پالیسی پرسپیکٹیوز جلد 15 نمبر 1

PP-V-15-No-1---Title

پالیسی پرسپیکٹیوز جلد 15 نمبر 1

PP-V-15-No-1چیف ایڈیٹر:   خالد رحمٰن

جلد:  15

نمبر:  1

صفحات: 153

قیمت: 600 روپے

سالانہ خریداری:  1000 روپے

بیرونِ ملک قیمت: 60 ڈالر

بیرونِ ملک سالانہ خریداری:  120 ڈالر

 

 

 انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے انگریزی زبان میں مؤقر علمی و تحقیقی مجلّے "پالیسی پرسپیکٹیوز” کا تازہ شمارہ (جلد15 نمبر1، 2018) پاکستان اور پاکستان سے باہر قارئین کے لیے دستیاب ہے۔ پالیسی پرسپیکٹیوز ابھرتے ہوئے متنوع عصری موضوعات پر آئی پی ایس کے تحقیق کاروں اور ایسوسی ایٹس کی علمی و تحقیقی کاوشوں کا نچوڑ ہے۔

اس شمارے میں اہم عالمی نظری مباحثوں کے ساتھ ساتھ عصری اہمیت کے حامل علاقائی اور بین الاقوامی امور پر لکھے گئے تحقیقی مقالات شامل ہیں۔

پہلا مقالہ ”امریکہ بھارت تزویراتی شراکت: پاکستان کے لیے مثال“، اجاگر کرتا ہے کہ نئے عالمی نظام کی وسیع امریکی حکمت عملی کے منصوبوں میں امریکہ اور بھارت دو طرفہ اقتصادی و تزویراتی سیکورٹی مفادات رکھتے ہیں جیساکہ ماضی میں امریکی خواہش رہی ہے کہ وہ دنیا میں اقتصادی و فوجی برتری برقرار رکھے۔پاکستان اپنے اردگرد رونما ہونے والے ان امور سے غفلت برتنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اسے بہرصورت اپنی معیشت کو بحال کرنا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ قومی آہنگی حاصل کرنا چاہیے تاکہ بھارت اور امریکہ کے اس تزویراتی گٹھ جوڑ کے منفی اثرات سے بچ سکے۔

دوسرا مضمون ”بھارت اور پاکستان: امن راستے کے خدوخال“۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کا ایک کثیر موضوعاتی تجزیہ ہے جس میں اس بات کا احاطہ کیا گیا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان حالات کو معمول پر لایا جائے تو بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مضمون میں ان پہلوؤں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں مشترکہ مفادات موجود ہیں اور جن کے ذریعے ان قومی ریاستوں کے درمیان امن کا راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔

تیسرا مضمون ”بھارت کے میزائل پروگرام کی ترقی: پاکستان کے لیے آپشنز“ میں اس پہلو پر بحث کی گئی ہے کہ جنوبی ایشیا میں نئے ہتھیاروں کے نظام بالخصوص BMDs کے شامل ہونے سے یہ خطہ کشمیر جیسے غیرحل شدہ تنازعات کی موجودگی میں بالآخر آہستہ آہستہ جنگ کے خطرے کا شکار ہو جائے گا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک جوہری جنگ کا امکان جو اس علاقے کی آبادی اور دنیابھر کو ایٹمی تابکاری کے اثرات کے خطرے پر یرغمال بنائے رکھے گا۔

”BRI کے تحت چین-جنوبی ایشیا کے درمیان مواصلات: سی پیک ماڈل“ اگلا مضمون ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ BRI ( Belt and Road Initiative) کے طبعی اور فعال پہلو فطری طور پر زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کریں گے۔ گویا ایک جارحانہ ابلاغی حکمتِ عملی BRI منصوبے کے جذبے کو بڑھانے کے لیے ایک لازمی عنصر ہو گی جس سے اس کو حقیقی معنوں میں کامیاب بنایا جا سکے گا۔

اگلے مضمون ”جنوبی ایشیا میں بحری سیاست اور پاکستان کے لیے سی پیک میں مجبوریاں“میں اس موضوع کا احاطہ کیا گیا ہے کہ سمندری بندرگاہوں کی ترقی میں BRI کے کردار پر بالعموم اور گوادر کے سی پیک کا حصہ ہونے پر بالخصوص ایک ایسا ماحول پیدا ہو گیا ہے جس نے بھارت کو اپنے خدشات بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور اپنے لیے نئے بحری مقاصد کو بڑھانے پر لگا دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام آباد اپنے پتے انتہائی احتیاط سے کھیلے اور اپنا تزویراتی ردعمل مناسب طریقے سے دے۔ اپنی بحری صلاحیت میں ترقی کا عمل بلاروک ٹوک تسلسل سے جاری رکھے اور چین کے ساتھ بحری تعاون کو اور بھی قریب لے کر آئے۔

چھٹے آرٹیکل ”انسانی سلامتی اور وسط ایشیا کی ریاستیں“ میں اس رائے کا اظہار کیا گیا ہے کہ وسط ایشیا میں مستقل سیکورٹی اور ترقی اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک انسانی سلامتی کے مختلف پہلو اس خطے کی حکومتوں کی ترجیحات نہیں بن جاتے۔ اس میدان میں بہتری لانے کے لیے تین سطح کی حکمت عملی درکار ہے: قومی، علاقائی اور بین الاقوامی۔

اگلا مضمون ”ترکی کی خارجہ پالیسی میں وسط ایشیا کا مقام“ اس موضوع کا احاطہ کرتا ہے کہ یوکرین کی علاقائی و سیاسی ترقی اور روسی معیشت کی ڈرامائی سست رفتاری کی وجہ سے ترکی کے وسط ایشیا میں متوازن کردار کو ماسکو میں مفید پہلو سے دیکھا گیا ہے۔ مزید براں ترکی میں ناکام فوجی بغاوت (جولائی 2016ء) کی کوشش کے بعد روس اور ترکی کی قیادت نے ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ مراسم کا اظہار کیا ہے اور یہ عمل ان کے تعلقات کو مضبوط بنا سکتا ہے یوں یہ دونوں ممالک وسط ایشیا کے علاقے کی ترقی میں تعمیری کردار ادا کرسکتے ہیں۔

آٹھویں آرٹیکل کا عنوان ہے: ”افغانستان میں چین کی مصروفیات: خطے پر اس کے اثرات“۔ گزشتہ چند سالوں میں چین نے افغانستان میں اپنی دلچسپیوں اور مصروفیات میں اضافہ کیا ہے۔ افغانستان میں اس نے دوطرفہ تجارت اور سرمایہ کاری میں بھی کافی اضافہ کیا ہے۔ اس رجحان کے باعث جنگ سے تباہ حال ملک میں تعمیر اور بحالی کی راہ میں نہ صرف مدد ملے گی بلکہ علاقائی استحکام میں بھی اہم کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا۔

آخری مضمون ”افغانستان میں امریکی موجودگی کے 16سال: مقاصد، حکمت عملی اور ابھرتا ہوا منظرنامہ“ میں تجزیہ کیا گیا ہے کہ افغانستان میں امریکی مداخلت 17ویں سال میں داخل ہو رہی ہے۔ یہ امریکی تاریخ کی سب سے طویل جنگ تو پہلے ہی قرار پا چکی ہے تاہم یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ یہ امریکہ کی سب سے متنازعہ مہنگی جنگ بھی ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ جنگی اخراجات اور اس کے نتیجے میں تعمیراتی اخراجات کی مد میں جو تخمینہ لگایا گیا ہے اس کے مطابق امریکہ کے اس جنگ میں 1ٹریلین امریکی ڈالر خرچ ہوئے ہیں جبکہ افغانستان حکومت کو دی جانے والی امداد 2020ء تک جا سکتی ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پرنٹ ایڈیشن کے ساتھ ساتھ پالیسی پرسپیکٹیوز پلوٹو جرنلز کے ذریعے عالمی قارئین کے لیے (JSTOR(http://www.jstor.org/journal/polipers پر آن لائن دستیاب ہے اور Asianet-Pakistan کے ذریعے Factiva اور منسلک بین الاقوامی ڈیٹا بیسز پر بھی دستیاب ہے۔

مزید براں اس کے دونوں پرنٹ ایڈیشن(  شائع کردہ Ebsco (Sage اور Ovid کی ویب سائٹس کے ذریعے آن لائن اشاریے  (IPSA( International Political Science Abstract  کے ڈیٹا بیس میں شامل ہیں۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے