکی بجائےقومی تعمیرمیں مثبت کرداراداکرناچاہیئے تاکہ قومی مفادات کوفروغ حاصل ہو۔ انہوں نے پروفیسرخورشیداحمدکی رائےسےاتفاق کرتےہوئےکہا کہ میڈیاکےکردارکی طرح ریاستی امور میں بھی اخلاق سوزی کی جھلک نمایاں ہےجس کےحل کے لیےہم خیال اداروں سمیت مختلف سماجی گروہوں سےتعلق رکھنےوالے افرادکوہنگامی بنیادوں پر ٹھوس اقدامات اٹھانےکی ضرورت ہےتاکہ معاشرےمیں اخلاقی قدروں کوفروغ حاصل ہو۔ 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے